قرآن کریم کی تعلیم اور ریاستی تعلیمی نظام

   
تاریخ: 
۲۷ اپریل ۲۰۱۸ء

۲۷ اپریل کو گکھڑ میں والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی مسجد میں جمعہ پڑھانے اور ان کے قائم کردہ مدرسہ معارف اسلامیہ اکادمی کے شعبہ تجوید و قراءت اور شعبہ حفظ و ناظرہ کی تعلیم مکمل کرنے والے قراء اور حفاظ کی دستار بندی کرانے کی سعادت حاصل ہوئی، اس موقع پر کی جانے والی گزارشات کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں نے جو آیت کریمہ آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس میں اللہ رب العزت نے نسل انسانی اور امت محمدیہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام پر اپنے اس عظیم احسان کا ذکر کیا ہے جو رحمۃ للعالمین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ کی صورت میں ہوا اور جس سے نسل انسانی رہتی دنیا تک فیض یاب ہوتی رہے گی۔ اس آیت میں جناب رسول اللہؐ کے فرائض منصبی کا بھی ذکر ہے جن میں سے دو پر آج کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ ایک ’’یتلوا علیہم آیاتہ‘‘ کہ نبی کریمؐ انسانوں کو قرآن کریم کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں اور دوسرا ’’ویعلمہم الکتاب‘‘ کہ وہ انہیں کتاب اللہ کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت اور تعلیم دونوں دینی فرائض میں سے ہیں۔ تلاوت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ و آیات پڑھے اور سنے جائیں جبکہ تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقدس کلام کا مطلب و مفہوم سمجھا جائے۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں کام انتہائی خوبی اور کمال کے ساتھ کیے اور پوری امت کو یہ دونوں کام جاری رکھنے کی تلقین فرمائی۔ چودہ سو برس سے قراء و حفاظ اور علماء و فقہاء ہر دور میں یہ فریضہ سرانجام دیتے آرہے ہیں اور قیامت تک ان شاء اللہ تعالیٰ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

میں آج اس پہلو پر آپ دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ دونوں کام آج کے ماحول میں کہاں ہو رہے ہیں اور کون لوگ کر رہے ہیں؟ عالم اسباب میں اس وقت ہمارے سامنے جو منظر ہے اس میں یہ دونوں عظیم کام دینی مدارس میں ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور دینی مدارس کے مختلف شعبوں کے اساتذہ و طلبہ اس کار خیر میں ہر سطح پر وسیع پیمانے میں مصروف ہیں۔ اس پس منظر میں جب بعض حلقوں کی طرف سے دینی مدارس کو ’’قومی دھارے‘‘ میں لانے کی بات ہوتی ہے تو مجھے بے حد تعجب ہوتا ہے کہ یہ بات کہنے والوں کا آخر مقصد کیا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت اور تعلیم دونوں ہماری دینی، ملی اور قومی ضروریات میں سے ہیں جن کے تسلسل اور فروغ کے لیے دینی مدارس کام کر رہے ہیں۔ جبکہ جن اداروں کو قومی ادارے کہا جاتا ہے ان میں سے کوئی شعبہ اور ادارہ بھی ان دو میں سے کسی قومی ضرورت کو پورا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ تو پھر ایک اہم ترین قومی ضرورت کو پورا کرنے والے اداروں اور طبقات کو قومی دھارے سے باہر کیسے سمجھ لیا گیا ہے اور ان کے کردار و عمل کو قومی دھارے سے باہر کی چیز قرار دینے والے لوگ قرآن و سنت کی تعلیم کے بارے میں دنیا کو کیا پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں؟

اس حوالہ سے ایک بات اور بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج ہمارے ہاں تعلیم دو الگ الگ دھاروں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک طرف سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کا دائرہ ہے اور دوسری طرف مسجد، مدرسہ اور جامعہ کا دائرہ ہے، ان دونوں میں دی جانے والی تعلیم کے دائرے مختلف ہیں۔ یہ تقسیم عملاً تو موجود ہے اور پورے معاشرے کا احاطہ کیے ہوئے ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تقسیم کس نے کی ہے اور اس تقسیم کو ختم کرنے میں رکاوٹ کون ہے؟ میں چاہوں گا کہ ان دونوں سوالوں کا مختصرًا جائزہ لے لیا جائے۔

  1. جہاں تک اس تقسیم کے آغاز کا تعلق ہے عام طور پر اسے مولوی اور دینی طبقہ کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے اور مسلسل کہا رہا ہے کہ دینی اور عصری تعلیم کی یہ تقسیم علماء نے پیدا کی ہے اور اس کا ذمہ دار دینی مدرسہ ہے۔ مگر میں اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں، اس لیے کہ ۱۹۵۷ء سے قبل جب پورے برصغیر میں تعلیم کا نظام علماء کے ہاتھ میں تھا، وہ پڑھاتے بھی تھے، تعلیم کا انتظام بھی کرتے تھے اور درس نظامی کا یہی نصاب ان کے مدارس میں پڑھایا جاتا تھا جس میں قرآن و حدیث، فقہ و شریعت اور عربی زبان کے ساتھ ساتھ طب، ریاضی، فلکیات (سائنس)، دفتری زبان فارسی اور دیگر ضروری علوم و فنون کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اور یہ سب علوم جنہیں آج عصری اور دینی علوم میں تقسیم کر دیا گیا ہے ایک ہی درسگاہ میں ایک ہی تپائی پر ایک ہی طبقہ کے اساتذہ پڑھاتے تھے۔ اس وقت جب نظام علماء کے ہاتھ میں تھا، تعلیم کی یہ تقسیم کہیں بھی موجود نہیں تھی لیکن ۱۹۵۷ء کے بعد جب تعلیمی نظام کو علماء سے لے لیا گیا اور ہزاروں علماء کرام کی شہادتوں اور ہزاروں دینی مدارس کو ختم کر دینے کے بعد جب انگریزی حکومت نے اپنی طرف سے نیا تعلیمی نظام رائج کیا تو اس میں سے قرآن، حدیث، فقہ، عربی، فارسی اور دیگر دینی علوم کو نکال کر عصری و دینی تعلیم کی یہ تقسیم ملک پر مسلط کر دی۔ علماء کرام نے تو صرف یہ کیا کہ جن علوم کو انگریز حکومت نے نصاب سے نکال دیا تھا اور قوم کو ان علوم کی بہرحال ضرورت تھی ان کی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے بے سروسامانی کے عالم میں پرائیویٹ دینی مدارس کا سلسلہ شروع کیا۔ اور ڈیڑھ سو سال کی صبر آزما محنت و کاوش کے بعد وہ آج قرآن و حدیث، فقہ و شریعت اور عربی زبان کی تعلیم کو معاشرے میں باقی رکھنے کی مہم میں بحمد اللہ تعالیٰ سرخرو ہیں۔ چنانچہ آج ان قوتوں کا غیظ و غضب کسی طرح تھمنے میں نہیں آرہا جنہوں نے اپنی طرف سے ریاستی نظام تعلیم سے ان علوم کو خارج کر کے یہ تسلی کر لی تھی کہ یہ علوم اب سوسائٹی میں باقی نہیں رہیں گے، مگر یہ علوم نہ صرف موجود ہیں بلکہ مغرب کے مادر پدر آزاد فلسفہ و تہذیب کے راستے میں ناقابل شکست رکاوٹ بھی بنے ہوئے ہیں۔

    علماء کرام نے ان علوم کی تدریس کے تسلسل کو معاشرے میں باقی رکھنے کے لیے کس قدر مشقت و صبر اور حوصلہ و عزم کے ساتھ محنت کی میں اس پر باہر سے کوئی شہادت لانے کی بجائے آپ کے اس شہر گکھڑ کو ہی گواہ کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اسی مسجد میں جہاں آج میں آپ سے مخاطب ہوں میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ۱۹۴۳ء میں دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد امام و خطیب کی حیثیت سے آئے تھے۔ انہوں نے ۱۹۴۳ء سے ۱۹۵۲ء تک اس مسجد کو مدرسہ کی شکل دے کر مسلسل دس سال علوم اسلامیہ کی تعلیم دی، اس طور پر کہ ان کے پاس ملک کے مختلف حصوں سے طلبہ آ کر اس مسجد میں رہتے تھے جنہیں محلہ کے لوگ دو وقت روٹی دے دیا کرتے تھے اور وہ مسجد میں ہی سو جایا کرتے تھے۔ حضرت والد محترمؒ سارا دن پڑھاتے رہتے تھے اور مذکورہ دینی علوم کے حوالہ سے روزانہ بیس بیس اسباق (پریڈ) تک پڑھا دیتے تھے جس کے لیے کوئی الگ اضافی تنخواہ نہیں ہوتی تھی۔ اس دوران سینکڑوں علماء کرام نے ان سے قرآن و حدیث، فقہ و شریعت اور دیگر دینی علوم کی کتابیں پڑھی ہیں۔ ۱۹۵۲ء میں جب ان کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے گوجرانوالہ میں مدرسہ نصرۃ العلوم قائم کیا تو حضرت والد محترمؒ بھی وہاں پڑھانے کے لیے جانے لگے اور آخر عمر تک وہیں پڑھاتے رہے۔

    اس طرح کی سینکڑوں دینی درسگاہیں آپ کو ملک کے طول و عرض میں ملیں گی جنہوں نے انتہائی بے سروسامانی کے ماحول میں دینی تعلیم کے تسلسل کو جاری رکھا۔ یہ درسگاہیں اس لیے تھیں کہ قرآن و سنت کے جن علوم کو ریاستی نظام تعلیم سے خارج کر دیا گیا تھا ان کا وجود مسلم معاشرے میں باقی رہے۔اس لیے میں یہ بات بالکل دو ٹوک عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دینی اور عصری تعلیم کی یہ تقسیم جو آج نظر آرہی ہے، ہم نے نہیں کی بلکہ یہ ہم پر مسلط کی گئی تھی اور آج بھی صورتحال میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے رہا۔ ہمارے ساتھ تو اس کہاوت والا معاملہ ہوا ہے کہ کسی زمیندار کے ڈیرے پر رات کو ایک بندر آکر مٹکے میں رکھا ہوا دودھ پی جاتا اور جاتے ہوئے تھوڑی سی ملائی قریب ہی بندھے ہوئے کٹے کے منہ پر مل جاتا۔ صبح کو زمیندار مٹکے کو دودھ سے خالی دیکھ کر اس کٹے کی پٹائی شروع کر دیتا کہ سارا دودھ یہ پی گیا ہے۔ ایک رات اس نے یہ معاملہ خود دیکھنے کی کوشش کی تو اسے معلوم ہوا کہ دودھ تو بندر پی جاتا ہے اور ملائی اس غریب کٹے کے منہ پر مل دیتا ہے، تب اس مظلوم کٹے کی جان بخشی ہوئی۔ ہمارے ساتھ بھی یہی معالہ جاری ہے کہ دینی و عصری علوم کی تقسیم انگریزوں نے کی تھی اور اس کے جانشینوں نے اس تقسیم کا تسلسل جاری رکھا ہوا ہے مگر سارا الزام مولوی پر اور دینی مدرسہ پر چسپاں کر دیا گیا ہے۔

  2. اب میں سوال کے دوسرے پہلو کی طرف آتا ہوں کہ آج اس تقسیم کو ختم کرنے میں کون رکاوٹ ہے؟ آج کی صورتحال صرف ایک حوالہ سے عرض کرنا چاہوں گا کہ دینی مدارس نے تو اپنے نصاب و نظام میں لچک پیدا کر کے مڈل اور میٹرک کو اس کا لازمی حصہ بنا لیا ہے اور دینی مدارس کے وفاقوں نے میٹرک کی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا ہے، حتیٰ کہ بہت سے دینی مدارس اس سے آگے ایف اے، بی اے اور ایم اے کے درجوں کو بھی اپنے نظام میں ایڈجسٹ کیے ہوئے ہیں۔ مگر دوسری طرف ریاستی نظام تعلیم ابھی تک قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم کی ذمہ داری قبول کرنے سے بھی انکاری ہے۔ ۱۹۹۲ء میں وفاقی محتسب اعلیٰ نے محکمہ تعلیم کو مڈل تک ناظرہ قرآن کریم کو لازمی کر دینے کا حکم دیا تھا جسے آج تک قبول نہیں کیا گیا۔ جبکہ ۲۰۱۲ء میں پنجاب اسمبلی نے متفقہ قرارداد کی صورت میں میٹرک تک ناظرہ اور بی اے تک ترجمہ کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیم دینے کا فیصلہ کیا تھا جس پر عملدرآمد کی کوئی شکل ابھی تک سامنے نہیں آئی۔

    عجیب ستم ظریفی ہے کہ ریاستی نظام تعلیم تو ناظرہ قرآن کریم کی تدریس و تعلیم کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جو دینی تعلیم کا بالکل ابتدائی درجہ ہے لیکن دینی مدارس کو مڈل اور میٹرک سے آگے کے درجوں کے لیے بھی مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس لیے مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ تعلیم کو دینی اور عصری دائروں میں تقسیم کرنے کا کام ہم نے نہیں کیا اور نہ ہی ہم اس تقسیم کو ختم کرنے میں رکاوٹ ہیں۔ جنہوں نے یہ تقسیم کی تھی وہی آج اسے ختم کرنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ایک ذمہ دار شخصیت نے کچھ عرصہ قبل مجھ سے پوچھا کہ دینی مدارس عصری تعلیم میں مزید آگے کیوں نہیں بڑھ رہے؟ میں نے عرض کا کہ ’’ون وے ٹریفک‘‘ نہ چلائیں کیونکہ آپ تو قوم کے بچوں کو ریاستی سکولوں اور کالجوں میں قرآن کریم ناظرہ اور ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن ہم سے دینی مدارس میں ڈاکٹر، انجینئر اور سائنس دان تیار کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اگر آپ نئی نسل کو مسلمان اور پاکستانی رکھنے میں سنجیدہ ہیں اور دستور پاکستان کا حلف آپ نے رسماً نہیں اٹھایا بلکہ اسے عملاً تسلیم بھی کرتے ہیں تو یہ کام آپ کو خود کرنا چاہیے، آخر ہمیں بار بار اس طرف حکمرانوں کو توجہ دلانے اور مطالبات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ یکم و ۲ مئی ۲۰۱۸ء)
2016ء سے
Flag Counter