حضرت مولانا حافظ نذیر احمد

   
تاریخ : 
۲۸ اگست ۲۰۰۴ء

گزشتہ دنوں ملک کے معروف دینی ادارہ جامعہ ربانیہ پھلور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی سالانہ تقریب میں حاضری کا موقع ملا اور شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ نذیر احمد مدظلہ کی زیارت و ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت مولانا حافظ نذیر احمد میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے دورۂ حدیث کے ساتھیوں میں سے ہیں اور تقریباً ساٹھ سال سے پھلور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقہ میں دینی و تعلیمی خدمات میں مصروف ہیں۔ نابینا ہیں لیکن قرآن و حدیث کے علوم پر اس قدر دسترس رکھتے ہیں جو بڑے بڑے اساتذہ کے لیے قابل رشک ہے۔ ختم بخاری شریف کی تقریب تھی جس میں مجھے دینی مدارس کی اہمیت اور انہیں آج کے حالات میں درپیش مشکلات اور چیلنجز کے حوالے سے گفتگو کے لیے کہا گیا۔ جبکہ میرے علاوہ ملک کے معروف خطیب مولانا محمد عالم طارقؒ، مولانا عبید الرحمان ضیاء اور برمنگھم سے آئے ہوئے جمعیۃ علمائے برطانیہ کے سیکرٹری جنرل مولانا صاحبزادہ امداد الحسن نعمانی نے بھی خطاب کیا۔ لیکن میں آج کی محفل میں حضرت مولانا نذیر احمد مدظلہ کی گفتگو کا تذکرہ کروں گا جو انہوں نے دورۂ حدیث کے طلبہ کو بخاری شریف کا آخری سبق پڑھاتے ہوئے فرمائی۔

ایک عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میں جامعہ ربانیہ کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لیے حاضر ہوا تو ملاقات پر مجھے حضرت مولانا نذیر احمد مدظلہ نے سرگوشی کے انداز میں فرمایا کہ ’’تم میرے بھتیجے لگتے ہو‘‘۔ میں چونک سا گیا کہ دنیا میں میرے ایک ہی چچا حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم ہیں جو حضرت والد صاحب کی طرح علیل ہیں، اللہ تعالیٰ ان دونوں کو صحت کاملہ عاجلہ سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ مولانا نذیر احمد نے فرمایا کہ میں نے بھی اسی سال دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث میں شرکت کی تھی جس سال تمہارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے دورۂ حدیث پڑھا تھا، اس لیے تم میرے بھتیجے لگتے ہو۔ مجھے اس سے قبل اس بات کا علم نہیں تھا اس لیے یہ جان کر خوشی ہوئی اور تب سے یہ چچا بھتیجے کا رشتہ قائم ہے۔ جب ملتا ہوں دعاؤں اور شفقتوں سے نوازتے ہیں جس سے میری بیٹری چارج ہو جاتی ہے۔

اس درس میں انہوں نے بخاری شریف کے آخری باب اور حدیث کے حوالہ سے کچھ ضروری باتوں کا تذکرہ کیا، قیامت کے دن اعمال کے تولے جانے کے بارے میں اہل سنت کے عقیدہ کی وضاحت کی اور معتزلہ وغیرہ کا رد کیا۔ انہوں نے علمی دلائل کے ساتھ ساتھ دل لگی کے انداز میں ایک بات یہ فرمائی کہ معتزلہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن اعمال تولنے کی ضرورت ہی کیا ہوگی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو تو ہر چیز کا علم ہے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ اعمال کے تولے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان بے وقوفوں کو بتائیں گے کہ تم کہتے تھے کہ اعمال کا وزن نہیں ہوسکتا، دیکھو تل رہے ہیں یا نہیں؟

حضرت نے دورۂ حدیث کے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہیں وہی نصیحتیں کرنا چاہتا ہوں جو ہمیں ہمارے دو اساتذہ نے دورۂ حدیث کے اختتام پر کی تھیں۔ ایک بزرگ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علیؒ تھے جنہوں نے ہمیں نصیحت کی کہ پڑھنے پڑھانے کا شغل جاری رکھنا اس لیے کہ علم کی پختگی پڑھنے پڑھانے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اور تعلیم و تدریس میں اس بات کی طرف توجہ نہ دینا کہ ضرور بڑے درجے کی کتابیں ہی پڑھانی ہیں بلکہ جو کتاب بھی پڑھانے کا موقع ملے پوری توجہ سے پڑھائیں اور کسی کتاب کو چھوٹا نہ سمجھیں۔ علم میں اسی طرح ترقی نصیب ہوگی، استحکام حاصل ہوگا۔ دوسرے بزرگ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ تھے جنہوں نے ہمیں فرمایا کہ تم دورۂ حدیث مکمل کر کے فارغ ہو رہے ہو مگر یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے تمہیں عالم بنا دیا ہے، تم عالم نہیں بنے۔ اس غلط فہمی میں کبھی نہ پڑنا کہ دورۂ حدیث پڑھ کر تم عالم بن گئے ہو، ہم نے تمہیں صرف عالم بننے کا طریقہ سکھایا ہے اور تمہارے اندر یہ صلاحیت و استعداد پیدا کی ہےکہ اگر تم چاہو تو عالم بن سکتے ہو۔ اب علم کا میدان تمہارے سامنے ہے اس صلاحیت و استعداد کو استعمال کرتے ہوئے تم جس درجہ کے عالم بننا چاہتے ہو بن سکتے ہو۔ پڑھنے پڑھانے کا شغل جاری رکھو گے اور مطالعہ کا معمول رکھو گے تو علم حاصل ہوگا۔

یہ کہہ کر حضرت مولانا نذیر احمد نے فرمایا کہ دیکھو میں نے ۱۹۴۴ء میں اس علاقہ میں دین کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا تھا اور ساٹھ سال سے مسلسل پڑھا رہا ہوں مگر میں تمہیں اپنے اس احساس سے ضرور آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ میں ابھی تک عالم نہیں بن سکا، میں خود کو ابھی تک طالب علم سمجھتا ہوں۔ عالم تو پرانے بزرگ تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں علم کی تعلیم و تدریس کے لیے کھپائیں اور ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور ہم اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ ’’ہدایہ‘‘ فقہ حنفی کی معروف کتاب ہے جو چار جلدوں میں ہے اور ہم اسے اپنے طلبہ کو تین یا چار سال میں پڑھاتے ہیں۔ مگر یہ صاحب ہدایہ نے اپنی اصل کتاب کے خلاصہ کے طور پر لکھی تھی، ان کی اصل کتاب اسی (۸۰) جلدوں میں تھی جس میں انہوں نے فقہ حنفی کے مسائل کو تفصیل کے ساتھ قلمبند کیا تھا۔ مگر بعد میں خیال آیا کہ کتاب زیادہ لمبی ہو گئی ہے اور لوگوں کی ہمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں اس لیے اس کی تلخیص کر دی اور اسے چار جلدوں میں مختصر کر دیا۔ مگر ہمارے لیے یہ مختصر بھی اتنی بڑی ہے کہ بمشکل تین سال میں اسے پڑھ پاتے ہیں۔ عالم لوگ وہ تھے اور علم ان کے پاس تھا۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ علامہ آلوسیؒ کی تفسیر ’’روح المعانی‘‘ آئی جو تیس جلدوں میں ہے تو مجھے شوق ہوا کہ کوئی اس کا مجھے مطالعہ کرا دے، خود نابینا ہوں پڑھ نہیں سکتا، کتابوں کا مطالعہ کسی معاون کی مدد سے کرتا ہوں۔ اس تفسیر کے لیے ایک ساتھی نے مجھ سے وعدہ کیا مگر مجھے تسلی نہ ہوئی، مجھے معلوم تھا کہ یہ کام مشکل ہے اور واقعی ایسا ہوا کہ نہ اس کو وقت ملا او رنہ ہی میں زیادہ وقت نکال سکا۔ اس لیے یہ حسرت دل میں لیے دنیا سے جا رہا ہوں کہ ’’روح المعانی‘‘ کا مطالعہ بھی نہ کر سکا، اس لیے میں تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خود کو کبھی عالم نہ سمجھنا اور علم کی طلب ہمیشہ زندہ رکھنا۔

حضرت مولانا حافظ نذیر احمد جب یہ بات فرما رہے تھے تو ان کا لہجہ گلوگیر تھا اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے، میں ان کے سامنے طلبہ کی صف میں بیٹھا ان کے ارشادات سے فیضیاب ہو رہا تھا اور ان کا حسرت بھرا لہجہ میرے دل و دماغ کو کچوکے دے رہا تھا کہ یہ مردِ درویش بھی جس نے ساٹھ برس کا طویل عرصہ پڑھنے پڑھانے میں گزار دیا ہے اور تقریباً پون صدی کتابوں کے درمیان بسر کر دی ہے اگر یہ بھی عالم نہیں ہیں تو پھر عالم کہلانے کا اور کس کو حق حاصل ہے؟ یہ ان کی کسر نفسی تھی اور طلبہ کو نصیحت کا انداز تھا جس کا اظہار وہ گلوگیر آواز اور آنسوؤں کے ساتھ کر رہے تھے لیکن ان کی بات اس لحاظ سے ٹھیک تھی کہ طالب علمی کا دور بس یہی سیکھنے کا ہوتا ہے کہ انسان میں مطالعہ کا ذوق بیدار ہو جائے اور پڑھنے کی صلاحیت اور استعداد پیدا ہو جائے، باقی سارا کام تو بعد میں کرنے کا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی کو سمندر میں تیرنے کی تربیت دی جائے اور اس کے ساتھ اسے سمندر کی گہرائی، وسعت اور اس میں پائے جانے والے جانوروں کے بارے میں ضروری امور سے آگاہ کر دیا جائے۔ اب اس کے بعد یہ اس کی اپنی ہمت کی بات ہے کہ وہ سمندر میں کتنی گہرائی تک اترتا ہے اور اس کی وسعتوں کو کہاں تک ماپتا ہے۔

اس مردِ درویش کی زبان سے یہ باتیں سن کر میرا ذہن اس دور کی طرف واپس مڑ گیا جب ہم اساتذہ کے سامنے دو زانو بیٹھ کر ان سے کسب فیض کیا کرتے تھے۔ اور سچی بات ہے کہ اس مختصر سے درس میں بڑا مزہ آیا اور بہت کچھ حاصل ہوا۔ یہ چند درویش باقی رہ گئے ہیں جو اکابر و اسلاف کی پرانی روایتوں کے امین ہیں اور جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے پرانے بزرگ کیسے ہوا کرتے تھے۔ اب تو یہ نسل نایاب بلکہ رفتہ رفتہ ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ میں کبھی کبھی یہ سوچا کرتا ہوں کہ ہمیں تو چند بزرگ دیکھنے کو مل گئے ہیں جن کی صحبت و زیارت سے اسلاف کی زندگیوں کی جھلک دکھائی دے جاتی ہے مگر ہماری اگلی نسلوں کا کیا بنے گا؟ اور کیا وہ اپنے ماضی کی حسین روایات و اقدار کی یہ جھلک دیکھنے سے بھی محروم رہیں گی؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter