’’یوم پاکستان‘‘

   
تاریخ: 
۲۲ مارچ ۲۰۱۷ء

’’یوم پاکستان‘‘ کے حوالہ سے ۲۲ مارچ کو بعد نماز ظہر مکی مسجد ملتان روڈ لاہور جبکہ ۲۳ مارچ کو بعد نماز مغرب جامعہ فریدیہ شیخوپورہ میں منعقدہ تقریبات میں کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یوم پاکستان کے حوالے سے ملک بھر میں تقریبات کا سلسلہ جاری ہے اور مختلف حوالوں سے پاکستان کے نظریہ، سالمیت، وحدت اور امن و استحکام کے موضوعات پر اظہارِ خیال کیا جا رہا ہے۔ آزادی اور پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کی دو عظیم نعمتیں ہیں جن پر جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ یومِ پاکستان جہاں ہمیں آزادیٔ وطن کی عظیم جدوجہد کی یاد دلاتا ہے جو ۱۷۵۷ء میں سراج الدولہ شہیدؒ کے معرکہ سے شروع ہو کر ۱۹۴۳ء میں پیرجوگوٹھ سندھ کے عظیم دینی، روحانی اور جہادی مرکز پر برٹش فضائیہ کی بمباری تک پہنچی اور اس دوران برصغیر کے بیسیوں مقامات پر مجاہدین آزادی نے جہاد آزادی کا پرچم سربلند رکھا اور ایثار و قربانی کی ایک عظیم تاریخ رقم کی۔ ۱۷۵۷ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ شہیدؒ اور ۱۹۴۳ء میں سندھ کے پیر آف پگارا پیر سید صبغۃ اللہ شہیدؒ کی پھانسی کے درمیانی عرصہ میں جہاں ٹیپو سلطانؒ، شہدائے بالا کوٹ، حاجی شریعت اللہؒ، حاجی صاحب آف ترنگ زئیؒ، فقیر ایپیؒ، سردار احمد خان کھرلؒ، حافظ ضامن شہیدؒ اور دیگر مجاہدینِ آزادی کی ایک طویل فہرست ہے جن کی خدمات اور قربانیاں تاریخ کے روشن ابواب کی طرح ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے، وہاں تحریکِ پاکستان میں مسلم لیگ کے اکابر زعماء کی جدوجہد کے ساتھ جمعیۃ علماء اسلام کے قائدین کی سعی و محنت بھی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ تحریکِ پاکستان کی حمایت کرنے والے سرکردہ علماء کرام نے ۱۹۴۵ء میں ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کے نام سے اپنی صف بندی کر کے مسلم لیگ کے شانہ بشانہ تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا۔ جبکہ قیامِ پاکستان کے عمل میں ہجرت کرنے والے ان ہزاروں خاندانوں کی قربانیاں بھی ناقابل فراموش ہیں جو ذبح ہوتے اور لٹتے پٹتے قافلوں کی صورت میں پاکستان پہنچے۔

اللہ رب العزت نے ۱۹۴۷ء میں ہمیں آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرتے ہوئے پاکستان کے نام سے ایک الگ خودمختار ریاست عطا فرمائی، مگر گزشتہ سات عشرے گواہ ہیں کہ ہم اس نعمت کی قدردانی کی بجائے مسلسل ناشکری کی راہ پر چل رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اب یہ کہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کیا جا رہا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگانے میں اور پاکستان میں قرآن و سنت کے قوانین نافذ کرنے کے اعلان میں تحریکِ پاکستان کی قیادت سنجیدہ نہیں تھی بلکہ صرف وقتی سیاست کی خاطر ایسا کیا گیا تھا۔ اگرچہ درحقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کے ارشادات اور سابق وزیراعظم خان محمد لیاقت خان شہید کی طرف سے قانون ساز اسمبلی میں پیش کی جانے والی ’’قرارداد مقاصد‘‘ اس خیال کی نفی کرتے ہیں، البتہ قیامِ پاکستان کے بعد زیادہ دیر تک اس مخلص قیادت کا تسلسل باقی نہ رہ سکا اور بیرونی و اندرونی عوامل نے پاکستان کو اس کی اصل منزل کی طرف جانے والے راستہ سے ہٹا دیا۔

نعمت اور اس کی شکر گزاری کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ ’’لئن شکرتم لازیدنکم‘‘ اگر تم نعمتوں پر شکر گزاری کا راستہ اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ نعمتوں میں اضافہ کرتے چلے جائیں گے، لیکن اگر ناشکری کرو گے تو اس کا عذاب بھی بہت سخت ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے کہ جو نعمت مانگ کر لی جائے اس کی ناشکری پر عذاب بھی سخت ترین ہوتا ہے۔ سورہ مائدہ میں بنی اسرائیل کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمائش کی کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پکے پکائے کھانے نازل فرمائے۔ حضرت عیسٰیؑ نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تو مالک الملک نے فرمایا کہ میں تیار کھانے آسمان سے بنی اسرائیل کے لیے نازل کر دیتا ہوں لیکن اس کے بعد بھی اگر ناشکری کی گئی تو ایسا عذاب دوں گا کہ جو دنیا میں کسی اور کو نہیں دیا گیا۔ چنانچہ کھانے نازل ہوتے رہے لیکن جب وہ ناشکری سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کر دیا۔

ہم نے بھی پاکستان مانگ کر لیا تھا اور اس وعدہ پر لیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزاد ملک دے دیا تو ہم اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین کو نافذ کریں گے، مگر سات عشرے گزر جانے کے بعد بھی ہم صرف مطالبات اور اعلانات کے دائرے میں کولہو کے بیل کی طرح گھوم رہے ہیں ۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میری امت پر پہلی امتوں جیسا عذاب نازل نہیں ہوگا بلکہ میری امت پر خدا کے عذاب کی شکلیں مختلف ہوں گی، ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپس کی خون ریزی اور قتل و قتال عام ہو جائے گا، گویا اللہ تعالیٰ باہر سے عذاب بھیجنے کی بجائے امت کے مختلف گروہوں اور طبقات کو ایک دوسرے کے لیے عذاب بنا دیں گے۔ جناب رسول اکرمؐ کے فرمان کے مطابق اس امت پر نازل ہونے والے خدائی عذاب کی دوسری شکل یہ ہوگی ’’سلط اللہ علیھم شرارھم‘‘ کہ اللہ تعالیٰ امت کے شر والے لوگوں کو امت پر مسلط کر دیں گے، یعنی امت کی قیادت اور حکمرانی شرفاء کے ہاتھ میں نہیں رہے گی۔ جبکہ عذاب کی تیسری شکل پیغمبر آخر الزمانؐ نے یہ بیان فرمائی ’’ثم یدعو خیارھم فلا یستجاب لھم‘‘ پھر نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔

المیہ یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کے نتیجے میں مسلط ہونے والے ان عذابوں کا احساس بھی نہیں ہو رہا۔ آج یومِ پاکستان کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے اس مسلسل طرزِ عمل کا احساس کریں، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کریں اور اجتماعی توبہ و استغفار کرتے ہوئے پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانے کے لیے خلوص کے ساتھ عملی جدوجہد کی طرف قدم بڑھائیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اگر ہم توبہ و استغفار کے ساتھ اپنے انفرادی و اجتماعی رویہ کی اصلاح کا راستہ اختیار کر لیں تو پاکستان اپنی داخلی و خارجی مشکلات سے نجات حاصل کر کے امن و سلامتی، ترقی و استحکام اور وحدت و خودمختاری کی حقیقی منزل سے ضرور ہمکنار ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے لیے محنت کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲۵ مارچ ۲۰۱۷ء)
2016ء سے
Flag Counter