امریکہ میں رؤیت ہلال کا مسئلہ

   
تاریخ : 
۳ ستمبر ۲۰۰۸ء

حسب سابق اس سال بھی امریکہ میں چاند کا مسئلہ زوروں پر ہے اور علمی و دینی مجالس میں ان دنوں زیادہ تر یہی مسئلہ زیربحث رہتا ہے۔ مسلمانوں کا ایک حلقہ ایسا ہے جو فلکیات کے حساب کی بنیاد پر پہلے سے رمضان المبارک اور عید الفطر کے دن کا اعلان کر دیتا ہے چنانچہ اس سال بہت پہلے سے ان کی طرف سے اعلان کر دیا گیا تھا کہ بروز پیر یکم ستمبر کو یکم رمضان المبارک ہوگی۔ ان حضرات کا موقف یہ ہے کہ چونکہ فلکیات کا حساب اس قدر سائینٹفک ہو چکا ہے کہ اس کے اندازوں میں غلطی کا امکان نہیں ہوتا اس لیے جس طرح ہم نمازوں کے اوقات کے تعین میں فلکیات کے حساب اور سائنسی اداروں کی تحقیقات پر اعتماد کر کے پورے سال کا نقشہ پہلے سے چھپوا لیتے ہیں کہ فلاں دن اس وقت سورج طلوع ہوگا، اس وقت زوال ہوگا، اس وقت سورج غروب ہوگا اور اس وقت شفق احمر یا شفق ابیض غائب ہوگی اور اس کے لیے ہم سورج کو دیکھنے اور اس کی چال پر نظر رکھنے کا اہتمام نہیں کرتے، اسی طرح چاند کے معاملے میں بھی سائنسی اداروں کی تحقیقات پر اعتماد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور ان کے بنائے ہوئے نقشوں کے مطابق ہمیں پہلے سے روزے، عید اور قربانی وغیرہ کے ایام کا تعین کر لینا چاہیے۔ چنانچہ وہ عملاً ایسا ہی کرتے ہیں۔

دوسری طرف علماء کرام کی ایک بڑی تعداد اور دینی تنظیموں کا موقف یہ ہے کہ چاند کے معاملے میں چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص رؤیت کا حکم دیا ہے اور تاکید فرمائی ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو اس لیے رمضان، عید الفطر اور حج وغیرہ کے ایام کے تعین کے لیے چاند کی رؤیت ضروری ہے اور اسی بنیاد پر روزے اور عید کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ سورج کی رفتار کے ساتھ ہماری نمازوں کے اوقات کا تعین وابستہ ہے لیکن اس کے بارے میں رؤیت کے اہتمام کا اس طرح کا حکم نہیں ہے اس لیے اس میں ہم سائنسی اداروں کی تحقیقات کو بنیاد بنا لیتے ہیں اور روزانہ سورج کی رفتار دیکھے بغیر پہلے سے نمازوں کے اوقات کا تعین کر لیتے ہیں۔ مگر چاند کے بارے میں رؤیت کا بطور خاص حکم ہے اس لیے اس معاملے میں رؤیت کو ہم ضروری سمجھتے ہیں۔

امت مسلمہ کے جمہور علماء کرام کا موقف یہی ہے اور امریکہ میں بھی دینی حلقوں کی اکثریت اسی پر عمل کرتی ہے البتہ اصولی طور پر رؤیت کی بنیاد پر روزے اور عید وغیرہ کا فیصلہ ضروری سمجھنے کے باوجود اس کی تفصیل پر اختلاف ہے:

  • ایک حلقہ یہ کہتا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی چاند دیکھے جانے کی خبر شرعی اصولوں کے مطابق مل جائے تو روزے اور عید کا اعلان کر دینا چاہیے۔ چنانچہ یہاں کے عرب حلقے اور ان کے دینی مراکز چاند دیکھنے کا اہتمام نہیں کرتے بلکہ سعودی عرب میں چاند کا اعلان ہوجانے پر روزے اور عید کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔
  • مگر بہت سے دینی حلقے بالخصوص پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور دینی مراکز امریکہ میں الگ سے چاند دیکھنے کے اہتمام کو ضروری سمجھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر روزے اور عید کے دن کا تعین کرتے ہیں۔

اس وجہ سے یہاں کم و بیش ہر سال یہ کیفیت ہوتی ہے کہ دو عیدیں تو یقینی ہیں کبھی کبھار بعض علاقوں میں تین عیدیں بھی ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ روز یہاں واشنگٹن میں ایک پاکستانی فیملی سے تعلق رکھنے والے دوست مجھے بتا رہے تھے کہ بعض گھروں میں بھی ایسا ہو جاتا ہے کہ میاں عید کر رہے ہیں اور بیوی روزے سے ہے، باپ کا روزہ ہے اور بیٹے عید کی نماز پڑھنے جا رہے ہیں۔ بعض حضرات اپنے رشتہ داروں سے عید ملنے جاتے ہیں تو وہ آگے روزے سے ہوتے ہیں۔

اس سال بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، ہیوسٹن کے جامعہ اسلامیہ کے مہتمم مولانا حافظ محمد اقبال نے جو چشتیاں سے تعلق رکھتے ہیں اور علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل ہیں اس مسئلہ پر میرے ساتھ ایک مستقل نشست کی کہ ہمارے مرکز میں نمازیوں کی اکثریت عرب حضرات کی ہے وہ سعودی عرب کے اعلان پر روزہ اور عید کرتے ہیں جبکہ ہم امریکہ میں چاند دیکھنے کا اہتمام کرتے ہیں اس لیے ہمارے ہاں ہر سال خلفشار کی صورت ہوتی ہے۔ عرب حضرات ہماری بات نہیں مانتے اور ہم ان کی بات کو قبول نہیں کرتے۔ حافظ محمد اقبال صاحب کا کہنا ہے کہ وہ عمل تو ان حضرات کے ساتھ کرتے ہیں جو امریکہ میں چاند کی رؤیت کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن ان کے خیال میں اب یہ ہوتا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت کے لیے اور مسلمان حلقوں اور خاندانوں کو اس خلفشار سے نجات دلانے کے لیے سعودی عرب کے اعلان پر آجانا چاہیے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں خاصا مواد جمع کر رکھا ہے اور ان کا موقف یہ ہے کہ جب احناف متقدمین کے نزدیک اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں ہے اور ہمارے بڑے اکابر کی صراحت موجود ہے کہ اہل مغرب کی رؤیت اہل مشرق کے لیے حجت ہے تو پھر ہمیں مسلمانوں کی وحدت کے لیے اسی قدیمی موقف کی طرف واپس چلے جانا چاہیے۔

دو روز قبل بالٹی مور میں مولانا محمد عرفان صاحب کے دارالعلوم میں بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر جگہ دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا فتویٰ کیا ہے؟ میں نے ہر جگہ یہ عرض کیا کہ میں مفتی نہیں ہوں اور نہ ہی فتویٰ دیا کرتا ہوں البتہ ایسے مسائل پر یہ رائے ضرور رکھتا ہوں کہ جس معاملے میں فقہی اور شرعی طور پر ایک سے زیادہ آرا کی گنجائش موجود ہو اور اجتہادی بنیاد پر فقہاء کے اقوال مختلف ہوں وہاں مسلمانوں کی اجتماعیت اور عمومی مصلحت کو فیصلے کی بنیاد بنایا جانا چاہیے۔

مثال کے طور پر میں نے ایک مسئلہ کا حوالہ دیا کہ بٹائی یعنی حصے پر زمین کاشت کے لیے دوسروں کو دینے کے بارے میں حضرت امام ابوحنیفہؒ کا فتویٰ یہ ہے کہ یہ ناجائز ہے مگر صاحبین یعنی امام ابویوسفؒ اور حضرت امام محمدؒ اس کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اس پر فقہاء احناف نے تفصیلی بحث کی ہے۔ ایک دور میں اس مسئلہ پر میں نے بھی کچھ کام کیا تھا اور ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں اس موضوع پر میرا ایک مقالہ کئی قسطوں میں شائع ہوا تھا۔ اس دوران فقہاء احناف کی بحث کا مطالعہ کرتے ہوئے حضرت ملا علی قاریؒ کا یہ قول میری نظر سے گزرا جس کا میں نے اپنے مضمون میں حوالہ بھی دیا کہ مزارعت کے مسئلہ پر دلائل تو حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ ہیں لیکن عمومی مصلحت چونکہ صاحبین کے قول پر عمل کرنے میں ہے اس لیے فتویٰ انہی کے قول پر دیا جاتا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے حضرت مولانا ظفر احمدؒ عثمانی نے بھی اسی طرح کی بات لکھی ہے۔ چنانچہ اس نوعیت کے مسائل میں میرا طالب علمانہ رجحان یہی پختہ ہوگیا ہے کہ اجتہادی مسائل میں جہاں دونوں طرف گنجائش موجود ہو فیصلہ کرتے وقت مسلمانوں کی اجتماعیت اور عمومی مصلحت کو ترجیح دینی چاہیے۔

میں نے رمضان المبارک کا آغاز دارالحکومت واشنگٹن کے علاقے میں کیا ہے۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ دارالہدٰی سپرنگ فیلڈ میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب میں تراویح پڑھی گئی ہیں اور تراویح کے بعد میرا بیان ہوا۔ آج پیر کو ہمارا روزہ ہے لیکن واشنگٹن میں ہمارے ہی حلقے کی دوسری مساجد میں نہ تراویح ہوئی ہے اور نہ ہی آج لوگوں کا روزہ ہے۔ دارالہدٰی کے مہتمم مولانا عبد الحمید اصغر نے کل مجھ سے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کیا کہ سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ یہاں کے علماء کرام اور دینی حلقے باہمی مشاورت سے اجتماعی فیصلہ کریں۔ البتہ اس فیصلے میں وہ کسی طرف بھی جا سکتے ہیں۔ وہ اختلاف مطالع کا اعتبار کرتے ہوئے چاند کی علاقائی رؤیت کو بنیاد بنانے کا فیصلہ کریں تو یہ بھی شرعاً درست ہے۔ اور اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کرتے ہوئے سعودی عرب یا کسی دوسری جگہ چاند نظر آنے کے اعلان پر روزہ اور عید کا فیصلہ کریں تو اس میں بھی شرعاً کوئی حرج نہیں۔ مگر اجتماعیت ضروری ہے اور مسلمانوں کو خلفشار سے نکالنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ مولانا عبد الحمید اصغر نے کہا کہ سعودی عرب کے اعلان پر علماء کرام کے تحفظات ہیں کہ وہاں رؤیت پر فیصلہ ہوتا ہے یا کیلنڈر کی بنیاد پر اعلان کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم اس اعلان پر فیصلہ نہیں کرتے البتہ چونکہ جنوبی افریقہ میں بھی چاند دیکھے جانے کا اعلان ہو چکا ہے اور فیصلہ کرنے والے علماء کرام ہیں اس لیے ان کے اعلان پر ہم آج تراویح پڑھیں گے اور کل روزہ رکھیں گے۔

اس موقع پر ایک دوست نے سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ حفظہ اللہ تعالیٰ کا ایک بیان دکھایا جو نیویارک سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’ایشیا ٹربیون‘‘ نے ۳۱ اگست کے شمارے میں اے ٹی وی نیوز کے حوالے سے شائع کیا ہے۔ اس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کی بنیاد پر رمضان اور شوال سمیت دیگر اسلامی مہینوں کی تاریخ کا تعین نہیں کیا جا سکتا اور نیا چاند دیکھے بغیر قبل از وقت پیش گوئی غیر اسلامی ہے۔ اس دوست کا مقصد یہ تھا کہ جب سعودی عرب کے مفتی اعظم رؤیت کو شرعاً ضروری قرار دے رہے ہیں تو سعودی عرب کے رؤیت کے اعلان پر تحفظات کی بنیاد کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ تحفظات تو بہرحال بہت سے علماء کرام کو ہیں اور خود مجھ سے بعض ثقہ اور جید علماء کرام نے مختلف ممالک میں ان تحفظات کا ذکر کیا ہے لیکن اس سلسلہ میں سعودی حکومت سے بات ہونی چاہیے بلکہ خود سعودی عرب کو عالم اسلام کے علماء کرام کو اعتماد میں لے کر رؤیت ہلال کا کوئی ایسا نظام طے کرنا چاہیے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ اور سعودی حکومت کو حرمین شریفین کے حوالے سے اسے دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔

بہرحال میری یہ گزارشات اس مسئلہ پر کسی علمی بحث کا حصہ نہیں ہیں بلکہ اس کے حوالہ سے امریکہ کے مسلمانوں کو درپیش صورتحال کے تناظر میں تاثرات کے طور پر ہیں، اس لیے انہیں اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter