پاک امریکہ تعلقات ۔ سابق صدرجنرل محمد ایوب خان کے خیالات

اس گفتگو میں ایک پاکستانی سیاستدان نے مسٹر ہالبروک سے کہا کہ امریکہ ہمارا آقا نہ بنے بلکہ دوست بنے اور دوستوں کی طرح ہمارے ساتھ معاملات کرے۔ یہ بات بھی صدائے بازگشت ہے پاکستان کے سابق صدر جناب محمد ایوب خان مرحوم کے اس رد عمل کی جو انہوں نے پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ دوستی کی پرخلوص کوششوں اور امریکہ کی طرف سے اس کے کم از کم الفاظ میں غیر مثبت جواب پر ظاہر کیا تھا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل جو کتاب شائع کی اس کا نام ہی ’’آقا نہیں دوست‘‘ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۰۹ء

کیا قرآن کریم اور سماج کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے؟

ایک فاضل دوست نے شکوہ کیا ہے کہ جب ہم سماجی مطالعہ اور معاشرتی ارتقاء کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ قرآن کریم کی آیات پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ محترم دانشور کے ایک حالیہ کالم میں یہ بات پڑھ کر بے حد تعجب ہوا اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا قرآن کریم اور سماجی مطالعہ ایک دوسرے سے ایسے لاتعلق ہیں کہ سماج کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے قرآن کریم کو (نعوذ باللہ) لپیٹ کر ایک طرف رکھ دینا چاہیے؟ اور کیا ہماری دانش خدانخواستہ اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ سوسائٹی اور سماج کے معاملات کو دیکھتے ہوئے قرآن کریم کا حوالہ بھی اسے اجنبیت کی فضا میں لے جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ اگست ۲۰۱۶ء

دینی اداروں میں یوم آزادی کی تقریبات

قیام پاکستان کے فورًا بعد اس کی مخالفت کرنے والے سرکردہ علماء کرام بالخصوص ان کے دو بڑے راہ نماؤں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی طرف سے واضح طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ یہ اختلاف پاکستان کے قیام سے پہلے تھا جبکہ پاکستان بن جانے کے بعد یہ اختلاف باقی نہیں رہا۔ مولانا سید حسین احمدؒ مدنی نے تو یہاں تک فرما دیا تھا کہ مسجد تعمیر ہونے سے پہلے اس کے نقشہ اور سائز کے بارے میں اختلاف ہو جایا کرتا ہے لیکن جب مسجد بن جائے تو وہ جیسے بھی بنے مسجد ہی ہوتی ہے اور اس کا احترام سب کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ اگست ۲۰۱۶ء

کویت ایئرویز کا تجربہ اور اردو کی بے چارگی

کویت ایئرویز کے ذریعے زندگی میں پہلی بار سفر کا موقع ملا۔ عید الاضحیٰ کی تعطیلات کے دوران مجھے دارالعلوم نیویارک میں اساتذہ و طلبہ کے لیے ’’دینی تعلیم کے معروضی تقاضے‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی سات روزہ ورکشاپ میں شرکت کے لیے امریکہ آنا تھا۔ میں ہمیشہ قومی ایئرلائن سے سفر کو ترجیح دیتا ہوں مگر اس بار کویت ایئرویز کے ٹکٹ میں 20 ہزار روپے سے زائد رقم کی بچت دیکھ کر یہ ترجیح بدلنا پڑی۔ اس لیے کہ مجھ جیسے فقیر آدمی اور بلانے والے دینی اداروں کے لیے یہ فرق خاصا نمایاں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ نومبر ۲۰۱۱ء

حج کے موقع پر امریکہ کے خلاف تنقید پر پابندی

10 فروری 2002ء کو لاہور کے ایک روزنامہ نے ریاض سے ’’آن لائن‘‘ کے حوالہ سے یہ خبر شائع کی ہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے عازمین حج کو انتباہ کیا ہے کہ ادائیگی حج کے موقع پر امریکہ کے خلاف تنقید کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ مکہ کے گورنر شہزادہ عبدالمجید بن عبد العزیز نے عربی اخبار ’’عکاظ‘‘ کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ حج امریکہ کے خلاف تنقید کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ فروری ۲۰۰۲ء

تحریک نفاذِ شریعتِ محمدیؐ ۔ مقاصد اور جدوجہد کے پس منظر میں

1975ء میں دیر میں جنگلات کی رائلٹی کے حوالہ سے ایک عوامی تحریک ابھری تو اس کے مطالبات میں عدالتی نظام کی تبدیلی کا پرجوش مطالبہ بھی شامل ہوگیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہمیں پہلے والا عدالتی نظام واپس کیا جائے جس میں مقدمات کے فیصلے جلدی اور شریعت کے مطابق ہوتے تھے۔ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اس مطالبے کو اس حد تک تو منظور کر لیا کہ پاکستان کا مروجہ عدالتی نظام مالاکنڈ ڈویژن میں معطل کر دیا مگر سابقہ عدالتی نظام بحال کرنے کی بجائے ایک نیا عدالتی نظام فاٹا ریگولیشن کے نام سے رائج کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ اگست ۱۹۹۵ء

اسامہ بن لادن اور امریکی تحریک آزادی کے جنگجو

ایک معاصر اخبار نے این این آئی کے حوالے سے یہ خبر شائع کی ہے کہ امریکی کانگریس کی ایک خاتون رکن مارکی کیپٹر (Marcy Kaptur) نے اسامہ بن لادن کو دہشت گرد قرار دینے کے موقف سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ اسامہ بن لادن مذہبی طور پر آزادی کی جنگ لڑنے والے انقلابی رہنماؤں کی طرح ہیں جیسا کہ امریکہ میں 1770ء میں ورماؤنٹ ملیشیا نے برطانوی سامراج کے خلاف اسی طرح کی جدوجہد کی تھی۔ مارکی کیپٹر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اوہایو ڈسٹرکٹ سے گیارہویں بار کانگریس کی رکن منتخب ہوئی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ مارچ ۲۰۰۳ء

ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کا آغاز

یہ جنگ سیکولرازم کے نام پر انسانی اجتماعیت کو مذہب سے لاتعلق قرار دینے، اور اجتہاد مطلق کے نام پر نئی اور من مانی تعبیر و تشریح کے ذریعہ دین کو اپنے نظریات و مقاصد کے سانچے میں ڈھالنے کے دو محاذوں پر جاری ہے۔ اور اسی نظریاتی اور فکری معرکہ میں اہل حق کی خدمت اور ترجمانی کے لیے ’’الشریعہ‘‘ اپنے سفر کا آغاز کر رہا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس فکری و نظریاتی جہاد میں الشریعہ کو اہل فکر و نظر کی سرپرستی حاصل رہے گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور احباب کے تعاون سے الشریعہ دین و قوم کی بہتر خدمت کر سکے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۱۹۸۹ء

قدرتی آفات ۔ اسباب و عوامل اور ہماری ذمہ داری

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سوال کہ زلزلہ کون لایا ہے بظاہر غیر ضروری معلوم ہوتا ہے لیکن مجھے اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بعض دانشوروں کی طرف سے کھلے بندوں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس زلزلہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ یا سزا سمجھنے کی بجائے فطری قوانین اور نیچرل سورسز کی کارروائی سمجھا جائے کہ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور نیچرل سورسز کے حوالے سے یہ معمول کی کارروائی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ نومبر ۲۰۰۵ء

قاری ملک عبد الواحدؒ

قرآن کریم کی تلاوت کا خاص ذوق رکھتے تھے اور عالم اسلام کے معروف قاری الشیخ عبد الباسط عبد الصمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے لہجے میں قرآن کریم پڑھتے تو عجیب سماں باندھ دیتے تھے۔ اپنے بزرگوں کی گفتگو کی نقل اتارنے میں خوب مہارت رکھتے تھے۔ حضرت درخواستیؒ ، حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، صاحبزادہ سید فیض الحسنؒ ، اور مولانا عبد الرحمن جامیؒ کی تقریروں کے حافظ تھے اور دوستوں کی فرمائش پر انہی کے لہجے میں سنایا کرتے تھے۔ وہ اگر سامنے موجود نہ ہوتے تو اچھے خاصے سمجھدار حضرات بھی مغالطہ میں پڑ جاتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اگست ۲۰۱۶ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter