امن فارمولا یا مطالبات کا ون وے ٹریفک

   
تاریخ : 
مئی ۱۹۹۷ء

ہمارے ہاں یہ روایت بن گئی ہے کہ ہر سال محرم الحرام کے آغاز سے ایک ماہ قبل ہی ضلعی سطح پر امن کمیٹیوں کے اجلاس شروع ہو جاتے ہیں اور بیشتر اضلاع کے حُکام کو یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ کسی طرح محرم الحرام آرام سے گزر جائے اور ان کے ضلع میں سُنی شیعہ کشیدگی کسی فساد یا خونریزی کا باعث نہ بن جائے۔

محرم الحرام میں امنِ عامہ کو یہ خطرہ بطور خاص اس لیے درپیش ہوتا ہے کہ اہلِ تشیع نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر شہدائے کربلا کی یاد منانے کے لیے عزاداری، ماتم اور جلوس کا جو سلسلہ اختیار کر رکھا ہے اور جسے وہ عبادت کہتے ہیں (اس) کے بارے میں ان کا اصرار ہوتا ہے کہ یہ کھلے بندوں ہو، گلیوں بازاروں اور سڑکوں میں ہو، اور ان کا ماتمی جلوس ان لوگوں کے گھروں کے سامنے سے بھی ضرور گزرے جو اس طریقہ کو پسند نہیں کرتے اور اپنے مذہبی معتقدات کی رو سے اسے جائز نہیں سمجھتے۔

جہاں تک حضرت امام حسینؓ اور خانوادۂ نبوت کا تعلق ہے، جناب رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور ان کے ساتھ محبت و عقیدت رکھنے والا ہر گروہ ان کی آلؓ و اصحابؓ کے ساتھ یکساں عقیدت رکھتا ہے، اپنی مجالس میں ان کا تذکرہ کرتا ہے، ان کی قربانیوں پر خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے، اور ان کے ساتھ نسبت کو باعثِ سعادت سمجھتا ہے۔ لیکن ماتم، سینہ کوبی اور عزاداری کا مروّجہ طریقہ اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک شرعاً درست نہیں، اور یہی اختلاف بہت سے مقامات پر تنازعہ کا باعث بنتا ہے جو بسا اوقات فساد اور خونریزی تک جا پہنچتا ہے، اور اس کے امکانات کو روکنے کے لیے بیشتر اضلاع میں ضلعی حُکام کی توانائیاں اور صلاحیتیں کم و بیش ڈیڑھ دو ماہ تک اسی مقصد کے لیے صرف ہوتی رہتی ہیں۔

اصول کی بات یہ ہے کہ اگر اہلِ تشیع اپنے اس طریقہ کو ضروری اور عبادت سمجھتے ہیں تو یہ ان کا مذہبی حق ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس کا دائرہ ان کے گھروں اور عبادت گاہوں کی چار دیواری تک محدود رہنا ضروری ہے، پبلک مقامات اور اس طریقہ کو جائز نہ سمجھنے والوں کے گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں کے سامنے اس کی نمائش کا شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً کسی طرح بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ اور اسی اصول کو مسلسل نظرانداز کرنے کی وجہ سے فسادات کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔

اس پس منظر میں روزنامہ جنگ لاہور کی ۱۱ اپریل ۱۹۹۷ء کی اشاعت میں یہ خبر نظر سے گزری کہ تحریکِ جعفریہ پاکستان کے ایک وفد نے پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کر کے محرم الحرام میں امن قائم رکھنے کے لیے چودہ نکاتی فارمولا پیش کیا ہے، تو خبر کو اس خیال سے توجہ کے ساتھ پڑھا کہ اہلِ تشیع کی اس نمائندہ جماعت کی قیادت نے امن کے قیام و تحفظ کے لیے ضرور متوازن تجاویز پیش کی ہوں گی۔ لیکن تفصیلی خبر پڑھ کر مایوسی ہوئی کیونکہ ’’امن فارمولا‘‘ کے نام سے پیش کی جانے والی یہ عرضداشت مطالبات کا ’’ون وے ٹریفک‘‘ نکلی جس میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات کے حصول اور مخالفین پر پابندیوں اور قدغنوں کے مطالبات کے سوا کچھ نہیں ہے۔

مثلاً اس میں ایک نکتہ یہ ہے کہ ملک بھر میں تمام جلوسوں کی برآمدگی یقینی بنائی جائے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جلوسوں میں لاؤڈ اسپیکر کی اجازت دی جائے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمارے نظربند اور گرفتار رہا کیے جائیں اور مزید گرفتاریاں نہ کی جائیں۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ علماء اور ذاکرین پر پابندیاں نہ لگائی جائیں، اور پانچواں نکتہ یہ ہے کہ تھانے کی سطح پر علماء، کونسلروں اور معززین کی کمیٹیاں بنائی جائیں جو ان جلوسوں کی نگرانی کریں۔ باقی نکات بھی اسی نوعیت کے مطالبات پر مشتمل ہیں۔

اور لطف کی بات یہ ہے کہ ایک نکتہ میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ یکم محرم الحرام کو کسی اور گروہ کو جلوس نکالنے کی اجازت نہ دی جائے، جس کا مطلب یہ ہے کہ سپاہ صحابہؓ پاکستان نے کچھ عرصہ سے یکم محرم الحرام کو ’’یومِ فاروقِ اعظمؓ‘‘ کے عنوان سے جلوسوں اور مظاہروں کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس پر پابندی لگائی جائے۔ ’’یومِ فاروقِ اعظمؓ‘‘ کے عنوان سے ان جلوسوں کو ہم بھی شرعاً درست نہیں سمجھتے اور اس سلسلہ میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم سپاہ صحابہؓ کی قیادت کے نام مطبوعہ مکتوب میں اپنے موقف کی وضاحت کر چکے ہیں۔ لیکن اس حوالہ سے ہم تحریکِ جعفریہ کی قیادت کی ’’انصاف پسندی‘‘ کی داد دینا چاہتے ہیں کہ اپنے لیے تمام مراعات اور کھلی چھوٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ اپنے مخالفین کو ایک دن بھی جلوس نکالنے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ان گزارشات کے ساتھ ہم تحریکِ جعفریہ پاکستان کے قائدین سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ انہوں نے وزیر داخلہ کو جو عرضداشت پیش کی ہے وہ ’’امن فارمولا‘‘ نہیں بلکہ ’’یکطرفہ مطالبات‘‘ کی فہرست ہے جس سے امن کے امکانات میں نہیں بلکہ فساد اور خونریزی کے مواقع میں اضافہ ہو گا۔ اس لیے اگر وہ فی الواقع امن کے خواہاں ہیں تو یکطرفہ ٹریفک کے اس طرزعمل پر نظرثانی کریں، مسلّمہ قانونی اور اخلاقی اصول کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی عبادات اور رسوم کو عبادت گاہوں اور گھروں کی چار دیواری کے دائرہ میں محدود کریں، اور مذہبی جلوسوں کو اپنے مخالفین کے گھروں، دکانوں اور دینی مراکز کے سامنے سے گزارنے کی ضد چھوڑ دیں۔ اس کے سوا امن کے قیام کا کوئی راستہ نہیں ہے اور امن کی یہ چابی صرف اور صرف اہل تشیع کے ہاتھ میں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter