الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ کے ساتھ ملاقات

   
تاریخ : 
مارچ ۱۹۹۳ء

شام کے بزرگ عالم دین الاستاذ عبد الفتاح ابوغدۃ حفظہ اللہ تعالیٰ کا نام کافی عرصہ سے سن رکھا تھا اور محدث کبیر حضرت الشیخ زاہد الکوثری الحنفیؒ کے مایہ ناز شاگرد اور علمی جانشین کے طور پر ان کا غائبانہ تعارف ذہن میں محفوظ تھا۔ خاتم المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور حضرت السید مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے حوالہ سے علامہ کوثریؒ اور الشیخ ابو غدۃ مدظلہ کا تذکرہ ایک مدت سے علمی مجالس میں سننے میں آرہا تھا اور ملاقات کا اشتیاق تھا۔ کئی بار خواہش ہوئی کہ لندن کا سفر براستہ دمشق ہو جائے تو شاید ملاقات و زیارت کی کوئی صورت نکل آئے مگر ہر کام کا ایک وقت قدرت الٰہی کی طرف سے مقرر ہے اس لیے ایسی کوئی شکل عمل میں نہ آسکی۔

چند برسوں سے شام میں علماء اور دینی حلقوں کے خلاف ریاستی جبر کی خبریں مسلسل سننے میں آرہی ہیں، شام کے صدر حافظ الاسد کا تعلق مذہبی طور پر اہل تشیع کے نصیری فرقہ سے ہے جس کے عقیدہ میں حضرت علیؓ کو (معاذ اللہ) الوہیت کا درجہ حاصل ہے۔ اور سیاسی طور پر وہ بعث پارٹی کے راہ نماؤں میں شمار ہوتے ہیں جو عرب نیشنلزم کی داعی ہے اور اجتماعی زندگی کے ساتھ مذہب کے تعلق کی نفی کرتی ہے۔ گویا سیاسی اصطلاح میں وہ سیکولر ہیں اس لیے شام میں علماء اور دینی حلقوں کی سرگرمیوں کو برداشت کرنا ان کے فکر اور پروگرام کے خلاف ہے۔ چنانچہ شام کے دینی حلقوں بالخصوص اہل سنت حافظ الاسد کی نظر عتاب کا مدت سے نشانہ ہیں، سینکڑوں افراد جام شہادت نوش کر چکے ہیں، ہزاروں لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور ایک دور میں ’’حماہ‘‘ نامی بستی مذہبی حلقوں کا مرکز ہونے کے جرم میں بلڈوزروں کے ساتھ مسمار کی جا چکی ہے۔ گزشتہ سال معلوم ہوا کہ شامی حکومت کے اس جبر و تشدد کے خلاف دینی حلقوں کی جدوجہد کی قیادت الاستاذ ابوغدۃ کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس وقت سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، پھر یہ علم میں آیا کہ الاستاذ ابوغدۃ شام کی اخوان المسلمون کے مرشد عام کی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان باتوں سے نہ صرف یہ کہ ملاقات و زیارت کے اشتیاق میں اضافہ ہوا بلکہ اشتیاق سے بڑھ کر یہ ملاقات فرائض کے دائرہ میں داخل ہو گئی۔ اس لیے لندن سے پاکستان واپسی کے موقع پر سعودی عرب کے سفر کے اہداف میں یہ ملاقات بھی شامل تھی۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک ہفتہ کے قیام کے دوران جمعیۃ علماء اسلام ریاض کے امیر مولانا شبیر احمد صاحب کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے فرمایا کہ الشیخ ابو غدۃ ریاض میں ہی قیام پذیر ہیں اور وہ ان سے رابطہ کر کے ملاقات کا اہتمام کریں گے۔ چنانچہ محترم مولانا شبیر احمد صاحب کی مساعی سے ۲۸ جنوری کو اس دیرینہ آرزو کی تکمیل کا سامان فراہم ہوا، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔ یہ ملاقات ریاض کے محلہ ’’الربوۃ‘‘ میں الاستاذ ابو غدۃ حفظہ اللہ تعالیٰ کی قیام گاہ پر مغرب کے بعد ہوئی اور اس میں مولانا شبیر احمد موصوف کے علاوہ جمعیۃ علماء اسلام ریاض کے سرپرست مولانا قاری تقی الاسلام اور نائب امیر اول مولانا قاری جمیل الرحمان سلیم بھی شریک تھے۔

الاستاذ ابوغدۃ مدظلہ العالی جس محبت و شفقت اور تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آئے وہ اہل علم کی روایتی شان ہے اور ان کی کرم فرمائی اور ذرہ نوازی نے اسلاف کی یاد تازہ کر دی، فجزا للہ احسن الجزاء۔ ان سے ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کے پروگرام اور مقاصد کے حوالے سے مسلم ممالک میں کام کرنے والی دینی تحریکات کے درمیان مشاورت اور مسلسل رابطہ کی ضرورت پر گفتگو ہوئی اور انہوں نے اس سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے ۱۸ جولائی کو لندن میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی دعوت قبول فرمائی۔ ہماری طرح حضرت الشیخ مدظلہ بھی اسی امر کے شاکی ہیں کہ عالم اسلام کے مذہبی حلقوں، علماء کرام اور دینی تحریکات کی جدوجہد کی ترجیحات درست نہیں ہیں، فکری اور نظریاتی کام کا فقدان ہے، اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا ذوق کم ہوتا جا رہا ہے اور باہمی ارتباط و مشاورت کی ضرورت کا احساس موجود نہیں ہے۔ حضرت الشیخ مدظلہ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ مسلم حکومتیں اپنی پالیسیوں اور عمل میں آزاد نہیں ہیں اس لیے دینی تحریکات کو ان پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنی راہیں خود تلاش کرنی چاہیں۔

الغرض حضرت الاستاذ عبد الفتاح ابوغدۃ حفظہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ ملاقات بے حد مفید اور حوصلہ افزا رہی اور ہم اسے ورلڈ اسلامک فورم کے عملی کام میں بابرکت پیشرفت اور نیک فال سمجھتے ہوئے بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت حضرت الشیخ مدظلہ کو صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں اور ہمیں ان سے او ر ان جیسی دیگر علمی و دینی شخصیت سے استفادہ کے مواقع اور توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter