شریعت کورٹ آزاد کشمیر کے اختیارات اور حالیہ صدارتی آرڈیننس

   
تاریخ : 
۲۴ جولائی ۲۰۱۷ء

دس جولائی کو پلندری آزاد کشمیر میں مولانا سعید یوسف خان کے فرزند کے ولیمہ کے موقع پر آزاد کشمیر کے چند سرکردہ علماء کرام نے توجہ دلائی کہ ریاست آزاد جموں و کشمیر میں سردار محمد ابراہیم خان مرحوم اور سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم کی حکومتوں کے دور میں حضرت مولانا محمد یوسف خانؒ اور دیگر اکابر علماء کرام کی مساعی سے ضلع اور تحصیل کی سطح پر مقدمات کی سماعت کے لیے جج اور قاضی کے اشتراک سے دو رکنی عدالت کا جو نظام شروع ہوا تھا، اور جس سے لوگوں کے تنازعات شریعت کے مطابق طے ہونے کا سلسلہ چلا آرہا ہے، اسے ختم کرنے اور ہائی کورٹ کی سطح پر قائم شرعی عدالت کو غیر مؤثر بنانے کے لیے سرکاری سطح پر بعض اقدامات عمل میں آچکے ہیں اور کچھ اقدامات زیر تجویز ہیں جن کے بارے میں مؤثر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ میں نے ان حضرات سے عرض کیا کہ اس کے بارے میں موجودہ صورتحال سے تحریری طور پر آگاہ کیا جائے تاکہ اس کی بنیاد پر بات کی جا سکے۔ جبکہ اس سے اگلے روز ۱۱ جولائی کو مظفر آباد کے ایک بڑے اخبار میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان کا بیان بھی نظر سے گزرا کہ مجاہد اول سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم کے دور میں شریعت کورٹ، اسلامی نظریاتی کونسل، افتاء کا نظام اور ضلع و تحصیل کی سطح پر قاضی صاحبان کے تقرر کے جو اقدامات کیے گئے تھے اور جو کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں، انہیں ختم کرنے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے جو قابل قبول نہیں ہے اور مسلم کانفرنس ایسے اقدامات کی مزاحمت کرے گی۔

اس پس منظر میں آزاد کشمیر کے بعض علماء کی طرف سے معروضی صورحال کے حوالہ سے ایک رپورٹ مجھے بھجوائی گئی ہے جو اس کالم کے ذریعہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کی دینی و سیاسی جماعتوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور ریاست آزاد جموں و کشمیر میں اسلامائزیشن کے سلسلہ میں اب تک کیے جانے والے اقدامات کو باقی رکھنے کے لیے مؤثر کردار ادا کریں۔

’’مئی ۲۰۱۷ء میں آزاد کشمیر کی حالیہ گورنمنٹ مسلم لیگ (ن)، جس کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر ہیں، نے صدر ریاست سے چند آرڈیننس جاری کروائے جس کے ذریعہ سے شریعت کورٹ آزاد کشمیر کے بعض اختیارات واپس لے کر ہائی کورٹ آزاد کشمیر کو دے دیے گئے۔ آزاد جموں و کشمیر (تعزیراتی) قوانین نفاذ ایکٹ ۱۹۷۴ء کی دفعات ۲۳ اور ۲۵ میں ترمیم کرتے ہوئے شریعت کورٹ کے الفاظ کو ختم کر کے ہائی کورٹ کے الفاظ شامل کیے گئے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قصاص، دیت اور حدود کے تمام قوانین میں اپیل و نگرانی کے تمام اختیارات جو شریعت کورٹ کو حاصل تھے وہ اب ہائی کورٹ کو حاصل ہوگئے ہیں۔ اور ساتھ ہی اسی ایکٹ کی دفعہ ۳۱ میں ترمیم کر دی گئی جس کے مطابق تمام مقدمات جو فائلوں کی شکل میں شریعت کورٹ کے پاس موجود ہیں ، ہائی کورٹ کے حوالے کر دیے گئے۔

آزاد کشمیر میں تحصیل و ضلع کی سطح پر تحصیل قاضی، سینئر تحصیل قاضی، ایڈیشنل ضلع قاضی اور ضلع قاضی، قصاص و دیت اور حدود قوانین کے مقدمات کی سماعت اور فیصلے کرتے ہیں جن کے ساتھ دوسرے ممبر عدالت ججز ہوتے ہیں۔ چونکہ قرآن و سنت کا گہرا علم اور لاء اینڈ شریعہ کی ڈگری کے حامل قاضی صاحبان ہی ان مقدمات میں فیصلے تحریر کرتے ہیں (جن میں ضابطہ جاتی کارروائی کے لیے ساتھی ججز بھی اپنے دستخط کرتے ہیں) اس لیے ان کے فیصلوں کے خلاف ایپلیٹ شریعت کورٹ کا ہونا فطری تھا۔ بلکہ ریاست کے موقر علماء کرام ۱۹۹۳ء سے قائم شریعت کورٹ کو آئینی عدالت بنائے جانے، اور اس میں وکلاء یا سیشن ججز سے جج کے ساتھ قاضی صاحبان، اور علماء کرام سے ججز شریعت کورٹ لگانے کا دیرینہ مطالبہ رکھتے تھے۔ لیکن اس جائز اور قانونی مطالبے کے حل کی بجائے حکومت نے شریعت کورٹ کو حاصل شدہ اختیارات ختم کر دیے۔

ایک دوسرا آرڈیننس مذہبی طبقے کو مطمئن کرنے کے لیے شریعت کورٹ ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے ایک عالم جج کو شریعت کورٹ میں لگانے کا قانون بنایا جس کے مطابق اسلامی قانون اور تحقیق میں پندرہ سال کا تجربہ رکھنے والا عالم ہائی کورٹ کے جج کے برابر تنخواہ اور مراعات لے گا اور صدر آزاد کشمیر اس کو منتخب کرے گا۔ شریعت کورٹ کا چیف جسٹس وہی ہوگا جو چیف جسٹس ہائی کورٹ ہوگا۔ اور عالم جج کے ساتھ دو سینئر ترین ججز ہائی کورٹ بطور شریعت کورٹ ججز بھی کام کریں گے اور ججز شریعت کہلائیں گے۔

چنانچہ اس طرح اولاً تو قتل، قصاص، دیت اور حدود قوانین کے مقدمات کی نگرانی یا اپیل کی سماعت اس عالم جج یا ججز شریعت کورٹ کے اختیار سماعت سے نکال دیے گئے، اس لیے بطور برکت یہ عالم جج وہاں براجمان ہوگا۔ ثانیاً اگر کوئی شہری یا ضلعی عدالت کسی قانون کے شرعی و غیر شرعی ہونے کی نسبت درخواست لے کر اس شریعت کورٹ کے پاس جائیں گے تو اس سے کوئی کارآمد نتیجہ برآمد نہ ہوگا۔ ثالثاً اگر عالم جج یہ کہے گا کہ فلاں قانون قرآن و سنت کے خلاف ہے اسے تبدیل کیا جائے تو اس کا یہ حکم اس وقت تک نافذ العمل نہ ہوگا جب تک دوسرے دو ججز، جو وکلاء یا سیشن ججز سے منتخب ہونے کی صورت میں آئے ہوئے ہیں، اتفاق نہ کر لیں۔ اس طرح جو خود قرآن و سنت سے واقف نہ ہوں وہ موجودہ قوانین کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرنے سے معذور ہوں گے۔ جو دلالات اور نصوص اور احکام کی آیتوں کے نزول اور اجتہادی آراء کا علم نہ رکھتے ہوں وہ کس طرح اس عالم جج سے اتفاق کریں گے اور جن حضرات کو شریعت کا گہرا علم تو دور کی بات سرسری علم بھی نہ ہو، وہ کیا اس ریاست میں اسلامائزیشن کے کام کو آگے بڑھا سکتے ہیں؟ اس طرح یہ شریعت کورٹ کے ساتھ منظم طریقے سے مذاق کیا گیا ہے۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف آزاد جموں و کشمیر کے ۲۰۱۴ء کے شریعت کورٹ کی تشکیل نو کے فیصلے میں بھی یہ حکم دیا گیا تھا کہ اسے ایک مضبوط اور آئینی عدالت بنایا جائے او رفیڈرل شریعت کورٹ کی طرز پر بنایا جائے، اب یہ آرڈیننس سپریم کورٹ کے فیصلہ کی خلاف ورزی ہے اور توہین عدالت کے مترادف ہے۔ کیونکہ فیڈرل شریعت کورٹ کا مستقل چیف جسٹس ہے، مستقل ججز ہیں، الگ سے بجٹ ہے، حدود قوانین میں اپیلیٹ کورٹ ہے، لیکن شریعت کورٹ آزاد کشمیر کے عناصر ترکیبی میں ان میں سے ایک بات پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔

گزشتہ دنوں روزنامہ سیاست کی وساطت سے سابق چیف جسٹس ہائی کورٹ و سابق جج سپریم کورٹ آف آزاد کشمیر کا عجیب قسم کا کالم پڑھ کر احساس ہوا کہ اتنے بڑے عہدے پر فائز رہنے والی شخصیت کی سوچ کا کیا انداز ہے۔ انہوں نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ۱۹۹۹ء میں ہائی کورٹ آزاد کشمیر کے ایک فل بینچ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ شریعت کورٹ الگ نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہائی کورٹ کے پاس ہی اس کے اختیارات ہونے چاہئیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہائی کورٹ کو اپنی ہی سطح اور برابر کی عدالت کے خلاف کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایسا کوئی فیصلہ اس وقت کی سپریم کورٹ بحال رکھتی تو ۱۹۹۹ء سے ۲۰۱۴ء تک وہی شریعت کورٹ کیسے قائم اور برقرار رہی؟ علاوہ ازیں کیا ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ سپریم کورٹ کے موجودہ ۲۰۱۴ء کے فیصلہ کے بعد بھی برقرار ہے، اور کیا بڑی عدالت کے مابعد والے فیصلہ پر حاوی ہو سکتا ہے؟

موصوف نے یہ بھی لکھ دیا کہ ضلعی سطح کے دو رکنی عدالتی نظام کو یک رکنی کر دیا جائے یعنی قاضی کا منصب ختم کر دیا جائے، اور کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی گورنمنٹ کو آئینی اور قانونی اصلاحات کے لیے مینڈیٹ ملا ہے۔

جبکہ ضلعی سطح کا نظام ۱۹۷۴ء سے خوبصورتی کے ساتھ چل رہا ہے جس میں ۶۲ علماء کرام جو قانون و شریعت کا گہرا علم رکھنے والے لوگ ہیں، بطور قاضی اس نظام کو احسن طریقے سے چلا رہے ہیں اور علمی و قانونی شاہکار فیصلے تحریر کرتے ہیں۔ اور ریاستی اسمبلی نے ایک ایکٹ کے ذریعے اسلامائزیشن کا بہترین نظام قائم کر رکھا ہے، اس کو یک رکنی کرنے کا کیا فائدہ ہے اور یہ دینی تقاضوں اور تحریک آزادی کشمیر کی روح کو متاثر کرنے والا کام آخر کیوں کیا جائے؟ یہ ریاست اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے بذریعہ جہاد حاصل کی گئی تھی، کسی سیکولر ایجنڈے یا لادینی نظام کو رائج کرنے کے لیے نہیں حاصل کی گئی تھی۔ اب یہ حکومت مزید قوانین نافذ کر رہی ہے اور اصلاح کے نام پر ریاست کے دینی ماحول کو کمزور کرنے کے راستے پر گامزن ہے اور دو رکنی عدالتی نظام میں ’’مولوی‘‘ کی شناخت ختم کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ اس اگلے مرحلے کو آسان بنانے کے لیے جان بوجھ کر چند ترامیم کی گئی ہیں اور بعض دوسری ترامیم کے لیے سفارشات تیار کی گئی ہیں۔ چند ایک کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔

پہلی مثال: Juvenile Justice System کے تحت یہ قوانین بنائے جا رہے ہیں کہ نابالغ ملزمان (اٹھارہ سال سے کم عمر) کے مقدمات قتل و جرح دفعات ۳۰۲ تا ۳۳۸ تعزیرات آزاد کشمیر کی سماعت دو رکنی ممبران کے بجائے ایک رکنی عدالت سیشن جج یا جوڈیشل مجسٹریٹ کرے گا۔ گویا تحصیل فوجداری یا ضلعی فوجداری عدالت سے یہ اختیار واپس لینے کے لیے چیف جسٹس ہائی کورٹ نے حکومت کو تحریک کر دی ہے۔ جبکہ ایسے مقدمات کی سماعت قبل ازیں تحصیل فوجداری اور ضلع فوجداری عدالتیں کرتی ہیں جن میں قاضی بطور ممبر کام کر رہا ہے۔ حکومت کو بجائے اس ترمیم کے یہ ترمیم کرنی چاہیے کہ جوینائل جسٹس سسٹم ایکٹ ۲۰۰۳ء میں ترمیم کر کے سیشن جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت کے بجائے الفاظ تحصیل فوجداری و ضلع فوجداری تبدیل کیا جانا چاہیے جو اسلامی فوجداری قوانین نفاذ ایکٹ ۱۹۷۴ء کا تقاضا ہے اور آسان کام بھی ہے۔ جو دو رکنی عدالت بالغ ملزمان کے مقدمات کی سماعت کر سکتی ہے اور نابالغ ملزمان کی سماعت پہلے سے کر رہی ہے، اسے بے اختیار بنانا ایک مہمل اور بے کار کام ہے اور اسلامائزیشن کے راستے کو کاٹنے والی بات ہے۔ تعزیرات آزاد کشمیر ایکٹ میں ترمیم کر کے نابالغان کے مقدمات کی سماعت بھی اسی عدالت میں رکھی جانی صحیح ہے۔

دوسری مثال: منشیات کے مقدمات ۱۹۷۴ء سے آزاد کشمیر میں تحصیل فوجداری عدالت کے دائرہ اختیار سماعت میں رکھے گئے ہیں۔ جبکہ اب CNSA یعنی اینٹی نارکوٹکس ایکٹ کے تحت ان مقدمات کا اندراج ہونے لگا ہے اور اس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج / سیشن جج کو دیے جانے کے لیے تحریک کر دی گئی ہے۔ حالانکہ ایسی ترامیم کے بجائے CNSA (ایکٹ) کے تقاضوں پر عمل کرنے کے لیے الفاظ ایڈیشنل و سیشن جج کی جگہ ایڈیشنل ضلعی فوجداری و ضلعی فوجداری سے مبدل کرنے سے دو رکنی عدالتی نظام میں ہی سماعت رکھی جانی قرین انصاف ہے۔ لیکن گنگا الٹی بہانے کی سرتوڑ کوشش ہے۔ بلکہ اس سے بھی آسان یہ ہے کہ امتناع منشیات ایکٹ میں بھی مناسب ترمیم کر کے دفعہ ۹ سی اور CNSA طرز کی دفعات شامل کی جا سکتی ہیں جن میں کوئی قانونی الجھن نہیں ہے۔

ایک اور مثال: حکومت آزاد کشمیر ATA (اینٹی ٹیررازم ایکٹ) کے تحت دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے سیشن ججز کو ATA کورٹس کا درجہ دے کر انہیں مزید با اختیار بنا رہی ہے۔ اس کا نتیجہ عملی طور پر یہ ہوگا کہ اندراج مقدمہ کے وقت قتل کے مقدمات میں تھوڑی سی ہوشیاری کے ساتھ ATA کی دفعات لگا کر ضلعی فوجداری عدالت کے اختیار سماعت سے نکال کر سیشن جج کی طرف مقدمہ کو پھیر دیا جائے گا جس سے دو رکنی عدالتی نظام کے اختیارات از خود کم ہو جائیں گے۔ حالانکہ تعزیرات آزاد کشمیر میں ہی اس نوع کی دفعات بذریعہ ترمیم شامل کی جا سکتی ہیں اور یہ طریقہ قانونی اور فطری تھا جسے جان بوجھ کر اختیار نہیں کیا گیا۔

اس طرح دو رکنی عدالتی نظام کے اختیارات سلب کرنے کی سیکولر سوچ کام کر رہی ہے۔ اس سلسلہ میں موقر علماء کرام نے اپنے بیانات اور تحریروں میں قادیانی عنصر کی بھی نشاندہی کی ہے کہ ایک اسلامی نظام جو کامیابی سے چل رہا ہے، تمام ضابطوں اور قواعد کے اندر رہ کر کام کر رہا ہے، اسے قادیانی طبقہ، ملحدین اور اسلام دشمن عناصر نشانہ بنانے کے لیے اکٹھے ہوگئے ہیں۔ اس نظام قضاء کی برکت سے پورے خطہ کشمیر میں پرانے مقدمات قتل و جرح تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے۔ جبکہ دیوانی مقدمات پچاس اور ستر سال پرانے ان عدالتوں میں تھوک کے حساب سے پائے جاتے ہیں۔

چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت آزاد کشمیر اسلام کے خلاف اس سازش کو سمجھے اور اس کا حصہ بننے کی بجائے اس کو روکے۔ اور مذکورہ متنازعہ آرڈیننسز کو فوری واپس لے اور شریعت کورٹ کا نہ صرف ایپلیٹ اختیار بحال کیا جائے بلکہ مستقل پانچ ججز آف شریعت کورٹ علماء کرام میں سے لیے جائیں۔ وہ علماء کرام جو شریعت و قانون دونوں کا علم رکھتے ہوں، جس طرح کہ ماضی میں مولانا جسٹس تقی عثمانی، جسٹس پیر کرم شاہ الازہری، جسٹس تنزیل الرحمان اور ڈاکٹر محمود احمد غازی جیسے ماہرین قانون و شریعت کو وفاقی شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی شریعت ایپلیٹ بینچ میں لیا گیا تھا، جنہوں نے مملکت خداداد پاکستان میں اسلامی قوانین کی تطبیق و اسلامائزیشن میں کلیدی کردار ادا کیا۔

اس کے ساتھ پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں اور ریاستی علماء کرام کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر میں تحصیل و ضلع کی سطح پر قائم دو رکنی نظام کو مزید مستحکم کرتے ہوئے شریعت کورٹ کو آئینی حیثیت دے کر مزید با اختیار بنایا جائے، سپریم کورٹ آف آزاد کشمیر میں شریعہ بینچ تشکیل دیا جائے، اور جاری شدہ متنازعہ آرڈیننسز فوری واپس لیے جائیں۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter