حدود آرڈیننس میں ترامیم ۔ چند حقائق

   
تاریخ : 
۲۴ تا ۳۰ دسمبر ۲۰۰۶ء

۶ دسمبر ۲۰۰۶ء کو بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد میں جمعیۃ طلباء اسلام کے مقامی یونٹ کے زیر اہتمام ایک نشست میں حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں بل کے بارے میں تفصیلی گفتگو کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ اور بھی مختلف مقامات پر اس سلسلہ میں اظہار خیال کا اتفاق ہوا اور متعدد جگہوں سے اس موضوع پر خطاب کی دعوت موصول ہوئی ہے مگر میرے لیے مشکل یہ ہے کہ اسباق کے دوران شہر سے باہر کسی پروگرام کے لیے جانے کا سلسلہ ترک کر رکھا ہے کہ اس سے اسباق متاثر ہوتے ہیں۔ صرف جمعرات کو کسی اہم جگہ پر دوستوں کے اصرار پر چلا جاتا ہوں مگر اس میں بھی شرط یہ ہوتی ہے کہ نصف شب کے لگ بھگ گھر واپس پہنچ سکوں اس لیے کہ بلڈ پریشر کی تکلیف بڑھنے کی وجہ سے ڈاکٹر صاحبان نے کسی بھی ایسے سفر سے منع کر دیا ہے جس میں رات کو آرام نہ کر سکوں۔ بہرحال ان نشستوں میں جو کچھ عرض کر رہا ہوں اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حدود کیا ہیں؟ ان کے لیے آرڈیننس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ آرڈیننس کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟ اہم اعتراضات کیا ہیں؟ تحفظ نسواں بل کے ذریعے اس میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟ اس حوالہ سے موجودہ قانونی صورتحال کیا ہے؟ اس سلسلہ میں دینی حلقوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟

حدود کا لفظ قرآن کریم نے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے لیکن شریعت اور فقہ اسلامی میں یہ لفظ اصطلاح کے طور پر ان سزاؤں کے لیے مخصوص ہو گیا ہے جو چند جرائم میں قرآن و سنت کی طرف سے متعین طور پر طے کر دی گئی ہیں۔ معاشرتی جرائم کا دائرہ بہت وسیع ہے اور انہیں سینکڑوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات پانچ سو سے متجاوز ہیں مگر ان سینکڑوں جرائم میں سے قرآن و سنت نے صرف چند کی سزا خود متعین کی ہے، باقی تمام جرائم کی سزاؤں کا تعین ایک اسلامی حکومت یا اس کے مجاز اداروں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ حالات کے مطابق ان جرائم کی سزاؤں کی مقدار اور نوعیت خود طے کر لیں۔ البتہ چند جرائم مثلاً (۱) زنا (۲) چوری (۳) قذف (۴) ڈکیتی (۵) شراب نوشی (۶) ارتداد وغیرہ کی سزائیں قرآن و سنت میں متعین کر دی گئی ہیں۔ مثلاً چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے، زنا کی سزا ایک صورت میں سنگسار کرنا اور دوسری صورت میں سو کوڑے مارنا ہے، قذف یعنی کسی پاک دامن شخص پر بدکاری کی تہمت لگانے کی سزا اس کا ثبوت پیش نہ کر سکنے کی صورت میں ۸۰ کوڑے ہے، ڈکیتی کی سزا ہاتھ پاؤں کاٹنا یا قتل کرنا یا سولی پر لٹکانا یا جلا وطن کر دینا ہے اور شراب نوشی کی سزا ۸۰ کوڑے ہے۔

ان سزاؤں کے حوالہ سے دو باتیں اصولی طور پر عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ یہ بطور آپشن نہیں ہیں بلکہ بطور آرڈر کے ہیں، یعنی ان کو اختیار کرنے اور نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ہمیں اس امر کا اختیار نہیں دیا گیا کہ ہم چاہیں تو انہیں اختیار کر لیں اور ہمارا موڈ نہ ہو تو انہیں نظرانداز کر دیں۔ ایسی بات نہیں ہے بلکہ جس طرح قرآن و سنت میں نماز، روزے، حج اور زکوٰۃ جیسے فرائض کا حکم دیا گیا ہے اسی انداز میں اور انہی صیغوں کے ساتھ قصاص اور حدود کے قوانین کے نفاذ کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ دیکھ لیں کہ قرآن کریم میں جس مقام پر روزہ کی فرضیت بیان کی گئی ہے کہ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، اس کے ساتھ ہی انہی الفاظ میں کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو! تم پر قصاص کا قانون فرض کیا گیا ہے۔ اسی طرح جیسے نماز اور زکوٰۃ وغیرہ کا حکم امر کے صیغے کے ساتھ دیا گیا ہے وہی امر کا صیغہ رجم اور کوڑے مارنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس لیے ان احکام میں فرق نہیں کیا جا سکتا۔ اگر نماز فرض ہے تو قصاص کے قانون کا نفاذ بھی فرض ہے اور اگر زکوٰۃ فرض ہے تو زانی کو کوڑے مارنا بھی فرض ہے اور اسی حوالہ سے میں نے عرض کیا ہے کہ قرآن و سنت میں ان احکام و قوانین کا ذکر بطور آپشن کے نہیں بلکہ بطور آرڈر کے ہے اور ہم قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہوئے جس طرح نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے فرائض کے پابند ہیں اسی طرح حدود و قصاص کے ان قوانین کو نافذ کرنے کے بھی پابند ہیں۔

دوسری بات جو اس سلسلہ میں بطور اصول سامنے رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ ہم ان سزاؤں میں اپنی طرف سے ردوبدل کے مجاز نہیں ہیں۔ مثلاً ہم یہ نہیں کر سکتے کہ قرآن کریم نے قذف کی سزا ۸۰ کوڑے بیان کی ہے تو ہم اس کی نوعیت یا مقدار بدل دیں کہ کوڑوں کی بجائے قید کی سزا مقرر کرلیں یا ۸۰ کوڑوں کی بجائے اس سے کم یا زیادہ مقدار طے کر لیں۔ ہم ان سزاؤں کے نفاذ کے پابند ہیں اور ان کی نوعیت اور مقدار کو برقرار رکھنے کے بھی پابند ہیں ۔ان دونوں معاملات میں قیامت تک کسی کا کوئی اختیار باقی نہیں رہا اور کوئی بھی شخص، طبقہ یا ادارہ ایسا کرتا ہے تو وہ حدود اللہ سے تجاوز کا مرتکب ہوتا ہے جسے قرآن کریم نے ظلم اور نافرمانی سے تعبیر کیا ہے۔

حدود شرعیہ کے اس مختصر تعارف کے بعد یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں اگر اسلام کا نظام نافذ ہوگا تو ظاہر بات ہے کہ ان حدود کا نفاذ بھی ضروری قرار پائے گا۔ یہ بات درست ہے کہ صرف ان حدود کا نام اسلام نہیں ہے اور اسلام کا نفاذ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ حدود اسلام کا ایک اہم شعبہ ہیں اور انہیں نظرانداز کر کے کسی ملک میں نفاذ اسلام کی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے دینی حلقوں کا مسلسل یہ مطالبہ چلا آرہا تھا کہ قومی زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح جرم و سزا کے شعبہ میں بھی اسلامی احکام و قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ پاکستان کا قیام اسلامی نظریہ حیات کی عملداری اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عمل میں آیا تھا اور بانیٔ پاکستان محمد علی جناح مرحوم سمیت تحریک پاکستان کے تمام ذمہ دار راہنماؤں نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں قرآن و سنت کی عملداری ہوگی اور اسے ایک آئیڈیل اسلامی ریاست بنایا جائے گا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد مسلسل مطالبات اور تحریکات کے باوجود ایسا نہ ہو سکا حتٰی کہ ۱۹۷۷ء کی زبردست عوامی تحریک نظام مصطفٰیؐ کے بعد جب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم برسراقتدار آئے تو انہوں نے اس عوامی مطالبہ پر حدود آرڈیننس سمیت متعدد دیگر اسلامی قوانین کے نفاذ کی طرف پیشرفت کی۔

یہاں ایک مغالطہ کا ازالہ ضروری ہے کہ عام طور پر بڑے بھولپن کے ساتھ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ حدود آرڈیننس یا اس نوعیت کے بعض دیگر شرعی قوانین ایک فوجی آمر کے نافذ کردہ قوانین ہیں اور یہ ڈکٹیٹر کے قوانین ہیں جنہیں ختم ہو جانا چاہیے۔ اگر اس دلیل پر بات کی جائے تو ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ بھی ایک فوجی آمر کا نافذ کردہ قانون ہے اس کے باقی رہنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حدود آرڈیننس بلاشبہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے نافذ کیے تھے لیکن ان کے پیچھے ۱۹۷۷ء کی عظیم الشان عوامی تحریک تھی جس میں پورا ملک اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر آگیا تھا، ہزاروں افراد جیلوں میں گئے تھے اور سینکڑوں نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ پھر یہ حدود آرڈیننس جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے اپنے ذہن کی اختراع نہیں تھے اس کے لیے اس وقت کی اسلامی نظریاتی کونسل نے مہینوں کام کیا تھا۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ اور حضرت مولانا شمس الحق افغانیؒ جیسے اکابر اہل علم سے استفادہ کیا گیا تھا۔ دوسرے مسلم ممالک کے علماء سے بھی رابطے کیے گئے تھے حتٰی کہ شام کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر محمد معروف الدوالیبی کو پاکستان تشریف آوری کی زحمت دی گئی تھی جن کا شمار عالم اسلام کے ممتاز اصحاب علم میں ہوتا ہے اور اس مسلسل عوامی اور علمی جدوجہد کے بعد حدود آرڈیننس کا وہ مسودہ تشکیل پایا جسے ایک فوجی آمر کا قانون کہہ کر مسترد کیا جا رہا ہے۔

اس پس منظر میں جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے ۱۹۷۹ء میں حدود آرڈیننس ملک میں نافذ کیا جسے بعد میں آٹھویں آئینی ترمیمی بل کی صورت میں منظور کر کے منتخب قومی اسمبلی نے عوامی اعتماد کی سند بھی دے دی اور اس طرح ملک میں حدود شرعیہ کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ لیکن نفاذ کے بعد سے ہی اس پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوگیا، ملک کے اندر اور باہر اس کے خلاف اعتراضات اور اس کو ختم کرنے کے مطالبات نے زور پکڑ لیا اور ستائیس برس کے بعد اب یہ مہم اس مقام پر پہنچی ہے کہ مسلسل بین الاقوامی اور داخلی دباؤ کے نتیجے میں تحفظ حقوق نسواں بل کے ذریعے حدود آرڈیننس میں ترامیم کی راہ ہموار کی گئی ہے۔

حدود آرڈیننس پر اعتراضات کیا تھے اور کن حوالوں سے ان کو ختم کرنے یا ان میں ردوبدل کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، اس کے پس منظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر ہم اس تنازعہ کی اصل نوعیت کو نہیں سمجھ سکیں گے اور اس کشمکش کی ماہیت کا ادراک نہیں کر سکیں گے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی حلقوں کو ہمارے اس قانون پر کیا اعتراض ہے اور کیوں ہے؟ سادہ سی بات ہے کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے، یہاں کے مسلمان اگر اپنی مرضی سے اپنے معاشرہ کے لیے کوئی قانون اختیار کرتے ہیں اور اپنے عقیدے کے مطابق کسی قانون کا نفاذ کرتے ہیں تو اس پر امریکہ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور کسی بھی بیرونی ملک یا ادارہ کو پاکستانی عوام کے اس حق میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ اس میں مداخلت کر رہا ہے، اقوام متحدہ کو اس قانون کے خاتمہ میں دلچسپی ہے، یورپی یونین اس قانون کو ختم کرنے پر زور دے رہی ہے، اور ایمنسٹی انٹرنیشنل حدود آرڈیننس کے خلاف متحرک ہے تو ہمیں اس کی وجہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس اختلاف کے اصل سرچشمہ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس کے بغیر ہم اس مداخلت کا راستہ نہیں روک سکیں گے اور اس نوعیت کے اگلے اقدامات کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کر سکیں گے۔ یہاں یہ بات ہمارے علم میں ہونی چاہیے کہ معاملہ صرف حدود آرڈیننس میں چند ترامیم تک محدود نہیں ہے بلکہ اصل ایجنڈا بڑا طویل ہے اور اس کے اہم مراحل آگے آرہے ہیں۔ بین الاقوامی حلقوں کا مطالبہ حدود قوانین کے حوالہ سے ان ترامیم کا نہیں ہے بلکہ حدود آرڈیننس کو مکمل طور پر ختم کرنے کا ہے اور صرف ان قوانین کو ختم کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اور بھی بہت سے قوانین ان مطالبات کی زد میں ہیں۔

یہ بات بہت سے دوستوں کے ذہن میں تازہ ہوگی کہ امریکی وزارت خارجہ نے پاکستان کے بارے میں اپنی اس سال کی رپورٹ میں صاف طور پر کہا ہے کہ امریکہ پاکستان میں تحفظ ختم نبوت سے متعلقہ قوانین، تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون اور حدود آرڈیننس کے قوانین کو ختم کروانے کے لیے حکومت پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے اور اسلام آباد کا امریکہ سفارت خانہ اس سلسلہ میں پاکستان کے ارکان پارلیمنٹ سے مسلسل رابطہ میں ہے۔ یہ خبر روزنامہ پاکستان لاہور نے ۱۷ ستمبر ۲۰۰۶ء کو این این آئی کے حوالہ سے شائع کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حدود آرڈیننس میں ابھی مزید ترامیم ہوں گی، گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا قانون ختم کرنے کی بات ہوگی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے فیصلے پر بھی نظرثانی ہوگی۔ اس لیے یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر تحفظ حقوق نسواں ایکٹ کو آسانی سے ہضم کر لیا گیا اور اس کے خلاف بھرپور قومی احتجاج منظم نہ کیا جا سکا تو ان دوسرے مراحل کو نہیں روکا جا سکے گا اور دینی حلقے اس مہم میں پسپائی کے سوا اور کوئی راستہ اختیار نہیں کر پائیں گے۔ خدا کرے کہ ہمارا یہ اندازہ غلط ثابت ہو لیکن اسباب کی دنیا میں اس سے مختلف نتیجہ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

میرے نزدیک اسلامی شرعی قوانین پر مغربی دنیا اور بین الاقوامی حلقوں کے اعتراضات کی اصل وجہ یہ ہے کہ مغرب نے اپنے سیکولر فلسفہ حیات، نظام زندگی اور تمدن و ثقافت کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی شکل دے کر اور اس پر دنیا کے کم و بیش تمام ممالک سے دستخط لے کر عالمی قوانین کی حیثیت دے رکھی ہے اور اب وہ انسانی حقوق کے نام پر اپنے فلسفہ و تہذیب کو اقوام متحدہ کی چھتری تلے قوت اور دباؤ کے ساتھ دنیا بھر سے منوانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور چونکہ اس مغربی فلسفہ و ثقافت کی راہ میں صرف اور صرف اسلامی فلسفہ حیات اور شرعی قوانین مضبوط رکاوٹ ہیں اس لیے نہ صرف یہ کہ ان کی مخالفت کی جا رہی ہے بلکہ مغرب اور ان کے ہمنواؤں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں کسی اسلامی قانون کو عملاً نافذ نہیں ہونے دیا جائے گا اور نہ ہی کسی خطے میں کوئی نظریاتی اسلامی حکومت قائم ہونے دی جائے گی۔ آج کی اصل تہذیبی جنگ یہی ہے اور حدود آرڈیننس کے خلاف سیکولر حلقوں کی مہم اسی عالمی جنگ کا ایک چھوٹا سا پارٹ ہے۔

حدود قوانین کے حوالہ سے یہ دیکھ لیجئے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی دفعہ نمبر ۵ میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو ایسی سزا نہیں دی جائے گی جس میں جسمانی تشدد اور ذہنی اذیت ہو اور توہین و تذلیل کا پہلو ہو۔ گویا کسی بھی جرم کی سزا کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان تینوں باتوں سے خالی ہو اور اگر کسی سزا میں ان میں سے کوئی بات پائی گئی تو وہ انسانی حقوق کے منافی تصور ہوگی۔ اسی بنیاد پر اسلامی سزاؤں کو غیر انسانی اور انسانی حقوق کے منافی قرار دیا جاتا ہے کہ سنگسار کرنا، کوڑے مارنا، ہاتھ پاؤں کاٹنا، اور برسر عام سزا دینا بہرحال جسمانی تشدد اور تذلیل پر مشتمل ہے، اور اگر اقوام متحدہ کے چارٹر میں طے کردہ اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو حدود شرعیہ کی کم و بیش سبھی سزائیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار پاتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بین الاقوامی معاہدہ ہے اور چونکہ ہم اس معاہدہ میں شریک ہیں، ہم نے اس پر دستخط کر رکھے ہیں اور ہم اقوام متحدہ کے نظام کا بھی حصہ ہیں، اس لیے ہمیں اس معاہدہ کی پابندی کرنی چاہیے۔ ہمارے ہاں سپریم کورٹ میں ایک کیس کے حوالہ سے اس پر بحث ہو چکی ہے اور عدالت عظمیٰ نے اسی اصول پر اس کیس کا فیصلہ کیا تھا کہ انسانی حقوق کا یہ منشور بین الاقوامی معاہدہ ہے اور اس معاہدہ کی پابندی ہم پر لازم ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی اس موقع پر کہا گیا تھا کہ انسانی حقوق کا یہ چارٹر آج کا عالمی عرف ہے اور قرآن کریم ہمیں معروفات کی پابندی کا حکم دیتا ہے اس لیے بھی اس عالمی عرف کی پابندی ہمارے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ آج اگر امریکہ ہم سے ان قوانین پر نظرثانی یا ان کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، اقوام متحدہ کے مختلف ادارے ہم سے یہ تقاضا کرتے ہیں، یورپی یونین کی طرف سے یہ بات کہی جاتی ہے، یا ایمنسٹی انٹرنیشنل واویلا کرتی ہے تو وہ بلاوجہ نہیں ہے۔ اس اعتراض، دباؤ یا مطالبہ کی جڑیں اقوام متحدہ کے اس چارٹر کی دفعہ نمبر ۵ میں پیوست ہیں اور اس کے لیے عالمی سطح پر کوئی مضبوط موقف اختیار کیے بغیر ہم اس مخمصے سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ بدقسمتی سے ہمارے مسلم حکمرانوں یا اداروں میں سے کوئی بھی بین الاقوامی سطح پر یہ مسئلہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے اور ہم صحیح جگہ پر یہ جنگ لڑنے کی بجائے شاخوں پر الجھ رہے ہیں اور جزئیات پر اپنا وقت اور صلاحیتیں صرف کر رہے ہیں۔ میری یادداشت کے مطابق ماضی قریب میں یہ مسئلہ مسلمان حکمرانوں میں سے صرف ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے اٹھایا تھا اور اقوام متحدہ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر انہوں نے عالم اسلام کے حکمرانوں پر زور دیا تھا کہ وہ متحد ہو کر دو مسئلوں کے لیے اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالیں۔

  1. ایک یہ کہ سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کے سسٹم میں عالم اسلام کو بھی شریک کیا جائے۔
  2. اور دوسرا یہ کہ انسانی حقوق کے چارٹر پر نظر ثانی کی جائے۔

یہ دونوں باتیں درست اور ضروری ہیں۔ ایک بات سے اقوام متحدہ میں اختیارات کا عدم توازن ختم ہوگا اور عالم اسلام کو اس کا صحیح مقام ملے گا، جبکہ دوسری بات نظریاتی اور تہذیبی توازن کا باعث بنے گی۔ مگر میری معلومات کے مطابق کسی حکمران نے مہاتیر محمد کی اس بات کو قابل توجہ نہیں سمجھا۔ آج بھی اس مسئلہ کا حل یہی ہے۔ عالم اسلام کو نہ تو اقوام متحدہ کے اختیارات اور انتظامی سسٹم میں نمائندگی حاصل ہے اور نہ ہی نظریاتی اور ثقافتی حوالہ سے اسلام اور عالم اسلام کی کسی بات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جبکہ اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی سطح پر اسے پوری قوت کے ساتھ اٹھایا جائے اور مسلم ممالک متحد ہو کر یہ دونوں حق حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کریں۔

پاکستان کی داخلی صورتحال کے حوالہ سے معروضی تناظر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں جہاں اس امر کی ضمانت دی گئی ہے کہ قرآن و سنت کے قوانین کو نافذ کیا جائے گا اور قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نافذ نہیں ہو سکے گا، وہاں یہ گارنٹی بھی دستور میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ انسانی حقوق کی مکمل پاسداری کی جائے گی اور انسانی حقوق کے منافی کوئی قانون ملک میں نافذ نہیں ہو سکے گا۔ میرے نزدیک یہ دو گارنٹیاں آپس میں ٹکراتی رہتی ہیں۔ جب قرآن و سنت والوں کا زور ہوتا ہے وہ اپنا کام نکال لیتے ہیں اور کسی وقت ’’انسانی حقوق‘‘ والے پاور میں آجاتے ہیں تو وہ رخ ادھر کو پھیر لیتے ہیں۔ حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں بل کے حوالہ سے یہی ہوا ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم پاور میں تھے تو انہوں نے قرآن و سنت والی گارنٹی کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی اور جنرل پرویز مشرف پاور میں ہیں تو وہ انسانی حقوق والی گارنٹی کا ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیں۔

قرآن و سنت کے قوانین و نظام اور انسانی حقوق کے چارٹر میں صرف حدود آرڈیننس کی حد تک تنازعہ نہیں ہے بلکہ اس تنازعہ کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں خاندانی نظام بھی آتا ہے، عقیدہ اور رائے کی آزادی کے مسائل بھی ہیں، عورت کے معاشرتی مقام کی بات بھی ہے اور دیگر امور بھی ہیں۔ اور اگر تفصیل سے دیکھا جائے تو بیسیوں سیاسی، سماجی، معاشرتی، قانونی اور عمرانی مسائل ہیں جن میں قرآن و سنت کی تعلیمات اور انسانی حقوق کے چارٹر کا آپس میں ٹکراؤ ہے اور اس ٹکراؤ کی ماہیت کو پوری طرح سمجھے اور اس کی نوعیت کا صحیح طور پر ادراک کیے بغیر ہم یہ جنگ صحیح طور پر نہیں لڑ سکتے۔

یہ تو ہے حدود شرعیہ کی بین الاقوامی مخالفت کا پس منظر جس سے آپ حضرات کو آگاہ کرنا میں بہرحال ضروری سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد داخلی صورتحال کی طرف آجائیے۔ پاکستان میں حدود قوانین کی مخالفت کا سلسلہ ان کے نفاذ کے بعد سے جاری ہے اور ملک کے سیکولر حلقوں کے ساتھ سینکڑوں این جی اوز اور انسانی حقوق کے حوالہ سے کام کرنے والی بیسیوں تنظیمیں اس مقصد کے لیے ربع صدی سے متحرک ہیں۔ ان کی اس مہم کا اصل مقصد تو وہی ہے جو بین الاقوامی حلقوں کا ہے اور ملک کے اندرونی سیکولر حلقوں کی جدوجہد کے اہداف مذکورہ بالا بین الاقوامی اہداف سے مختلف نہیں ہیں لیکن ان کے اعتراضات میں کچھ داخلی امور بھی ہیں جن میں سے ایک دو کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔

ایک اعتراض یہ ہے کہ حدود آرڈیننس کے نفاذ کے وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ اس سے جرائم کنٹرول ہوں گے اور معاشرہ میں امن قائم ہوگا لیکن عملاً ایسا نہیں ہوا بلکہ حدود کے نفاذ کے بعد جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور قانون شکنی کا دائرہ مزید وسیع ہوا ہے۔ اس معروضی حقیقت سے انکار ہمارے لیے ممکن نہیں ہے اور نہ ہی کسی باشعور شخص کو معروضی حقائق سے انکار کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، اس لیے ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حدود آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ہمارے معاشرے میں جرائم کنٹرول نہیں ہوئے بلکہ ان میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کے اسباب کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے اس لیے کہ آج کے دور میں ہمارے سامنے یہی قوانین سعودی عرب جرائم میں کنٹرول کا ذریعہ بنے ہیں اور یہ عام مشاہدے کی بات ہے۔ جو حضرات اب سے پون صدی قبل کے سعودی معاشرہ کی صورتحال سے آگاہ ہیں وہ ہماری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ سعودی عرب کے قیام سے قبل حجاز مقدس میں چوری، قتل، ڈاکہ اور دیگر جرائم اس قدر عام تھے کہ حج بیت اللہ کے لیے جانے والے لوگ بھی اس سے محفوظ نہیں تھے بلکہ اس کا نشانہ زیادہ تر وہی بنتے تھے۔ لیکن شاہ عبد العزیز بن سعود مرحوم نے سعودی عرب کے قیام کے بعد اس کا اقتدار سنبھالتے ہی شرعی قوانین کے نفاذ کا اعلان کیا اور اس پر مؤثر عملدرآمد کا اہتمام کیا تو وہاں جرائم پر نہ صرف یہ کہ کنٹرول حاصل ہوا بلکہ جرائم کی شرح کے حوالہ سے سعودی عرب کو آج بھی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی آج کے دور کی ایک مشاہداتی حقیقت ہے کہ ہمارے پڑوسی افغانستان میں جب طالبان نے زمام اقتدار سنبھالی اور شرعی قوانین کے نفاذ کا اہتمام کیا تو ان کے پانچ سالہ دور میں ان کے دائرہ اختیار میں جرائم کنٹرول ہوئے جسے بین الاقوامی حلقوں میں تسلیم کیا گیا حتٰی کہ وار لارڈز کے خاتمے اور پوست کی کاشت پر پابندی کے حوالہ سے طالبان حکومت کی کامیابی کا عالمی اداروں کی باقاعدہ رپورٹوں میں کھلم کھلا اعتراف کیا گیا ہے۔

ہماری گزارش یہ ہے کہ یہ قوانین اگر سعودی عرب میں کامیاب ثابت ہوئے ہیں اور افغانستان میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے تو پاکستان میں ان کے غیر مؤثر ہونے کی وجہ کہیں اور تلاش کرنی پڑے گی۔ اس لیے کہ بیج اگر ایک زمین میں پھل دیتا ہے، دوسری زمین میں بھی پھل دیتا ہے لیکن تیسری زمین میں پھل نہیں دیتا تو قصور بیج کا نہیں گنا جائے گا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ یا تو زمین درست نہیں ہے یا اس میں بیج ڈال کر پانی، کھاد اور گوڈی کا اہتمام کرنے والوں کے عمل میں کوتاہی ہے۔ ہمارے خیال میں فرق کا اصل نکتہ یہ ہے کہ سعودی عرب نے حدود شرعیہ نافذ کر کے ان پر عملدرآمد کے لیے قضا کا شرعی نظام فراہم کیا اس لیے یہ قوانین کامیاب ہوئے۔ طالبان نے بھی افغانستان میں صرف حدود شرعیہ کے نفاذ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان قوانین پر مؤثر عملدرآمد کے لیے قضائے شرعی کا عدالتی نظام بھی قائم کیا جس کی وجہ سے وہ ان قوانین کے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مگر ہم نے یہ کیا کہ قوانین تو شریعت اسلامیہ کے نافذ کیے مگر عدالتی سسٹم وہی پرانا برطانوی نوآبادیاتی دور کا باقی رکھا اور حدود قوانین کو اس سسٹم کے حوالے کر دیا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ میں اس کی مثال یوں دیا کرتا ہوں کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ہنڈا کار کے انجن میں سوزوی کا گیئر بکس فٹ کر دیا جائے یا چاول چھڑنے والی مشین سے گندم پیسنے کا کام لیا جائے۔ ہمارے ہاں اگر حدود قوانین مؤثر نہیں ہوئے تو اس کی وجہ قوانین نہیں بلکہ عدالتی سسٹم ہے جسے تبدیل کیے بغیر کسی بھی اسلامی قانون کے مؤثر نفاذ کا مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

حدود قوانین پر دوسرا بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ان قوانین کا غلط استعمال ہوتا ہے اور بہت سی بے گناہ عورتوں کو پھنسا دیا جاتا ہے، لوگ انتقام اور دشمنی میں عورتوں کے نام لکھوا دیتے ہیں اور وہ جیلوں میں بلاوجہ پڑی رہتی ہیں۔ اس حوالہ سے بہت پروپیگنڈا کیا گیا اور کچھ عرصہ قبل ایک آرڈیننس بھی جاری کیا گیا کہ جو عورتیں جیلوں میں ہیں انہیں رہا کر دیا جائے مگر اس آرڈیننس کے نتیجے میں ملک بھر میں جو عورتیں جیلوں سے رہا کی گئیں ان میں تیس فیصد بھی ایسی نہیں تھیں جو حدود قوانین کے تحت جیل میں ہوں لیکن اس کی آڑ میں سب کو رہا کر دیا گیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ عورتوں کو کسی بھی جرم میں گرفتار نہ کرنے کی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔ یہ بات بجائے خود قابل غور ہے کہ مرد اگر جرم کرتا ہے تو گرفتار ہوگا اور جیل بھی جائے گا مگر عورت جرم کرتی ہے تو اسے جیل میں نہیں بھیجا جائے گا۔ کیا یہ امتیازی قانون نہیں ہے اور کیا عورتوں کو جیل سے مستثنٰی کر کے جنس کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا جا رہا؟ بہرحال حدود قوانین کے خلاف مسلسل یہ پروپیگنڈا جاری ہے کہ ان کا غلط استعمال ہوتا ہے اور اس بات کو ان قوانین کو ختم کرنے یا ان میں ردوبدل کا جواز بنایا جا رہا ہے۔

صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی نشری تقریر میں زور دے کر کہا ہے کہ عورتوں پر ستائیس سال سے یہ ظلم ہو رہا تھا کہ ایک عورت زنا بالجبر کا کیس درج کراتی ہے مگر جس پر اس کا الزام ہے وہ اس کے خلاف چار گواہ پیش نہیں کر سکتی تو اسے خود گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے حوالہ سے تو زنا کا اعتراف کر ہی لیا ہے۔ صدر صاحب نے کہا ہے کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے جو حدود آرڈیننس کے تحت پاکستان میں عورتوں پر روا رکھا جا رہا ہے اس لیے انہوں نے حدود میں ترامیم کو ضروری سمجھا ہے۔ دوسری طرف مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے علی الاعلان اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ وفاقی شرعی عدالت کے جج اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے رکن کے طور پر سترہ سال تک یہ مقدمات سنتے رہے ہیں، اس دوران ایک کیس بھی اس نوعیت کا ان کے سامنے نہیں آیا جس کی صدر صاحب بات کر رہے ہیں۔ پھر بالفرض اگر پروسیجر کی کسی کمزوری کی وجہ سے اس کا امکان موجود بھی ہے تو اس کا حل قانون کو ختم کرنا نہیں بلکہ پروسیجر کو تبدیل کر کے اس کا سدباب کرنا ہے لیکن یہاں سرے سے زنا بالجبر پر شرعی حد کی سزا ہی ختم کر دی گئی ہے۔

ہم اگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیں کہ حدود قوانین کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ کونسا قانون ملک کا ایسا ہے جس کا غلط استعمال نہیں ہوتا؟ قتل اور اقدام قتل کی دفعات ۳۰۲ اور ۳۰۷ کے بارے میں کون کہہ سکتا ہے کہ ان کا پچاس فیصد بھی صحیح استعمال ہو رہا ہے اور ان دفعات کے تحت ملک بھر میں جو لوگ جیلوں میں ہیں ان کے بارے میں کون گارنٹی دے سکتا ہے کہ ان میں سے پچاس فیصد بھی اصل ملزم ہیں؟ تو کیا ان دفعات کے غلط استعمال کی وجہ سے ۳۰۲ اور ۳۰۷ کی دفعات کو ختم کر دیا جائے گا؟ اور اگر کوئی شخص اس کا مطالبہ کر دے تو کیا کوئی بھی باشعور شہری اس کی حمایت کے لیے تیار ہوگا؟ کسی قانون کے غلط استعمال کا تعلق قانون کے صحیح یا غلط ہونے سے نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویہ سے ہے، ہمارے بدعنوان معاشرتی مزاج سے ہے، ہمارے ہاں ہر قانون کا کسی نہ کسی طرح غلط استعمال ضرور ہوتا ہے۔ قانون تو پھر قانون ہے، ہمارے ہاں دستور غریب کا یہ حال ہے کہ جب کسی جنرل کا جی چاہتا ہے اس کے ناک کان مروڑ کر اس کا رخ بدل دیتا ہے اور اسے اپنی خواہش کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے تو بے چارے قانون کا کیا قصور ہے اور اس کا کون پرسان حال ہے؟ قانون کے غلط استعمال کو روکنے کا طریقہ قانون کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ معاشرتی رویے کو تبدیل کرنے کی جدوجہد ہے، اس کے بغیر کوئی قانون بھی اس طرح کے غلط استعمال سے نہیں بچ سکتا جس کا الزام مسلسل حدود آرڈیننس کے حوالہ سے دہرایا جا رہا ہے اور اسی الزام پر حدود آرڈیننس کا جھٹکا کر دیا گیا ہے۔

یہ ہے وہ پس منظر جس کے نتیجے میں تحفظ حقوق نسواں بل سامنے آیا جو اب منظوری کے مراحل سے گزر کر ایکٹ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ بل جب قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو اس پر خاصا ہنگامہ کھڑا ہوا اور قومی اسمبلی میں موجود علماء کرام نے اسے قرآن و سنت کے منافی قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا۔ چنانچہ اس احتجاج کی شدت کو کم کرنے کے لیے حکمران مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمان میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ کچھ ایسے سرکردہ علماء کرام سے اس سلسلہ میں رائے لے لی جائے جو سیاسی کشمکش میں فریق نہ ہوں اور خالصتاً علمی اور دینی حوالہ سے اس بل کی خلاف شریعت باتوں کی نشاندہی کر دیں۔ چودھری صاحب نے اسمبلی کے فلور پر اعلان کیا کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی دفعہ بھی اس بل میں ہوئی تو اسے تبدیل کیا جائے گا اور قرآن و سنت کے منافی کوئی بل کسی صورت میں منظور نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ جن علمائے کرام کو سیاسی طور پر غیر جانبدار تصور کرتے ہوئے اس مقصد کے لیے اسلام آباد بلایا گیا ان میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا حسن جان، مولانا مفتی منیب الرحمان، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا مفتی غلام الرحمان اور مولانا ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی کے ساتھ راقم الحروف بھی شامل تھا۔ ہم چودھری شجاعت حسین کی دعوت پر اسلام آباد میں جمع ہوئے اور طویل مذاکرات اور گفت و شنید کے بعد بعض نکات پر ہم متفق ہوگئے۔ ان مذاکرات میں مذکورہ بالا علمائے کرام کے ساتھ چودھری شجاعت حسین صاحب، چودھری پرویز الٰہی صاحب، اس بل کے بارے میں قومی اسمبلی کے سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین سردار نصر اللہ دریشک صاحب، وفاقی وزیر قانون وصی ظفر صاحب، وفاقی سیکرٹری اور اٹارنی جنرل کے علاوہ دیگر افسران بھی شریک ہوئے۔ ہم نے اس سلسلہ میں کئی ملاقاتیں کیں اور ایک موقع پر تو ہم صبح ۹ بجے سے نماز اور کھانے کے وقفے کے ساتھ رات تین بجے تک بحث و مباحثہ کرتے رہے جس کے نتیجے میں تین باتوں پر اتفاق رائے ہوگیا۔

  1. ایک یہ کہ اس نئے قانون میں زنا بالجبر کو شرعی حد کے دائرے سے نکال کر تعزیری قانون بنا دیا گیا ہے جو درست نہیں ہے، اس لیے حسب سابق زنا بالجبر پر شرعی حد کی سزا بحال کی جائے گی۔
  2. دوسری بات یہ کہ زنا بالرضا کے مقدمہ میں زنا کا شرعی ثبوت مکمل نہ ہونے پر اس سے نچلے درجے کے جو جرائم اسی کیس میں ثابت ہوگئے ہیں، ان پر حدود آرڈیننس میں تعزیری سزا رکھی گئی تھی مگر اس نئے بل میں ان تعزیری سزاؤں کو بالکل ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ تعزیری سزائیں بحال کی جائیں گی البتہ ان کا عنوان زنا کی بجائے فحاشی میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں طویل بحث و مباحثہ کے بعد ایک نئی دفعہ کا متن طے ہوا جس کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ اسے تحفظ حقوق نسواں بل کا حصہ بنایا جائے گا۔
  3. اور تیسری بات یہ کہ حدود آرڈیننس کی اس دفعہ کو نئے مسودہ قانون میں حذف کر دیا گیا تھا کہ کسی دوسرے قانون کے ساتھ ٹکراؤ کی صورت میں حدود قوانین کو بالادستی حاصل ہوگی۔ اس پر ایک نئی دفعہ قانون میں شامل کرنے پر اتفاق ہوا کہ ان قوانین کی تعبیر و اطلاق میں قرآن و سنت کی تشریحات کو فوقیت حاصل ہوگی اور اس دفعہ کا متن بھی باہمی اتفاق رائے سے طے ہوا۔

ان کے علاوہ ہم نے اور بھی بہت سی تجاویز دیں جو قومی پریس کے ریکارڈ میں آچکی ہیں مگر مذکورہ تین باتیں صرف ہماری تجاویز نہیں بلکہ متفقہ فیصلوں کی حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے کہ اگر ہم نے صرف تجاویز اور رائے دینا ہوتی تو وہ ہم دوسری تجاویز کی طرح لکھ کر حوالے کر سکتے تھے لیکن ان تین امور کو طویل مذاکرات کے بعد متفقہ فیصلے کے طور پر تحریر کیا گیا۔ اس پر علماء کرام کے علاوہ چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی اور سردار نصر اللہ دریشک نے بھی دستخط کیے اور پھر ان کو چودھری صاحبان نے ہی پریس کے حوالے کیا۔ لہٰذا ان تین امور کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یہ علمائے کرام کی تجاویز تھیں جنہیں قبول نہیں کیا گیا بلکہ یہ متفقہ فیصلہ تھا جس سے انحراف کیا گیا ہے اور یہ بہت بڑے ظلم اور نا انصافی کی بات ہے۔ بہرحال ان مراحل سے گزر کر ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کو جس شکل میں قومی اسمبلی اور سینٹ نے منظور کیا ہے اور جس انداز میں صدر جنرل پرویز مشرف نے اس کی منظوری کو ایک تاریخی واقعہ قرار دیتے ہوئے اس پر دستخط کر کے اسے ایکٹ کی شکل دی ہے وہ ایک الگ المیہ ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ قرآن و سنت کے صریح احکام اور علمائے کرام کے ساتھ متفقہ معاہدہ سے انحراف کرنے کے باوجود اس ایکٹ کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیا جا رہا ہے اور ملک بھر کے علمائے کرام کی تحقیر اور کردار کشی کرتے ہوئے قرآن و سنت کی من مانی تشریحات کے ذریعے سے شریعت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔

اس پس منظر اور معروضی صورتحال کے تذکرہ کے بعد اب میں آتا ہوں اس بات کی طرف کہ تحفظ حقوق نسواں ایکٹ کے ذریعے سے حدود آرڈیننس میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اس نئے قانون کی منظوری کے بعد قانونی صورتحال میں کیا تغیر آیا ہے۔ اس سلسلہ میں میرے تبصرہ کی بنیاد چار رپورٹیں ہیں جن کی روشنی میں اس قانون کے ذریعے رونما ہونے والی تبدیلیوں کی نشاندہی کر رہا ہوں۔ پہلی رپورٹ جسٹس (ر) مولانا محمد تقی عثمانی کا وہ تجزیاتی مضمون ہے جس میں انہوں نے جامعیت اور اختصار کے ساتھ اس ایکٹ کی خامیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ دوسری رپورٹ وہ یادداشت ہے جس میں تمام مکاتب فکر کے سترہ اکابر علماء کرام نے مشترکہ طور پر چودھری شجاعت حسین کو مخاطب کیا ہے اور خود ان کے گھر جا کر وہ یادداشت ان کے حوالے کی ہے۔ تیسری رپورٹ سرکردہ اہل حدیث علمائے کرام کا وہ تجزیاتی جائزہ ہے جو قومی اخبارات کے ذریعے سے منظر عام پر آچکا ہے اور چوتھی رپورٹ محترمہ ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی صاحبہ کا تجزیاتی مضمون ہے جو حضرت مولانا شاہ احمد نورانیؒ کی ہمشیرہ ہیں اور جمعیۃ علماء پاکستان کے شعبہ خواتین کی سربراہ ہیں۔ ان رپورٹوں کے حوالہ سے ان چند تبدیلیوں کی نشاندہی ضروری سمجھتا ہوں جو تحفظ حقوق نسواں ایکٹ کے ذریعے سے سامنے آئی ہیں۔

  • مجھے ذاتی طور پر اس سلسلہ میں سب سے بڑی تبدیلی اور خرابی یہ نظر آتی ہے کہ اس قانون میں زنا کے علاوہ اور کوئی مسئلہ شامل نہیں ہے مگر اسے عنوان ’’حقوق‘‘ کا دیا گیا ہے اور اس طرح زنا کو حقوق کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔ یہ بات صدر جنرل مشرف نے بھی اپنی نشری تقریر میں کہی ہے کہ ہم نے اس ایکٹ میں زنا کے سوا کسی مسئلہ کو نہیں چھیڑا اور امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اس میں زنا ہی کے قوانین بیان کیے گئے ہیں لیکن اسے حقوق کا عنوان دے کر یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ہمارے ہاں زنا اب جرائم میں نہیں بلکہ حقوق میں شمار ہوگا۔ اس لیے اس قانون کے حوالہ سے میرا سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ زنا حقوق میں کب سے شامل ہوگیا ہے؟ اس پس منظر میں اس سوال کی سنگینی اور سنجیدگی میں زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے کہ مغربی دنیا میں زنا حقوق میں شمار ہوتا ہے، وہاں انسانی حقوق کے نام پر عورتوں کے اسقاط حمل کے مطلق حق اور ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی تحفظ دینے کے جو مطالبات ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں جو قانون سازی ہو رہی ہے وہ زنا کو حقوق میں شامل کرنے کا ہی نتیجہ ہے۔ جبکہ اسلامی شریعت میں یہ عمل جرائم میں بلکہ سنگین ترین جرائم میں شمار کیا جاتا ہے۔
  • میرا دوسرا اعتراض اس قانون پر یہ ہے کہ زنا کو حقوق کا عنوان دیا گیا ہے اور حقوق بھی عورتوں کے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا کے سامنے پاکستانی عورت کی یہ تصویر پیش کر رہے ہیں کہ وہ زنا کی سہولت مانگ رہی ہے اور ہمارے معاشرے میں عورت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے زنا کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم ہونے چاہئیں۔ یہ پاکستانی عورت کی بہت غلط تصویر ہے جو ہم اس قانون کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور واقعہ کے بھی خلاف ہے کیونکہ پاکستانی عورتوں کی غالب اکثریت عصمت و عفت پر یقین رکھتی ہے اور اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات پر ان کا پختہ ایمان ہے۔
  • اس قانون میں ایک بہت بڑی زیادتی یہ کی گئی ہے کہ زنا کی دونوں صورتوں یعنی زنا بالرضا اور زنا بالجبر کو ناقابل دست اندازی پولیس قرار دے دیا گیا ہے جس کی سادہ سی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس طرح پولیس کے عمل دخل کو کم کر دیا گیا ہے تاکہ وہ لوگوں کو پریشان نہ کر سکے۔ لیکن اس ٹیکنیکل تبدیلی کے حقیقی اور عملی نتیجہ کو لوگوں کی نظر سے اوجھل رکھا جا رہا ہے کہ اس طرح زنا کا جرم ریاست کا جرم نہیں رہا بلکہ محض شکایت کا کیس بن گیا ہے۔ یعنی اس جرم کے ارتکاب پر ریاست کو کوئی شکایت نہیں ہے۔ کیونکہ جن جرائم کو ریاست اور سوسائٹی کا جرم تصور کیا جاتا ہے ان میں مدعی خود ریاست ہوتی ہے اور اس کی طرف سے پولیس اس جرم کے کیس کو ڈیل کرتی ہے۔ پولیس کو اس معاملے میں بے دخل کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب زنا ریاست کا جرم نہیں رہا۔ کسی شہری بلکہ متاثرہ فریق کو کوئی شکایت ہے تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے اور اگر اس جرم کے ارتکاب پر متاثرہ فریق یا کسی شہری کو اعتراض نہیں ہے تو ریاست کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ بات شرعی اصولوں سے متصادم ہے اس لیے کہ اسلامی شریعت میں زنا صرف حقوق العباد کا جرم نہیں ہے بلکہ حقوق اللہ کی بھی خلاف ورزی ہے اور یہ صرف افراد کی حق تلفی نہیں بلکہ ریاست کی بھی حق تلفی ہے۔
  • اس قانون کے ذریعے سے ایک تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ زنا بالجبر کو حدود کے دائرہ سے نکال کر تعزیری جرم بنا دیا گیا ہے جو صراحتاً حد شرعی کو تبدیل کرنے کی صورت ہے۔
  • تحفظ حقوق نسواں ایکٹ میں ایک ظلم یہ کیا گیا ہے کہ شریعت اسلامیہ میں عدالت کی طرف سے حتمی فیصلہ سنائے جانے کے بعد اس سزا میں کمی یا معافی کا کسی شخص کو اختیار نہیں ہے، مگر اس قانون میں یہ ناجائز اختیار صوبائی حکومت کو دے دیا گیا ہے۔
  • ایک اور خرابی یہ پیدا کی گئی ہے کہ قذف کے قوانین میں یہ گنجائش رکھ دی گئی ہے کہ اگر عورت عدالت میں رضاکارانہ طور پر زنا کے جرم کے ارتکاب کا اعتراف بھی کرتی ہے تو وہ سزا سے مستثنٰی ہوگی۔
  • ایک اور ٹیکنیکل واردات اس قانون کے ذریعے یہ کی گئی ہے کہ بلوغت کی حد سولہ سال کی عمر مقرر کر کے یہ کہہ دیا گیا ہے کہ نابالغ لڑکی اگر رضامندی کے ساتھ بھی زنا کی مرتکب ہوتی ہے تو اس کے ساتھ زنا کو ’’زنا بالجبر‘‘ تصور کیا جائے گا اور لڑکی کو کوئی سزا نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سولہ سال کی عمر تک لڑکی پر زنا کا الزام ثابت ہو جانے کے بعد بھی اسے اس جرم میں کوئی سزا نہیں ہوگی۔ اس سے معاشرہ میں بدکاری کے فروغ کی جو صورتحال سامنے آسکتی ہے اسے ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے۔
  • اس کے ساتھ ہی نئے قانون میں یہ بات بھی شامل کر دی گئی ہے کہ اگر خاوند خود اپنی بیوی کے ساتھ جماع میں زبردستی کرتا ہے تو اسے ’’زنا بالجبر‘‘ تصور کیا جائے گا۔ میں اس حوالہ سے جبر کی حمایت نہیں کر رہا لیکن اسے اس درجہ کا جرم قرار دینا بھی نا انصافی اور ظلم ہے کہ اس پر زنا بالجبر کا اطلاق کر دیا جائے۔ اور جن حضرات کو قانون کے غلط استعمال سے بہت زیادہ خوف محسوس ہوتا ہے میں ان سے دریافت کرنا چاہوں گا کہ کیا اس قانون کا غلط استعمال نہیں ہوگا اور کیا ہر خاوند کے سر پر یہ تلوار مستقل طور پر نہیں لٹکی رہے گی کہ اس کی بیوی جب کسی بات پر ناراض ہو تو عدالت میں اس کے خلاف ایک درخواست دے کر اسے زنا بالجبر کے کیس میں جیل بھجوا دے؟

ان کے علاوہ اور بھی مسائل ہیں، میں نے بطور نمونہ صرف چند کا ذکر کیا ہے تاکہ آپ یہ اندازہ کر سکیں کہ اس قانون کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دینے کے جو دعوے کیے جا رہے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے؟

آخر میں ایک گستاخی کا مرتکب ہو رہا ہوں اور علمائے کرام اور دینی قیادتوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے اور یہاں تک جو حالات پہنچے ہیں ان کی سب سے بڑی وجہ خود ہماری غفلت اور کوتاہیاں ہیں۔ ذرا غور فرمائیے کہ جب ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ میں عورت بہت سے حوالوں سے مظلوم ہے اور اس کے بہت سے شرعی حقوق یہاں دبائے جا رہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک دینی حلقوں نے عورتوں کے حقوق بحال کرانے اور ان کی مظلومیت کے حق میں آواز بلند کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟ ملک میں جتنے ادارے اور این جی اوز عورتوں کے حقوق کے حوالہ سے کام کر رہی ہیں کیا ان میں کوئی ایک بھی دینی حلقوں کی نمائندگی کرتی ہے؟ ہم نے خود اتنا بڑا محاذ سیکولر اداروں، حلقوں اور این جی اوز کے حوالے کر رکھا ہے، گزشتہ نصف صدی سے وہ اس شعبہ میں مسلسل کام کر رہی ہیں اور آج جبکہ وہ اپنی نصف صدی کی محنت کو کیش کرا رہی ہیں تو ہمیں تکلیف ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے اس شعبہ میں کیا ہی کیا ہے اور سیکولر این جی اوز کو کارنر کرنے کے لیے ان کے مقابلہ میں ہماری کارکردگی اور جدوجہد کا تناسب کیا ہے؟ ہمیں ان زمینی حقائق کا سامنا کرنا ہوگا اور ان کے منطقی تقاضوں کو سنجیدگی کے ساتھ پورا کرنا ہوگا ورنہ مجھے کم از کم اس سلسلہ میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اگلے مراحل میں جو اس سے بھی زیادہ سخت ہوں گے ہم پسپائی اور شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہیں کر سکیں گے۔

دوسری گستاخی جو میں ضروری طور پر کرنا چاہ رہا ہوں یہ ہے کہ خاندانی قوانین اور دیگر شرعی احکام کے حوالہ سے مغرب کے ساتھ ہماری جو فکری، علمی اور ثقافتی کشمکش ہے اس میں ہمارے علمی اور دینی حلقوں کا رول کیا ہے؟ اور ہم اس کشمکش کی نوعیت، اس کے دائرہ کار اور مغربی حلقوں کے طریق کار کو سمجھنے اور حالات کے تناظر اور تقاضوں کا صحیح طور پر ادراک حاصل کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ مغرب اپنا کام تیزی کے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے، اس کے ایجنڈے میں مسلسل پیشرفت کا عمل جاری ہے، اس کا نیٹ ورک مضبوط ہے اور اس کا طریق کار انتہائی سائنٹیفک اور مربوط ہے۔ مگر ہمارے کیمپ میں (چند شخصیات کے استثنا کے ساتھ) جذباتی نعروں، سطحی معلومات اور فرسودہ دفاعی ہتھکنڈوں کے سوا کیا ہے؟ ہمارے ہاں تو اس کے بارے میں سوچنے کو بھی وقت کا ضیاع تصور کیا جاتا ہے اور اس طرف توجہ دلانے والے چند سر پھرے لوگ ہمارے حلقوں میں بے وقوف سمجھے جاتے ہیں۔ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے کسی جگہ لکھا ہے کہ ترکی میں سیکولرازم کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں کے علماء اور مشائخ کے پاس ان کاموں کے لیے وقت نہیں تھا اور نہ ہی وہ ان باتوں کی کوئی اہمیت سمجھتے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ شاید ہم نے بھی ترکی کے علماء و مشائخ کی طرح خدانخواستہ ایک نئے اتاترک کو راستہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter