شاہ ولی اللہؒ کی تعلیمات اور فکرِ اقبالؒ میں فرق

   
تاریخ: 
یکم دسمبر ۲۰۱۲ء

یکم دسمبر کو لاہور میں شاہ ولی اللہ سوسائٹی کے زیراہتمام ایک فکری نشست کا انعقاد سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر محمود الحسن عارف کی زیرصدارت ہوا جس میں مختلف اصحاب دانش نے ’’فکر اقبالؒ، شاہ ولی اللہ کی تعلیمات کی روشنی میں‘‘ کے عنوان پر اظہار خیال کیا۔ مقررین میں پروفیسر محمد اکرم چغتائی، پروفیسر حافظ سعد اللہ، ظہیر الدین بابر ایڈووکیٹ، جناب محمد فرہاد اور دیگر حضرات شامل تھے۔ راقم الحروف نے اس موقع پر جو معروضات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور علامہ اقبالؒ جنوبی ایشیا کے ممتاز مسلمان مفکرین میں سے تھے۔ دونوں کے درمیان دو صدیوں کا فاصلہ ہے اور دونوں نے اپنے اپنے دور میں ملت اسلامیہ کی بیداری کے لیے نمایاں فکری اور سیاسی خدمات سر انجام دی ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ کا دور وہ ہے جب اورنگزیب عالمگیرؒ کی نصف صدی کی حکمرانی کے بعد مغل اقتدار کے دورِ زوال کا آغاز ہوگیا تھا اور شاہ ولی اللہؒ کو دکھائی دے رہا تھا کہ ایک طرف برطانوی استعمار اس خطہ میں پیش قدمی کر رہا ہے اور دوسری طرف جنوبی ہند کی مرہٹہ قوت دہلی کے تخت کی طرف بڑھنے لگی ہے، جبکہ علامہ اقبالؒ کو اس دور کا سامنا تھا جب انگریزوں کی غلامی کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد برصغیر کے باشندے اس سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ گویا شاہ ولی اللہؒ غلامی کے امکانات کو دیکھتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کر رہے تھے اور علامہ اقبالؒ غلامی کو بھگتتے ہوئے اس سے قوم کو آزادی دلانے کی جدوجہد میں مصروف عمل تھے۔

شاہ ولی اللہؒ کو یہ خطرہ درپیش تھا کہ جنوبی ہند کے مرہٹے دہلی کے اقتدار کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اس کا سدباب انہوں نے یوں کیا کہ افغانستان کے فرمانروا احمد شاہ ابدالیؒ کو برصغیر کے مسلمانوں کی مدد کے لیے دعوت دی جس کے نتیجے میں پانی پت کی خوفناک جنگ میں مرہٹوں کو فیصلہ کن شکست ہوئی اور شمالی ہند مسلمانوں کے لیے محفوظ ہوگیا، جبکہ علامہ اقبال ؒ اس پریشانی سے دوچار تھے کہ برطانوی استعمار سے آزادی کے بعد اس خطے کا مستقبل ووٹ اور سیاسی عمل کے ذریعہ تشکیل پائے گا جس میں ہندو کی واضح اکثریت مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کو مخدوش کر سکتی ہے، اس کا حل انہوں نے پاکستان کے نام سے مسلمانوں کی الگ ریاست کی شکل میں نکالا اور برصغیر کی تقسیم کی تجویز پیش کر کے مسلمانوں کو سیاسی طور پر محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ گویا خطرہ دونوں کو ایک ہی طرح کا درپیش تھا لیکن دونوں نے اس کا حل اپنے اپنے دور کے تقاضوں اور حالات کی روشنی میں الگ الگ تجویز کیا۔

شاہ ولی اللہؒ کو اپنے دور میں فقہی جمود کا سامنا تھا اور اس جمود کو توڑنے کے لیے انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو قرآن و حدیث سے براہ راست استفادہ کرنے کی دعوت دی بلکہ قرآن کریم اور حدیث نبویؐ کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری کیا اور فقہ میں انہوں نے فقہ حنفی کے اصولی دائرہ کو قائم رکھتے ہوئے توسع اور اجتہاد کو فروغ دینے کی بات کی۔

علامہ اقبالؒ کو بھی اسی قسم کے فقہی جمود سے سابقہ تھا، انہوں نے اپنے طور پر اس کا حل یہ نکالا کہ مسلمان ’’اجتہادِ مطلق‘‘ کے دور کی طرف واپس لوٹ جائیں، چنانچہ ’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے اپنے خطابات میں انہوں نے اہل علم و دانش کو اسی بات کی دعوت دی ہے۔ علامہ اقبالؒ کے یہ خطبات دینی حلقوں میں ایک عرصہ سے زیر بحث ہیں، ان کے بارے میں بہت سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے اور خود میرے بھی بعض تحفظات ہیں لیکن میرے خیال میں اسے اس نقطۂ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ علامہ اقبالؒ نے یہ خطبات بحث و مباحثہ کے ایجنڈے کے طور پر پیش کیے تھے جن پر علمی و تحقیقی کام نہیں ہو سکا۔

شاہ ولی اللہ دہلویؒ خود علوم قرآن و حدیث کے متبحرِ عالم تھے، انہیں اپنے لائق فرزندوں اور قابل فخر شاگردوں کی صورت میں علمی کام کرنے والی ایک مضبوط ٹیم میسر تھی اس لیے ان کے ایجنڈے نے ایک باقاعدہ علمی حلقے کی شکل اختیار کر لی اور جنوبی ایشیا کی دینی فکر پر ابھی تک اسی کا سکہ چل رہا ہے، مگر علامہ اقبالؒ کو یہ سہولت میسر نہ ہو سکی اور وہ اس معاملہ میں بالکل تنہا نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کا ایک دور میں یہ خیال تھا کہ اگر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ لاہور آجائیں تو وہ دونوں مل کر اس علمی و فکری ایجنڈے کو ایک مستقل علمی و فکری کام کی بنیاد بنا سکتے ہیں اور میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اگر ایسا ہو جاتا تو آج کی علمی و فکری دنیا کا نقشہ ہی مختلف ہوتا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ پھر علامہ اقبالؒ نے سید سلیمان ندویؒ اور دوسرے علماء کرام کو اس طرف آمادہ کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی، حتیٰ کہ پٹھانکوٹ میں دار الاسلام کا قیام اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی وہاں آمد بھی بنیادی طور پر علامہ اقبالؒ کی سوچ کا نتیجہ لگتی ہے لیکن کام اس رخ پر آگے نہ بڑھ سکا جو علامہ اقبالؒ کے پیش نظر تھا۔

یہ بات درست ہے کہ فقہی جمود کو ختم کرنے اور آزادیٔ فکر کو اجتہاد کے ذریعہ نشوونما دینے کی جو صورت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے سامنے تھی علامہ اقبالؒ کی آزادیٔ فکر اور اجتہاد کے دائرے اس سے مختلف تھے لیکن دونوں کے توسع اور آزادیٔ فکر کے دائرے بہت مختلف ہونے کے باوجود بنیادی طور پر دونوں کو ایک ہی مسئلہ کا سامنا تھا کہ امت کو اس بے لچک فقہی جمود کے دائرے سے نکالا جائے جو فکری اور علمی ارتقا اور سماجی ترقی میں ان کے خیال میں رکاوٹ تھے۔ البتہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا تصور اجتہاد اور فکری آزادی مسلّمہ فقہی اصولوں کی حدود میں تھی جبکہ علامہ اقبالؒ انہی مسلّمہ فقہی اصولوں پر نظر ثانی کی بات کر رہے تھے۔ میرا یہ خیال ہے کہ اگر علامہ اقبالؒ کو شاہ ولی اللہؒ کی طرح کی علمی ٹیم اور مواقع میسر آجاتے تو ان کی فقہی سوچ کے بارے میں دینی حلقوں کے تحفظات یقیناً توازن کی صورت اختیار کر لیتے لیکن ان کے خطبات صرف ایجنڈا ہی رہے اور اس ایجنڈے پر علمی و تحقیقی کام کا خواب تعبیر کی شکل اختیار نہ کر سکا۔ مجھے اس موقع پر آغا شورش کاشمیری مرحوم کا یہ جملہ یاد آرہا ہے جو ان کا اپنا ہے یا شاید کسی اور دانشور کے قول کے طور پر انہوں نے نقل کیا تھا کہ ’’اقبالؒ وہ شبلی نعمانی ؒ ہے جسے کوئی سید سلیمان ندویؒ میسر نہ آسکا۔‘‘

میرے نزدیک فکرِ اقبالؒ کا اصل المیہ یہی ہے اور اس کا حل آج بھی یہی ہے کہ اقبالؒ اور انور شاہؒ مل کر بیٹھیں اور قدیم اور جدید ایک دوسرے کی نفی کرنے کی بجائے ایک دوسرے کا وجود اور ضرورت تسلیم کرتے ہوئے باہمی مشاورت اور اشتراک کے ساتھ امت مسلمہ کی علمی و فکری راہ نمائی کریں۔ اقبالؒ کے تصورِ اجتہاد کے سب پہلوؤں سے اتفاق نہ ہونے کے باوجود میں اسے ایک ایجنڈا تصور کرتے ہوئے اس پر علمی و تحقیقی کام کو آج کی ایک اہم ضرورت سمجھتا ہوں اور امت مسلمہ کی صحیح سمت راہ نمائی کے لیے قدیم و جدید کے متوازن امتزاج کو وقت کا ایک ناگزیر تقاضا تصور کرتا ہوں۔

(روزنامہ پاکستان، لاہور ۔ ۹ دسمبر ۲۰۱۲ء)
2016ء سے
Flag Counter