قادیانی مسئلے کو ری اوپن کرنے کی تمہیدات؟

   
تاریخ : 
جولائی ۲۰۱۰ء

سانحہ لاہور کے بعد میڈیا پر مختلف اطراف سے قادیانیت کے حوالے سے ہونے والی بحث کے نئے دور نے ملک بھر کے دینی حلقوں کو چونکا دیا ہے اور میاں محمد نواز شریف کے ایک بیان نے انہیں مزید حیرت سے دوچار کیا ہے۔ اگر یہ بحث و مباحثہ سانحہ لاہور اور قادیانی مراکز پر مسلح حملوں کے سیاق و سباق تک محدود رہتا اور ان حملوں کے اسباب و عوامل اور محرکات و نتائج کے حوالے سے گفتگو آگے بڑھتی تو شاید یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی، لیکن اصل مسئلے پر بات بہت کم ہو رہی ہے جبکہ قادیانی مسئلہ اور اس کے بارے میں دستور و قانون کے فیصلوں کو ازسرنو زیر بحث لا کر اس مسئلے کو ’’ری اوپن‘‘ کرنے کی مہم زیادہ سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے۔ جس سے یہ شکوک و شبہات ذہنوں میں سر اٹھانے لگے ہیں کہ شاید یہ سب اسی لیے ہوا ہے کہ قادیانی مسئلے کو ازسرنو زیر بحث لایا جائے اور اسے ’’ری اوپن‘‘ کر کے بحث و مباحثہ کے نئے ماحول میں دستور و قانون کے فیصلوں پر نظر ثانی کی راہ ہموار کی جائے۔

لاہور میں قادیانی مراکز پر مسلح حملوں کی تمام دینی حلقوں نے یکساں طور پر مذمت کی ہے اور اس کے محرکات و عوامل کو ان کی طرف سے جلد از جلد بے نقاب کرنے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ قادیانیوں کے بارے میں تحریک ختم نبوت کے قائدین نے گزشتہ ایک صدی کے دوران کبھی تشدد کی پالیسی اختیار نہیں کی۔ وقتی اور مقامی اشتعال کے باعث اکا دکا واقعات وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں، لیکن اجتماعی طور پر کبھی تشدد اور مسلح کارروائیوں کو روا نہیں رکھا گیا اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اب بھی تحریک ختم نبوت میں شریک جماعتوں اور کارکنوں کا طرز عمل یہی ہے کہ وہ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے تعاقب کے لیے دستور و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پُرامن جدوجہد کر رہے ہیں اور تشدد کی کسی کارروائی کو درست نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام دینی جماعتوں نے لاہور کے واقعات کی مذمت کی ہے اور ان سے براءت کا اظہار کیا ہے، لیکن میڈیا اور لابنگ کے بعض مخصوص حلقے اس واقعے کی آڑ میں قادیانیوں کے کفر و اسلام کو ازسرنو زیر بحث لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور پاکستان کے دستور و قانون میں جو متفقہ فیصلے جمہوری عمل کے ذریعے ہو چکے ہیں، ان کو متنازعہ بنانے کی طرف ان کی توجہ زیادہ ہے۔

حالانکہ معروضی حقائق یہ ہیں کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی امت مسلمہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے پر متفق ہے، ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ دستوری ترمیم کے ذریعے انہیں ملک کی غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا ہے اور عدالت عظمیٰ کا فل بنچ بھی یہی فیصلہ دے چکا ہے۔ مگر قادیانی گروہ ان میں سے کسی فیصلے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور امت مسلمہ کے متفقہ فیصلے کے ساتھ ساتھ دستور و قانون کو بھی مسترد کرتے ہوئے وہ ان کے خلاف دنیا بھر میں کیمپین کر رہے ہیں، حتیٰ کہ سانحہ لاہور کے حوالے سے جو قادیانی راہنما میڈیا پر آئے ہیں، انہوں نے بھی کھلم کھلا اس موقف کو دہرایا ہے کہ وہ دستوری ترمیم اور امتناع قادیانیت آرڈیننس کو نہیں مانتے اور پوری امت مسلمہ کے علی الرغم خود کو مسلمان قرار دینے پر مصر ہیں جو عملاً دستور پاکستان کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔

جہاں تک میاں محمد نواز شریف کے بیان کا تعلق ہے تو دینی حلقوں کو میاں صاحب سے اس قسم کے بیان کی توقع نہیں تھی، اس لیے کہ قادیانیوں کے خلاف قومی فیصلے میں خود پاکستان مسلم لیگ شریک رہی ہے اور دستوری ترامیم کے ساتھ ساتھ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے نافذ کردہ امتناع قادیانیت آرڈیننس کی تشکیل و نفاذ میں خود میاں محمد نواز شریف ان کے شریک کار رہے ہیں۔ اس لیے میاں صاحب موصوف کو اپنے سابقہ کردار، قادیانیوں کے غلط موقف اور امت مسلمہ کے عقائد و جذبات سے آگاہی رکھنے کے باوجود یہ کہنا زیب نہیں دیتا کہ قادیانی محب وطن ہیں اور ہمارے بھائی ہیں۔ انہیں اعتدال و توازن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور معروضی حقائق کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ قادیانیوں کو امت مسلمہ سے الگ ایک غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینے کی تجویز مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے پیش کی تھی اور انہوں نے اس موضوع پر پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ تفصیلی خط و کتابت میں اپنے موقف کو دلائل کے ساتھ واضح کیا تھا۔ چنانچہ میاں محمد نواز شریف کا اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کر دینا دینی حلقوں کے لیے بجا طور پر حیرت کا باعث بنا ہے۔

بہرحال لاہور کے سانحہ کے ذمہ دار عناصر جو بھی ہیں انہوں نے ملک، دین اور قوم تینوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی انتہا پسند تنظیم نے اس کی پلاننگ کی ہے تو یہ قادیانیوں کے ساتھ نمٹنے کا انتہائی غلط طریق کار ہے، اور اگر یہ کارروائی پس پردہ خفیہ ہاتھوں کی کارستانی ہے تو ملک کو نقصان پہنچانے اور پاکستان کے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت کا دائرہ کار وسیع کرنے کی کسی سازش کا حصہ ہے۔ اس بات کا فیصلہ کرنا قانون اور عدالت کا کام ہے کہ اس افسوسناک واقعہ کے عوامل و اسباب کیا ہیں اور یہ کن لوگوں کی کارروائی ہے، لیکن نتائج و عواقب کے حوالے سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ ملک و قوم، دینی حلقوں اور تحریک ختم نبوت کے لیے شدید نقصان کا باعث ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter