تحریک پاکستان اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی

   
تاریخ: 
۱۸ مارچ ۱۹۹۰ء

(الشبان المسلمون سیالکوٹ کے زیر اہتمام اسلامک پبلک سکول (باجوہ اسٹریٹ، رنگ پورہ، سیالکوٹ) میں تحریک پاکستان کے عظیم راہنما شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی یاد میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں مدیر الشریعہ نے حسب ذیل خطاب کیا۔ ادارہ الشریعہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کی یہ تقریب الشبان المسلمون کے زیراہتمام تحریک پاکستان کے عظیم راہنما شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی خدمات اور جدوجہد کے تذکرہ کے لیے منعقد ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے پروفیسر محمد عبد الجبار صاحب اور مولانا محمد انذر قاسمی اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں جبکہ پروفیسر میاں منظور احمد صاحب جو حضرت علامہ عثمانی کے شاگرد بھی ہیں میرے بعد اظہارِ خیال فرمانے والے ہیں۔ مجھے حکم دیا گیا کہ حضرت مولانا شبیر احمدؒ عثمانی کی جدوجہد اور خدمات کے بارے میں کچھ معروضات پیش کروں۔ تعمیل حکم کے لیے حاضر ہوں، دعا فرمائیں کہ اللہ رب العزت کچھ مقصد کی باتیں عرض کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔

حضراتِ محترم! شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمدؒ عثمانی کی عملی زندگی کو میں تین حصوں میں تقسیم کروں گا:

  1. ایک حصہ اس دور پر مشتمل ہے جب آپ نے دیوبند اور ڈابھیل میں علمی خدمات سرانجام دیں، ہزاروں تشنگانِ علوم کو قرآن و سنت کے معارف سے سیراب کیا، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز کے علمی جانشین کی حیثیت سے قرآن کریم کے حواشی مکمل کیے جو قرآن کریم کے اردو تراجم اور حواشی میں آج بھی سب سے زیادہ وقیع اور جامع شمار کیے جاتے ہیں، اور مسلم شریف کی شرح فتح الملہم لکھ کر علمی حلقوں سے خراجِ تحسین وصول کیا۔ جبکہ میرے نزدیک ان کی سب سے بڑی علمی خصوصیت یہ ہے کہ حجت الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی طرح علامہ عثمانی بھی اپنے دور کے سب سے بڑے متکلم تھے۔ انہوں نے اسلامی نظریات و عقائد اور احکام و قوانین کو جس قوتِ استدلال کے ساتھ پیش کیا اس کی مثال اس دور میں نہیں ملتی۔ اور علامہ عثمانی کی علمی عظمت کے اعتراف کی ایک جھلک اس واقعہ کے حوالہ سے دیکھی جا سکتی ہے جو میں نے حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کی زبانی سنا۔ انہوں نے بیان فرمایا کہ قطب الاقطاب حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے ایک دور میں شیرانوالہ لاہور میں اکابر علماء دیوبند کے اجتماع کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر حضرت مولانا حسین علیؒ آف واں بھچراں اور حضرت دین پوریؒ جیسے عظیم اکابر بھی موجود تھے اور شیخ اسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی بھی تشریف فرما تھے۔ اجتماع میں لاہور کے سرکردہ حضرات کو بھی مدعو کیا گیا تھا جن میں سرفہرست علامہ ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم تھے۔ اس اجتماع میں جب حضرت علامہ شبیر احمدؒ عثمانی نے خطاب شروع کیا تو علامہ اقبالؒ اسٹیج پر تشریف فرما تھے لیکن چند لمحوں کے بعد وہ اسٹیج سے اٹھ کر یہ کہتے ہوئے سامعین میں بیٹھ گئے کہ اس پیکرِ علم کا خطاب سامنے بیٹھ کر طالب علموں کی طرح سننا چاہیے۔ یہ علامہ عثمانی کی علمی عظمت کا اعتراف ہے اور اس سے ان کے علمی مقام و مرتبہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی علمی خدمات اور جدوجہد کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن یہ پہلو میں ان کے شاگرد جناب پروفیسر میاں منظور احمد صاحب کے لیے چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں اس دور کی طرف جس میں علامہ عثمانی نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا بلکہ قائدانہ کردار ادا کیا۔ انہوں نے یہ کردار تنہا نہیں ادا کیا بلکہ علماء کی ایک جماعت کے ساتھ تحریک پاکستان میں شرکت کی اور قیام پاکستان کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔
  2. ہمارے ہاں ایک بات تسلسل کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ علمائے دیوبند نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی اور وہ قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ یہ تاثر ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت عام کیا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے ایک مقصد کارفرما ہے۔ اس سلسلہ میں مقالات و مضامین کی اشاعت ہو رہی ہے اور اخبارات میں مہم کے انداز میں کام کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال ایک صاحب نے اس تاثر کو بنیاد بنا کر ایک اور مقدمہ کھڑا کیا ہے جو اس مہم کا اصل مقصود ہے۔ انہوں نے اپنے مسلسل مضمون میں یہ مقدمہ قائم کیا کہ علماء نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی اور قوم نے پاکستان بنا کر علماء کے موقف کو مسترد کر دیا جبکہ تحریک پاکستان کی قیادت جدید تعلیم یافتہ طبقہ نے کی، اس لیے پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے علماء کی بیان کردہ تعبیر و تشریح کو بنیاد نہیں بنایا جائے گا بلکہ وہ تعبیر و تشریح اختیار کی جائے گی جو ان کے بقول تعلیم یافتہ طبقہ قرآن و سنت کے لیے ازسرنو طے کرے گا۔

    یہ ایک نئی گمراہی کا دروازہ ہے جسے کھولنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس مقصد کے لیے یہ بات مسلسل کہی جا رہی ہے کہ علماء نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی تاکہ اس مفروضے کو نئی گمراہی کی فکری اساس بنایا جا سکے۔ حالانکہ یہ خلاف واقعہ بات ہے اور جھوٹ ہے کیونکہ سب علماء نے تحریک پاکستان کی مخالفت نہیں کی تھی۔ یہ درست ہے کہ علماء کی ایک بڑی جماعت نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی، ہم اس سے انکار نہیں کرتے اور اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ میں اس موقع پر اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے والے علماء نے قیام پاکستان کی صورت میں جن خدشات و خطرات کا اظہار کیا تھا، پاکستان بننے کے بعد کے چالیس سالہ دور نے ان کی تصدیق کی یا ان کو رد کیا ہے۔ میں اس بحث کی طرف بھی نہیں جاؤں گا کہ قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والے علماء کا سیاسی تشخص تقسیم ہند کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے لیے کس حد تک سہارا بنا ہے اور ان علماء کے سیاسی تشخص نے ان مسلمانوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے کیا رول ادا کیا ہے۔ ان مباحث میں الجھے بغیر میں کھلے دل سے یہ تسلیم کرتا ہوں کہ علمائے دیوبند کے ایک بڑے طبقہ نے قیام پاکستان کے خلاف کام کیا تھا۔ لیکن اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علمائے دیوبند ہی کے ایک بڑے طبقے نے قیام پاکستان کی جدوجہد کا ساتھ دیا تھا اور ان کے سرخیل شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی تھے۔ تحریک پاکستان کا ساتھ دینے والے انہی علماء میں حکیم الامت حضرت شاہ اشرف علی تھانویؒ بھی تھے جن کے بارے میں خود قائد اعظم مرحوم کا یہ مقولہ تاریخ کے ریکارڈ میں موجود ہے کہ ’’ہمارے ساتھ ایک اتنے بڑے عالم ہیں کہ ان کا علم ہندوستان کے تمام علماء کے علم پر بھاری ہے۔‘‘ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ہدایت پر اور حضرت علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی قیادت میں علماء کرام کی ایک بڑی تعداد تحریک پاکستان میں عملاً شریک ہوئی اور فردًا فردًا نہیں بلکہ ایک باقاعدہ جماعت کی صورت میں انہوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔

    آج یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نے بنایا، میں اسے تسلیم کرتا ہوں لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ تنہا مسلم لیگ نے نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک اور جماعت بھی تھی جو تحریک پاکستان میں شریک تھی اور اس جماعت کا نام جمعیۃ علماء اسلام ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام کا قیام ۱۹۴۵ء میں کلکتہ میں عمل میں لایا گیا اور علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کو اس کا سربراہ چنا گیا ۔ اس جماعت نے باقاعدہ پلیٹ فارم قائم کر کے مسلم لیگ کے ساتھ تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ اس میں مولانا اطہر علیؒ جیسے بزرگ تھے، علامہ ظفر احمدؒ عثمانی، مولانا غلام مرشدؓ، مولانا راغب احسنؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ اور دیگر علماء تھے جنہوں نے تحریک پاکستان کا نظریاتی تشخص اجاگر کیا۔ اور مجھے یہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے کہ تحریک پاکستان کا نظریاتی اور اسلامی تشخص انہی علماء کی وجہ سے اجاگر ہوا۔ ان کے علاوہ دوسرے علماء بھی تھے۔ مولانا عبد الحامدؒ بدایونی بھی تھے، پیر صاحبؒ آف مانکی شریف بھی تھے اور مولانا محمد ابراہیمؒ سیالکوٹی بھی تھے۔ میں تحریک پاکستان میں ان میں سے ہر کردار کا اعتراف کرتا ہوں اور اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تحریک پاکستان کو اگر اسلامی تحریک سمجھا گیا ہے اور اس کے نظریاتی تشخص پر لوگوں کا اعتماد قائم ہوا ہے تو ان علماء کی وجہ سے ہوا ہے اور عوام نے ان علماء پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے ذہنوں اور دلوں میں تحریک پاکستان کو ایک اسلامی نظریاتی تحریک کی حیثیت سے جگہ دی ہے۔ ورنہ اگر مسلم لیگی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ تحریک پاکستان کا نظریاتی تشخص اس کی وجہ سے قائم ہوا تھا تو یہ بات خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

    یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے وقت دو علاقوں کے بارے میں فیصلہ ہوا تھا کہ ان علاقوں کے عوام سے ریفرنڈم کے ذریعے رائے لی جائے گی کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ایک صوبہ سرحد تھا جہاں کانگریس کی حکومت تھی اور ڈاکٹر خان مرحوم اس کے وزیر اعلیٰ تھے اور دوسرا سلہٹ کا علاقہ تھا۔ ان علاقوں میں ریفرنڈم جیتنا کوئی آسان بات نہ تھی اور ریفرنڈم کے لیے جب مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا تو علامہ شبیر احمدؒ عثمانی اور ان کے رفیق کار علامہ ظفر احمدؒ عثمانی سے درخواست کی گئی کہ وہ اس مہم کی قیادت کریں۔ چنانچہ علامہ عثمانی نے صوبہ سرحد میں پیر صاحب آف مانکی شریف کے ہمراہ اور مولانا ظفر احمدؒ عثمانی نے سلہٹ میں انتخابی مہم کی قیادت کی۔ ان علاقوں میں مسلم لیگ کی پوزیشن کمزور تھی لیکن یہ ان علماء کی مہم تھی کہ ریفرنڈم کا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہوا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ قیام پاکستان کے وقت کراچی میں علامہ شبیر احمدؒ عثمانی اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمدؒ عثمانی کے ہاتھوں قومی پرچم لہرانے کا تاریخی واقعہ دراصل ان دو بزرگوں کے اس کردار اور جدوجہد کا عملی اعتراف تھا جو انہوں نے قیام پاکستان میں کی۔

  3. حضراتِ محترم! شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی جدوجہد کا تیسرا دور قیام پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی میں ان کی جدوجہد کا دور ہے جب انہوں نے دستور ساز اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے پاکستان کی نظریاتی بنیاد کے تعین کی جنگ لڑی۔ اس حوالہ سے یہ بحث الگ گفتگو کی متقاضی ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر لا الہ الا اللہ کے نعرہ پر بنا اور جسے دنیا کی پہلی اسلامی نظریاتی مملکت کا عنوان دیا گیا، اس ملک کے قائم ہوتے ہی اس کی دستور ساز اسمبلی میں یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ ملک کا دستور اسلامی ہونا چاہیے یا سیکولر بنیادوں پر ملک کا نظام ترتیب دیا جائے۔ یہ سوال آخر کیسے اٹھا اور اس کا پس منظر کیا تھا؟ اس پر مستقل بحث کی ضرورت ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے ریکارڈ کا تجزیہ کیا جائے، اسے کھنگالا جائے اور اس ہاتھ کو تلاش کیا جائے جس نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو سیکولرازم کی بحث میں الجھا دیا۔

    بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دستور ساز اسمبلی میں نظریاتی اسلامی دستور کی مخالفت کی گئی اور مُلااِزم، پاپائیت اور تھیاکریسی کے طعنے کسے گئے ۔ اور یہ بھی امر واقعہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی کا عمومی رجحان بظاہر غیر مذہبی نظام کی طرف ہو چکا تھا لیکن شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی نے اس مہم کا سامنا کیا اور تمام اعتراضات کا منطق و استدلال کے ساتھ جواب دیتے ہوئے بالآخر اسمبلی کو قائل کر لیا اور قرارداد مقاصد منظور کرا کے پاکستان کی نظریاتی اسلامی بنیاد ہمیشہ کے لیے طے کر دی۔ قرارداد مقاصد کی بنیاد اس بات پر ہے کہ حاکم حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہے اور پاکستان کے عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین نافذ کریں گے۔ قرارداد مقاصد کو نظرانداز کرنا اب کسی کے بس کی بات نہیں رہی اور اس قرارداد کے ذریعے علامہ شبیر احمدؒ عثمانی نے پاکستان کی اسلامی بنیاد کا ہمیشہ کے لیے تحفظ کر دیا۔

اس موقع پر ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ایک بات میرے ذہن میں آتی ہے کہ غلطی اگرچہ خلوص سے ہو مگر اس کے نتائج بہرحال سامنے آتے ہیں۔ مجھے ۱۹۸۷ء میں ایران جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں کے لیڈروں سے ایرانی انقلاب کے مراحل کے بارے میں گفتگو کا موقع ملا۔ ایک ایرانی لیڈر نے اس موقع پر مجھ سے سوال کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایرانی علماء نے پندرہ بیس سال کی محنت کے ساتھ انقلاب بپا کر دیا لیکن پاکستان کے علماء کرام جن کی جدوجہد دو سو سال تک آزادی کے لیے تھی اور آزادی کے بعد چالیس سال سے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے محنت کر رہے ہیں لیکن ان کی جدوجہد کے ثمرات سامنے نہیں آرہے اور انہیں ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ میں نے اس سوال کے جواب میں اپنے ذہن کے مطابق ان اسباب و عوامل کا ذکر کیا جو پاکستان میں نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس پر ایرانی لیڈر نے کہا کہ جناب بات یہ نہیں بلکہ اصل قصہ یہ ہے کہ ایرانی علماء نے بادشاہت کے خلاف تنہا جنگ نہیں لڑی، اس جنگ میں ایران کے نیشنلسٹ اور کمیونسٹ حلقے بھی ان کے ساتھ تھے۔ مذہبی قیادت، کمیونسٹ تودہ پارٹی اور ڈاکٹر مصدق کی نیشنلسٹ پارٹی نے مل کر بادشاہت کو شکست دی لیکن شاہِ ایران کے ملک سے باہر چلے جانے کے بعد ایرانی علماء نے اقتدار دوسروں کے حوالے نہیں کیا بلکہ بتدریج انہیں منظر سے ہٹا کر اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا جس کی وجہ سے وہ انقلاب کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے اور اس پر کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جبکہ پاکستان کے قیام کے بعد وہ علماء جنہوں نے تحریک آزادی اور تحریک پاکستان میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا وہ ضرورت سے زیادہ خلوص کا شکار ہوگئے اور مدارس و مساجد پر قناعت کرتے ہوئے انہوں نے اقتدار کا راستہ دوسرے لوگوں کے لیے صاف کر دیا۔ اب ظاہر بات ہے کہ جن لوگوں نے اقتدار پر قبضہ کیا ملک کا نظام بھی انہی کی مرضی کے مطابق ہی چلنا ہے۔

یہ ایک ایرانی لیڈر کی بات کا خلاصہ ہے جو میں نے آپ سے عرض کیا ہے۔ ممکن ہے یہ سو فیصد درست نہ ہو لیکن سو فیصد غلط بھی نہیں ہے۔ بلکہ مجھے اگر آپ اس جسارت پر معاف فرمائیں تو عرض کروں گا کہ برصغیر کی تاریخ میں دو بڑی غلطیاں ایسی ہیں جنہوں نے ہماری تاریخ کا رخ موڑ دیا اور دونوں غلطیاں خلوص کے ساتھ ہوئیں۔ ایک غلطی احمد شاہ ابدالیؒ کی ہے جس نے پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست دے کر اقتدار انہیں مغل شہزادوں کے حوالے کر کے وطن واپس لوٹ گیا۔ وہ اس حقیقت کا ادراک نہ کر سکا کہ مغل شہزادوں میں اب ہندوستان کا اقتدار سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مغل شہزادے اقتدار نہ سنبھال سکے اور بالآخر برطانوی استعمار کو یہاں پاؤں جمانے کا موقع مل گیا۔ دوسری بڑی غلطی پاکستان بننے کے فورًا بعد علماء سے ہوئی کہ انہوں نے اقتدار میں شرکت اور حصہ داری پر اپنا دعویٰ نہیں جتایا حالانکہ یہ ان کا حق تھا، لیکن انہوں نے خلوص کے ساتھ یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم نے اقتدار میں شریک نہیں ہونا بلکہ باہر رہ کر اقتدار والوں کی رہنمائی کرنی ہے۔ اس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں اور خدا جانے کب تک ہمیں ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

الغرض علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی جدوجہد کا یہ دور بھی بڑا تابناک ہے کہ انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کر کے قرارداد مقاصد منظور کرائی اور پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو سیکولرازم کی بنیاد پر دستور طے کرنے سے روک دیا۔

حضراتِ گرامی قدر! شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی یہ جدوجہد ہمارے ذمہ قرض ہے اور یہ قرض ہم نے بہرصورت ادا کرنا ہے۔ قرارداد مقاصد منظور کرا کے ملک کی اسلامی نظریاتی بنیاد کا تعین علامہ عثمانی نے کیا تھا اور ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی مملکت بنانا اور مکمل اسلامی نظام کا نفاذ و غلبہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذمہ داری سے پوری طرح عہدہ برآ ہونے کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا الہ العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter