لاہور ہائیکورٹ کے شریعت بینچ میں مولانا زاہد الراشدی کی درخواست

   
تاریخ : 
۱۴ دسمبر ۱۹۷۹ء

 

بسم اللہ الرحمان الرحیم۔

بعدالت شریعت بینچ عدالت عالیہ پنجاب لاہور۔

بمقدمہ ریٹائرڈ جسٹس بدیع الزمان کیکاؤس۔

بنام سرکار بعنوان خلافِ اسلام قرار دیے جانے والے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ وغیرہ۔

جناب والا! درخواست دہندہ نے ۴ نومبر ۱۹۷۹ء کو شریعت بینچ میں جناب حافظ محمد یوسف ایڈووکیٹ کے ذریعے درخواست کی تھی کہ مذکورہ بالا مقدمہ کے سلسلہ میں قرآن و سنت کی روشنی میں درخواست دہندہ کچھ ضروری معروضات بینچ کے روبرو پیش کرنا چاہتا ہے۔ شریعت بینچ کی طرف سے درخواست دہندہ کو ہدایت کی گئی کہ یہ معروضات تحریری طور پر بینچ کے روبرو پیش کی جائیں۔ چنانچہ مذکورہ بالا مقدمہ سے متعلق اہم امور کے سلسلہ میں چند اصولی معروضات لف ہذا ہیں۔

یہ معروضات ان امور پر درخواست دہندہ کے ذاتی مطالعہ کا ماحصل ہیں اور اس میں کسی مذہب یا سیاسی مکتبِ فکر کی نمائندگی کا داعیہ موجود نہیں ہے۔ اگر شریعت بینچ کے معزز ارکان اس سلسلہ میں دلائل اور حوالہ جات کی ضرورت محسوس کریں تو درخواست دہندہ بینچ کے سامنے دلائل اور حوالہ جات پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔

العارض: ابوعمار زاہد الراشدی
مدرس مدرسہ انوار العلوم
جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ
بذریعہ: حافظ محمد یوسف ایڈووکیٹ
۱۳ مارچ ۱۹۷۹ء

اسلامی نظام کی نوعیت

  1. ملتِ اسلامیہ میں اسلامی نظام و احکام کے نفاذ، سرحدوں کی حفاظت اور دیگر اجتماعی و سیاسی معاملات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا نام حکومت اور ریاست ہے، اور اسے اصطلاحی طور پر ’’خلافت‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
  2. اسلام حکمرانوں کو اسلامی احکام و قوانین اور نیابتِ رسولؐ کے دائرہ میں پابند کرنے کے بعد حکومت کی انتظامی نوعیت کے بارے میں ملتِ اسلامیہ کو اجازت دیتا ہے کہ وہ حالات اور اجتماعی مصلحتوں کے پیشِ نظر جو طریق کار مناسب سمجھے اختیار کرے۔
  3. اس نوعیت کی حکومت کا قیام ملتِ اسلامیہ کا شرعی فریضہ ہے۔

عوام کی نمائندگی

  1. اسلام حکومت کی تشکیل اور سربراہِ مملکت کے انتخاب میں عوام کی براہِ راست یا بالواسطہ رائے دہی کا حق تسلیم کرتا ہے۔
  2. اسلام میں حکومت اور عوام کے درمیان عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ایک طبقہ کا وجود ضروری ہے جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’عرفاء‘‘ (جمع عریف بمعنی نمائندہ) کا نام دیا ہے۔
  3. انتظامی امور اور عوام کے حقوق و مسائل کے معاملات میں عوام کو براہِ راست یا نمائندوں کے ذریعے مشاورت میں شریک کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

قانون سازی کا اصول

  1. قرآن کریم، سنت رسولؐ اور اجماع امت کے ذریعے طے شدہ شرعی فیصلوں میں جدید قانون سازی (بمعنی ترمیم و تبدل) کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
  2. غیر منصوص مسائل میں سے اجتہاد سے متعلق مسائل میں صرف اجتہادی صفات سے متصف افراد ہی فیصلہ دے سکتے ہیں۔
  3. انتظامی امور اور عوامی حقوق و مسائل کے سلسلہ میں عوام کے نمائندوں کے ذریعے قانون سازی درست ہے۔

سربراہِ مملکت کے لیے اہلیت کا معیار

اسلام سربراہِ مملکت کے لیے مناسب علمی، جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ دیانت و تقویٰ کو بھی شرط قرار دیتا ہے۔

جماعتوں کا وجود

  1. اسلام سیاست میں گروہ بندی کا وجود تسلیم کرتا ہے جو پہلے قبائل کے عنوان سے تھی لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے سے قبل یہ گروہ بندی ترقی کر کے مہاجرین، انصار اور طلقاء کے تین طبقوں کی صورت اختیار کر چکی تھی۔
  2. اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ’’بر‘‘ اور ’’تقوٰی‘‘ کے لیے باہمی تعاون کا حکم دیا ہے اور ’’اثم‘‘ اور ’’عدوان‘‘ پر باہمی تعاون سے روکا ہے۔ اور چونکہ جماعتوں کی تشکیل باہمی تعاون و اشتراک ہی کی ایک ترقی یافتہ اور منظم صورت ہے اس لیے اثم اور عدوان کی نفی کر کے بر اور تقوٰی پر جماعتوں کی تشکیل کا جواز موجود ہے۔

امیدواری کا مسئلہ

  1. اسلام میں منصب طلب کرنے کی ممانعت مطلقاً نہیں ہے بلکہ اہل اور دیانتدار شخص کے لیے عہدہ طلب کرنے اور خود کو کسی منصب کے لیے پیش کرنے کا جواز قرآن و سنت میں موجود ہے۔
  2. کسی بھی منصب کے امیدوار کے لیے ذہنی و جسمانی صلاحیت کے ساتھ ساتھ مناسب علمی اہلیت اور تقویٰ و دیانت بھی ضروری ہے۔

عورت کی رائے

  1. عورتوں سے متعلق امور و مسائل میں عورتوں ہی کی رائے کا اعتبار ہے۔
  2. علمی مسائل اور عوامی امور میں بھی عورتوں سے رائے لینے اور ان کی رائے کو قبول کرنے کی مثالیں خلافتِ راشدہ میں موجود ہیں۔
   
2016ء سے
Flag Counter