مقالات و مضامین

جہادِ کشمیر کی شرعی حیثیت: علامہ عثمانیؒ اور مولانا یوسف کا نقطۂ نظر

جب سے جنرل پرویز مشرف کو بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے دورۂ دہلی کی دعوت ملی ہے تب سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے دونوں طرف سے سرکاری اور غیر سرکاری رابطوں کا سلسلہ بھی بڑھ گیا ہے، اور اس کے ساتھ ہی ایک مخصوص حلقہ لوگوں کے ذہنوں میں اس شک اور تردد کو پھر سے ابھارنے میں مصروف ہو گیا ہے کہ کشمیر کی جنگ شرعاً جہاد بھی ہے یا نہیں؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جون ۲۰۰۱ء

جہادِ کشمیر کی ایک تاریخی دستاویز

تحریکِ آزادئ کشمیر کے سلسلہ میں ایک گزشتہ کالم کے حوالے سے ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں جس کی طرف محترم سید بشیر حسین جعفری صاحب نے اپنے تفصیل خط میں توجہ دلائی ہے۔ اور بعد میں گزشتہ روز ایک ملاقات میں بھی انہوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ یہ کہ ۱۹۴۷ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بغاوت اور جہاد کے لیے حضرت مولانا سید مظفر حسین ندوی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جولائی ۲۰۰۱ء

جہادِ کشمیر اور شہدائے بالاکوٹ

جہادِ کشمیر کے بارے میں گزارشات پر محترم سید بشیر حسین جعفری صاحب نے قلم اٹھایا اور دو باتوں کو محلِ نظر ٹھہرایا ہے۔ ایک یہ کہ ۱۹۴۷ء کے جہادِ کشمیر میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان کا کوئی سرگرم کردار رہا ہے۔ اور دوسری یہ کہ ۱۸۳۱ء میں مجاہدینِ بالاکوٹ اور راولاکوٹ کشمیر کے مجاہدین کی جدوجہد کا دور ایک ہونے کے باوجود ان کے درمیان کوئی رابطہ تھا یا نہیں؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ جون ۲۰۰۱ء

تحریکِ بالاکوٹ اور جہادِ کشمیر

’’تحریکِ بالاکوٹ اور جہادِ کشمیر‘‘ کے عنوان سے محترم سید زاہد حسین نعیمی صاحب نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے جو راقم الحروف اور محترم سید بشیر حسین جعفری کے درمیان زیر بحث ہے۔ نعیمی صاحب نے جعفری صاحب کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ مجاہدینِ بالاکوٹ اور مجاہدینِ کشمیر کے درمیان تعلق کا ثبوت ابھی تحقیق طلب ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اگست ۲۰۰۱ء

جہادِ کشمیر اور علماءِ کشمیر کا موقف

گزشتہ روز آزاد کشمیر کے سرحدی شہر عباس پور میں حرکۃ المجاہدین کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ’’جہادِ ہند کانفرنس‘‘ میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ کانفرنس عباس پور سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں عبد القیوم اور حامد رشید کی یاد میں منعقد ہوئی، جنہوں نے آزادئ کشمیر کی خاطر سرحد پار انڈین آرمی سے معرکہ آرائی میں جامِ شہادت نوش کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ جون ۲۰۰۱ء

جہادِ کشمیر کی شرعی حیثیت کے بارے میں دو شبہات کا جائزہ

جہادِ کشمیر کی شرعی حیثیت کے بارے میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان کے حوالے سے علماء کشمیر کا یہ موقف اس کالم میں عرض کیا جا چکا ہے کہ ان کے نزدیک انڈین آرمی کے خلاف مجاہدین کی یہ عسکری تگ و تاز شہدائے بالاکوٹ کے اس جہاد کا تسلسل ہے جس کا مقصد کشمیر کو آزاد کرا کے ایک اسلامی ریاست کی حیثیت دینا تھا، اور جب تک یہ مقصد پورا نہیں ہو جاتا جہاد کو بہرحال جاری رہنا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ جون ۲۰۰۱ء

تحریکِ آزادئ کشمیر کا ایک اہم باب

راولپنڈی سے شیخ تجمل الاسلام صاحب کی ادارت میں ’’استقلال‘‘ کے نام سے ایک ماہوار جریدہ طبع ہوتا ہے جس کا بنیادی موضوع کشمیر ہے اور آزادئ کشمیر کے حوالے سے معلوماتی اور مفید مضامین اس میں شائع ہوتے ہیں۔ اگست ۲۰۰۱ء کے شمارہ میں اس جریدہ کے مدیر محترم نے ۱۹۳۱ء کی تحریکِ کشمیر کو اپنے شذرات میں گفتگو کا موضوع بنایا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ اگست ۲۰۰۱ء

حضرت سلمان فارسیؓ کی مختصر سرگزشت

گزشتہ دنوں بخاری شریف کے درس میں ایک دلچسپ واقعہ نظر سے گزرا جو امام بخاریؒ نے بخاری شریف کی ’’کتاب الادب‘‘ میں بیان کیا ہے اور جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا فطری اور خوبصورت توازن بیان کیا گیا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ واقعہ قارئین کے سامنے بھی ذکر کر دیا جائے۔ حضرت سلمان فارسیؓ ایران کے رہنے والے تھے، مجوسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور آتش پرست تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ ستمبر ۲۰۰۱ء

اسلام میں خواتین کے حقوق اور مغربی پراپیگنڈا

عالمی سطح پر خواتین کا ہفتہ منایا جا چکا ہے اور ہمارے معروف کالم نگار جناب اسلم کھوکھر کی تصنیف ’’دنیا کی نامور خواتین‘‘ اس وقت میرے سامنے ہے جس میں انہوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے ڈیڑھ سو سے زائد نامور خواتین کے حالات اور کارناموں کا تذکرہ کیا ہے۔ اور ساڑھے چھ سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت اور معلوماتی کتاب فکشن ہاؤس ۱۸، مزنگ روڈ لاہور نے شائع کی ہے۔ کتاب کا آغاز ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے ہوا ہے اور ان کے بعد ام المومنین حضرت عائشہؓ کا تذکرہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ مارچ ۲۰۰۱ء

مانچسٹر میں مسجد امدادیہ کی افتتاحی تقریب

الحاج ابراہیم باوا صاحب تبلیغی جماعت کے پرانے بزرگوں میں سے ہیں اور احکامِ شریعت کی پابندی کے اس قدر سختی کے ساتھ داعی ہیں کہ خود تبلیغی جماعت کی جن باتوں سے انہیں اتفاق نہیں ہوتا اور وہ انہیں شرعی دائرہ سے متجاوز سمجھتے ہیں، ان پر کھلے بندوں اعتراض و نکیر سے بھی نہیں چوکتے اور بعض مسائل پر تبلیغی جماعت کے بزرگوں سے ان کی آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ اکتوبر ۲۰۰۱ء

سود کا خاتمہ: سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف یونائیٹڈ بینک کی اپیل

سود کے خاتمہ کے بارے میں دینی حلقوں کی طویل عدالتی جنگ منزل پر پہنچتے پہنچتے ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس لیے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ نے تیس جون ۲۰۰۱ء تک ملک سے سودی نظام کے مکمل خاتمے کا ٹارگٹ دے کر حکومت کو غیر سودی نظام لانے کے لیے جو ہدایات جاری کی تھیں، انہیں یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی طرف سے دوبارہ چیلنج کر دیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۰۱ء

سیرتِ نبوی ﷺ پر جنرل مشرف کے خیالات اور سودی نظام

چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف صاحب محترم نے گزشتہ روز وزارتِ مذہبی امور کے زیراہتمام منعقد ہونے والی ’’قومی سیرت کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے مختلف مسائل کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار فرمایا ہے اور ان کے بعض ارشادات کے حوالے سے قومی حلقوں میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جون ۲۰۰۱ء

حالاتِ حاضرہ پر پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس

پاکستان شریعت کونسل نے ملک میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد کو تیز کرنے، سودی نظام کے خاتمہ، بڑھتی ہوئی عریانی و فحاشی کی روک تھام، این جی اوز کی اسلام دشمن سرگرمیوں کے تعاقب، دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ، افغانستان کی طالبان حکومت کی حمایت، مجاہدینِ کشمیر کی پشت پناہی، اور خلیج عرب سے امریکی افواج کی واپسی کے لیے مشترکہ جدوجہد کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے ملک کے تمام مکاتبِ فکر کی دینی جماعتوں سے رابطے قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۔

جمعیت علماء اسلام کی پشاور کانفرنس

دارالعلوم دیوبند کی کم و بیش ڈیڑھ سو سالہ دینی، علمی و ملی خدمات کے حوالے سے پشاور میں کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر جمعیت علماء اسلام پاکستان کی قیادت مبارکباد کی مستحق ہے۔ جمعیت علماء اسلام کی دعوت پر ملک بھر سے لاکھوں علماء کرام، دینی کارکنوں اور دیندار عوام نے پشاور میں جمع ہو کر واضح کر دیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے عوام کے ذہنوں میں اس تاریخی جدوجہد کا تسلسل بدستور موجود ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ اپریل ۲۰۰۱ء

یومِ دفاعِ پاکستان

چھ ستمبر کو ملک بھر میں ’’یومِ دفاع پاکستان‘‘ منایا گیا۔ ۱۹۶۵ء میں اس روز بھارتی افواج رات کی تاریکی میں بین الاقوامی سرحد عبور کر کے لاہور پر قبضہ کے لیے چڑھ دوڑی تھیں، مگر پاک فوج کے جیالوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر انڈین آرمی کا راستہ روکا، اور سترہ دن کی جنگ میں دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان کی افواج اپنی سرحدوں کی حفاظت کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ دن ہر سال وطنِ عزیز کے دفاع میں پاکستانی فوج اور عوام کی قربانیوں اور جذبہ کی یاد تازہ رکھنے کے لیے منایا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء

نظامِ خلافت اور عالمِ اسلام

ڈاکٹر میر معظم علی علوی پاکستان کے بزرگ دانشور ہیں اور تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن رہے ہیں۔ ایک عرصہ سے ملک میں نظامِ خلافت کے اَحیا کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسی عنوان پر ان کے خطبات کا ایک مجموعہ کتابی شکل میں شائع ہوا ہے جس کے پیش لفظ کے طور پر ان کی فرمائش پر یہ سطور تحریر کی گئی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ جولائی ۲۰۰۱ء

پاپائے روم اور ان کے معتقدین سے ایک گزارش

پاپائے روم جان پال دوم کی ہدایت پر جمعۃ الوداع کے روز مسیحی برادری نے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے روزہ رکھا، اور اخباری اطلاعات کے مطابق بعض مقامات پر مسیحی دوستوں نے خود روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ مسلمان دوستوں کا روزہ بھی افطار کرایا۔ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق روزہ پہلی امتوں پر بھی فرض تھا اور منتخب امتوں کے لیے روزوں کی تعداد اور روزے کا یومیہ دوران مختلف رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ دسمبر ۲۰۰۱ء

معاشرتی جرائم کی شرعی سزائیں اور بائیبل

پروفیسر گلزار وفا چوہدری کے حوالے سے گزشتہ کالم میں ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ شریعت کے احکام کی خلاف ورزی پر دنیا اور آخرت دونوں جگہ میں سزا اور عذاب کی جو بات مسلم علماء اور فقہاء کرتے ہیں وہ ان کی خود ساختہ نہیں ہے، بلکہ ان کی بنیاد ’’آسمانی تعلیمات‘‘ اور ’’پاک نوشتوں‘‘ پر ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ اگست ۲۰۰۱ء

پاپائے روم اور دمشق کی جامع مسجد اموی

پاپائے روم جان پال دوم نے گزشتہ ہفتے شام کے دارالحکومت دمشق میں جامع مسجد اموی کا دورہ کیا اور شام کے مفتی اعظم الشیخ احمد کفتارو سے ملاقات کے علاوہ مسجد کے ایک حصہ میں عبادت بھی کی۔ پاپائے روم مسیحیوں کے کیتھولک فرقہ کے سربراہ ہیں اور اس مسجد میں جانے والے پہلے پوپ ہیں۔ اخبارات میں الشیخ احمد کفتارو کے ساتھ ان کی فوٹو شائع ہوئی جس کے مطابق وہ مسجد میں مفتی اعظم شام کے ساتھ بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ و ۱۷ مئی ۲۰۰۱ء

اسلامی نظریاتی کونسل اور ایک مسیحی شاعر

گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل نے سرکاری ملازمین کے لیے دفاتر میں نماز کی ادائیگی اور پابندی کے اہتمام کی سفارش کی تو ایک گونہ خوشی ہوئی کہ ملک میں عملاً نہ سہی، مگر سفارش اور تجویز کے درجہ میں تو ایک اسلامی ریاست کا تصور اعلیٰ حلقوں میں موجود ہے۔ کیونکہ نماز اسلام کے بنیادی فرائض میں سے ہے اور امیر المومنین حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے اہلکاروں کی کارکردگی کا جائزہ نماز کے حوالے سے لیا کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ اگست ۲۰۰۱ء

مولانا قاضی عبد اللطیف کے دورۂ قندھار کے تاثرات

قاضی صاحب نے بتایا کہ امیر المومنین ملا محمد عمر اور ان کے متعدد وزراء سے ان کی ملاقات ہوئی ہے اور بعض اہم امور پر تفصیلی تبادلۂ خیالات ہوا ہے۔ قاضی صاحب کا کہنا ہے کہ امیر المومنین اور ان کی کابینہ پورے اعتماد اور حوصلے کے ساتھ موجودہ صورتحال اور بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں، اور کسی پریشانی اور گھبراہٹ کے بغیر وہ اپنے اس عزم پر قائم ہیں کہ عالمی دباؤ کے باوجود وہ افغانستان میں مکمل اسلامی نظام قائم کریں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جولائی ۲۰۰۱ء

افغان صدر حامد کرزئی کی خوش فہمی اور غلط فہمی

بون معاہدہ میں تشکیل پانے والی عبوری افغان حکومت کے سربراہ حامد کرزئی اپنے منصب کا حلف اٹھانے سے قبل افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ سے ملاقات کے لیے روم گئے اور وہاں سے واپسی پر عبوری افغان حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے حلف اٹھا چکے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق روم میں ایک گفتگو کے دوران انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ وہ کٹھ پتلی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ دسمبر ۲۰۰۱ء

اسامہ بن لادن اور افغان طالبان کے بارے میں جنرل مشرف کے خیالات

اخباری اطلاعات کے مطابق چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ مغرب کے نامناسب رویہ نے اسامہ بن لادن کو ہیرو بنا دیا ہے۔ عام مسلمان دیکھتا ہے کہ امریکہ سے یا ہالی وڈ کی غیر اخلاقی فلمیں آتی ہیں، یا پھر اسرائیل، بھارت اور روس کے لیے حمایت آتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ مارچ ۲۰۰۱ء

عام انتخابات میں دینی حلقوں کے کرنے کے کام

عام انتخابات سر پر آ گئے ہیں اور مختلف دینی و سیاسی جماعتیں ملک بھر میں الیکشن مہم میں مصروف دکھائی دے رہی ہیں۔ مگر تذبذب اور بے یقینی کی دھند بدستور ملک کے سیاسی افق پر چھائی ہوئی ہے، بلکہ بسا اوقات یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید آخر وقت تک تذبذب اور گومگو کا ماحول قائم رکھنا شاید کسی پلاننگ کا نتیجہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۲۴ء

دفاعِ پاکستان و افغانستان کونسل، ایک خوش آئند پیشرفت

۹ اگست کو اسلام آباد میں ’’دفاع افغانستان کونسل‘‘ کے اجلاس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے پاک افغان سرحد پر مانیٹرنگ ٹیموں کی تقرری کو پاکستان کی قومی خود مختاری کے منافی قرار دینے کا اعلان کیا تو اس موقع پر جنرل حمید گل نے اجلاس کے شرکاء سے کہا کہ یہ صرف افغانستان کا مسئلہ نہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ ستمبر ۲۰۰۱ء

افغانستان میں این جی اوز کی ارتدادی سرگرمیاں

افغانستان میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی این جی اوز کے عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے افراد کی گرفتاری اور طالبان حکومت کی طرف سے انہیں شریعت کے مطابق سزا دینے کے اعلان نے ایک بار پھر عالمی حلقوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے، اور بہت سے سفارتکار خفیہ اور اعلانیہ طور پر اس سلسلہ میں متحرک ہو گئے ہیں۔ طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ این جی اوز کے یہ افراد رفاہی کاموں کے حوالے سے افغانستان میں آئے تھے اور انہیں ایک معاہدہ کے تحت کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ و ۲۳ اگست ۲۰۰۱ء

اپنا اپنا ’’متحدہ محاذ‘‘ اور اپنی اپنی ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘

میاں محمد نواز شریف نے سابقہ دورِ اقتدار کی بات ہے کہ جب ان کی حکومت کو برطرف کر کے جناب بلخ شیر مزاری نے عبوری وزیر اعظم کا منصب سنبھالا اور نئے انتخابات کا اعلان کیا تو مختلف دینی جماعتوں کے سرکردہ حضرات لاہور میں مولانا عبد الرؤف ملک کی رہائشگاہ پر جمع ہوئے۔ ان میں مفتی غلام سرور قادری، میجر جنرل (ر) حافظ محمد حسین انصاری، حافظ صلاح الدین یوسف، مولانا عبدالمالک خان، مولانا عبد الرؤف ملک اور متعدد دیگر احباب کے علاوہ راقم الحروف بھی تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ مئی ۱۹۹۸ء

افغانستان پر پابندیاں اور امریکی حکمرانوں کی غلط فہمی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف عائد کردہ پابندیوں پر سختی کے ساتھ عمل کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور سرحدات پر مانیٹرنگ کے لیے اپنی ٹیمیں بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ جن کے بارے میں طالبان حکومت کے سربراہ ملا محمد عمر نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد پر اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کے افراد کو دشمن تصور کیا جائے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ اگست ۲۰۰۱ء

بین الاقوامی اداروں کی شائع کردہ نصابی کتب کا ایک نمونہ

چند روز پہلے ضلع سیالکوٹ کے گاؤں اوٹھیاں میں ایک پرائیویٹ سکول کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا، جو بچوں میں انعامات کی تقسیم کے سلسلہ میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پر ایک استاد نے بتایا کہ بعض تعلیمی اداروں میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے شائع کردہ اردو کے کتابچے بچوں کو پڑھائے جا رہے ہیں جن میں ٹوپی اور دوپٹے کا مذاق اڑایا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ اگست ۲۰۰۱ء

پاک چین دوستی اور امریکہ کو درپیش خدشات

ہمارے محترم مہمان اور عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم ژورانگ جی کے کامیاب دورہ پاکستان کے بعد جنوبی ایشیا کے بارے میں سیاسی تجزیوں اور قیاس آرائیوں نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے اور عالمی سطح پر صف بندی میں تبدیلیوں کے امکانات پر اظہارِ خیال کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ چین اور پاکستان کی روایتی دوستی اور امریکہ کے ساتھ بھارت کے تیزی سے بڑھتے ہوئے مراسم کے پیش نظر یہ بات اربابِ فکر و نظر کے لیے غیر متوقع نہیں تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ مئی ۲۰۰۱ء

اظہارِ ندامت کا امریکی فریب

امریکی صدر منصبِ صدارت سے الگ ہو کر بھی ذہنی طور پر اپنی ذمہ داریوں سے فارغ نہیں ہوتا اور قومی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے، بلکہ جو کام کوئی صدر عہدہ صدارت پر فائز رہتے ہوئے انجام نہیں دے سکتا اسے کسی نہ کسی سابق صدر کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور وہ ایک سرپرست کے طور پر اسے نمٹانے میں مصروف رہتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ دسمبر ۲۰۰۱ء

اقوام متحدہ اور علماء کرام

میں ایک عرصہ سے علماء کرام اور دینی حلقوں سے گزارش کر رہا ہوں کہ اپنے پیغام اور موقف کو آج کے ماحول میں آج کے انداز اور اسلوب میں پیش کریں اور بریفنگ اور لابنگ کے جدید ذرائع اور تکنیک پر دسترس حاصل کریں، ورنہ وہ اپنی بات آج کی نسل تک صحیح طور پر نہیں پہنچا سکیں گے، اور آج کی نسل کے صحیح بات تک رسائی حاصل نہ کر سکنے کی ذمہ داری نئی نسل کی نسبت علماء کرام اور دینی حلقوں پر زیادہ عائد ہوگی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم مارچ ۲۰۰۱ء

انڈونیشیا: مسیحی اور قادیانی مشنریوں کی شکارگاہ

انڈونیشیا اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سے بڑا مسلمان ملک ہے۔ چھوٹے بڑے ہزاروں جزائر پر مشتمل اس ملک میں چوبیس کروڑ کے لگ بھگ آبادی بیان کی جاتی ہے، جس میں چھیاسی فیصد مسلمان ہیں۔ نصف صدی قبل جب انڈونیشیا ولندیزی استعمار کے تسلط سے آزاد ہوا تو اس کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب چھیانوے فیصد تھا، لیکن مسیحی مشنریوں کی مسلسل تگ و دو سے صورتحال میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ مئی ۲۰۰۱ء

افغان طالبان کی جدوجہد اور پاکستان سے ملحق ریاستوں کے عدالتی نظام

حسبِ سابق اس سال بھی چودہ اگست کو ملک بھر میں پاکستان کا یومِ آزادی منایا گیا۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تقریبات ہوئیں، اخبارات نے خصوصی ایڈیشن شائع کیے، صدرِ مملکت نے مختلف طبقات کے افراد کو تمغوں سے نوازا، اور پاکستان کی تحریک کے مقاصد اور مجاہدین و شہداء کی قربانیوں کا روایتی انداز میں تذکرہ کر کے یہ بساط پھر اگلے سال چودہ اگست کے لیے لپیٹ کر ایک طرف رکھ دی گئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ ستمبر ۲۰۰۰ء

دورِ حاضر کے فتنے اور مدارس کی ذمہ داری

۱۸ نومبر ۲۰۰۰ء کو اسلامک دعوۃ اکیڈمی لیسٹر (برطانیہ) کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا جس میں پاکستان کے ممتاز عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مہمان خصوصی تھے، جبکہ اکیڈمی کے سربراہ مولانا محمد سلیم دھورات کی خصوصی دعوت پر راقم الحروف نے بھی سالانہ اجتماع کی عمومی اور خصوصی دونوں نشستوں سے خطاب کیا۔ خصوصی نشست علماء کرام کی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم دسمبر ۲۰۰۰ء

تنزانیہ میں پانچ سالہ بچے کا ظہور: معجزہ یا فتنہ؟

ان دنوں تنزانیہ کے ایک بچے کا تذکرہ اخبارات اور ٹی وی نشریات میں عام طور پر ہو رہا ہے اور بازار میں بچے کی سرگرمیوں پر مبنی سی ڈیز بھی فروخت ہو رہی ہیں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پانچ برس قبل ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا اور ڈیڑھ سال کی عمر میں اس نے قرآن کریم کی سورتیں پڑھنا شروع کر دیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم جون ۲۰۰۱ء

مخلوط اور جداگانہ طرزِ انتخاب کی بحث اور ایک حل

چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اگلے سال اگست تک ضلعی حکومتیں قائم کرنے اور اس سے پہلے بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے اور یونین کونسل، تحصیل کونسل اور ڈسٹرکٹ اسمبلی کے الیکشن کی تفصیل جاری کی ہے۔ اس موقع پر چیف ایگزیکٹو نے کہا ہے کہ وہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ملک میں جداگانہ الیکشن کے طریقِ انتخاب کو جاری رکھا جائے، یا مخلوط طرزِ انتخاب کو اپنایا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ مارچ ۲۰۰۰ء

ربوہ نہیں چناب نگر : جھنگ کی عدالت کا مستحسن فیصلہ

گزشتہ روز بعض اخبارات میں یہ خبر نظر سے گزری کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ نے قادیانی جماعت کے آرگن ’’الفضل‘‘ کے ایڈیٹر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے جریدہ پر مقام اشاعت کا نام ’’ربوہ‘‘ کی بجائے ’’چناب نگر‘‘ تحریر کریں۔ چنانچہ ’’الفضل‘‘ نے اس کے بعد چناب نگر لکھنا شروع کر دیا ہے۔ نیز خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ربوہ کے نام کی تبدیلی کے بعد چناب نگر کے قادیانیوں نے اس فیصلہ کو قبول نہ کرتے ہوئے اس شہر کے پرانے نام ربوہ پر اصرار جاری رکھا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

-

ماہِ محرم کا سبق

پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی تعلیمی شعبہ کے باذوق حضرات میں سے ہیں، میرے پرانے مقتدی اور حضرت والد محترم نور اللہ مرقدہ کے خصوصی عقیدت مند ہیں، اس لحاظ سے ’’وسیع المشرب‘‘ ہیں کہ استفادے کا تعلق تمام مکاتبِ فکر کے سنجیدہ علماء کرام سے رکھتے ہیں۔ ’’مشرق سائنس کالج‘‘ کے نام سے قائم کردہ ان کے تعلیمی نیٹ ورک میں سات ہزار کے لگ بھگ طلبہ اور طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ دسمبر ۲۰۰۹ء

پاکستان کا مقصدِ وجود اور صورتِ حال: مقتدرہ سے چند گزارشات

دینی جماعتوں کے اتحاد کے سلسلے میں راقم الحروف کی گزارشات کے حوالے سے حضرت مولانا مجاہد الحسینی، مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاری، مولانا محمد احمد حافظ، مولانا محمد شفیع چترالی ، مولانا عبد القدوس محمدی اور دیگر حضرات نے مختلف مضامین میں مفید اور معلوماتی گفتگو فرمائی ہے، ان کی روشنی میں کچھ معروضات چند روز میں تفصیل کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ جنوری ۲۰۱۰ء

جناب رسول اکرم ﷺ کی چند امتیازی خصوصیات

جملہ اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ جناب رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات اور مخلوقات میں افضل ترین ہستی ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ گرامی کے بعد مقام و مرتبت میں جناب نبی اکرمؐ ہی کا نام نامی آتا ہے۔ سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے جناب محمد رسول اللہ تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں تشریف لائے جو سب مخلوقات میں افضل ترین طبقہ اور بزرگ ترین ہستیاں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ جون ۲۰۰۱ء

بارش کی تباہ کاریاں اور ہمارا اجتماعی طرز عمل

بخاری اور مسلم کی روایت کے مطابق ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب کسی طرف سے بادل نمودار ہوتے، گھٹا اٹھتی اور بارش کے آثار نظر آتے تو اسے دیکھتے ہی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کا رنگ متغیر ہو جاتا، آپ پر بے چینی اور اضطراب کی کیفیت نظر آنے لگتی، آپ اٹھ کر ٹہلنے لگتے اور مسلسل دعا فرماتے کہ یا اللہ! اس میں ہمارے لیے خیر ہو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ جولائی ۲۰۰۱ء

امریکہ کی حکمران کلاس سے ایک سوال

سوویت یونین کی شکست و ریخت اور خلیج عرب میں امریکہ کی فوجیں اترنے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا اعلان کر کے واحد سپر پاور کے طور پر امریکہ کی عالمی چوہدراہٹ کے جس ایجنڈے کا آغاز کیا تھا، اسے آگے بڑھانے کے لیے ان کے فرزند جارج ڈبلیو بش وائٹ ہاؤس میں براجمان ہیں اور پوری تندہی کے ساتھ اس پروگرام پر عملدرآمد کے لیے اقدامات کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جولائی ۲۰۰۱ء

امریکی سفیر محترمہ وِنڈی چیمبرلِن اور اسلام کی کشش

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی نئی سفیر محترمہ وینڈی چیمبر لین باذوق خاتون لگتی ہیں جنہوں نے پاکستان میں اپنی تشریف آوری کے مقاصد میں سرکاری و منصبی ذمہ داریوں کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ ذاتی حیثیت سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بھی شامل کر لیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۰۱ء

اَن پڑھ عوام اور تنگ نظر مولوی

’’اوصاف‘‘ کے مراسلات کے صفحہ میں ان دنوں اسلام آباد کی محترمہ شیبا احمد اور اسلام آباد و راولپنڈی کے قارئین کے درمیان ’’مراسلاتی جنگ‘‘ جاری ہے۔ شیبا احمد کو ’’اوصاف‘‘ پر اعتراض ہے کہ وہ محترمہ کے بقول ملک کے پڑھے لکھے اور باشعور شہریوں کی بجائے جاہل، گنوار اور تنگ نظر لوگوں بالخصوص مولویوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کی مخالفت کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ فروری ۲۰۰۰ء

خواتین کے حقوق کا عالمی دن اور مغربی فلسفہ

گزشتہ روز خواتین کے حقوق کا عالمی دن منایا گیا۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں اس سلسلہ میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا، سیمینارز منعقد ہوئے، اخبارات و جرائد نے خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا، اداروں نے رپورٹیں جاری کیں اور خواتین کے حقوق اور ان کی مبینہ مظلومیت اور کسمپرسی کے حوالے سے تجزیے پیش کیے گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ مارچ ۲۰۰۰ء

خلیفۃ المسلمین کے لیے قریشی ہونے کی شرط

ایک صاحب کسی تہہ خانے میں بیٹھے تھے، دوپہر کا وقت تھا اور پوچھ رہے تھے کہ کیا سورج نکل آیا ہے؟ ساتھیوں نے عرض کیا کہ حضرت! سورج نصف آسمان پر جگمگا رہا ہے۔ کہنے لگے کہ مجھے تو نظر نہیں آ رہا۔ دوستوں نے کہا کہ حضرت! یہ روشنی جو تہہ خانے کے کونوں کھدروں تک میں نظر آ رہی ہے اسی سورج کی روشنی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اکتوبر ۲۰۰۰ء

سعودی عرب میں جمہوریت: جارج ڈبلیو بش کا نیا پینترا

صدر جارج ڈبلیو بش کو سعودی عرب اور عالمِ اسلام کے حوالے سے جمہوریت یاد آئی ہے اور انہوں نے اسلام کو جمہوریت کا حامی مذہب قرار دیتے ہوئے سعودی عرب میں جمہوریت کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا ہے، جس پر عالمی سطح پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر بش کچھ دنوں سے اسلام کے حوالے سے مسلسل کچھ نہ کچھ کہہ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ نومبر ۲۰۰۳ء

کیا طالبان تنہا ہو گئے؟

افغانستان میں امریکی اتحاد کی پشت پناہی سے قائم ہونے والی نئی حکومت کے سربراہ حامد کرزئی نے کہا ہے کہ ’’ملا محمد عمر مجرم ہیں، اس لیے اگر وہ گرفتار ہوئے تو انہیں عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے گا‘‘۔ ادھر امریکی اتحاد کا ترجمان بھی بار بار کہہ رہا ہے کہ ’’ملا محمد عمر کا بچ نکلنا ہمیں منظور نہیں ہے، اس لیے نئی حکومت کو انہیں بہرحال گرفتار کرنا ہوگا‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ جنوری ۲۰۰۰ء

اسامہ بن لادن اور اسامہ بن مرشد ؒ

امریکی وزیر خارجہ مسز میڈیلین البرائٹ نے گزشتہ دنوں پھر دھمکی دی ہے کہ عرب مجاہد اسامہ بن لادن بچ نہیں سکیں گے اور بالآخر امریکی ادارے ان تک پہنچنے اور انہیں گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اسامہ بن لادن کی زندگی باقی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس مردِ مجاہد کو گزند نہیں پہنچا سکتی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اگست ۲۰۰۰ء

Pages