حضرت مولانا قاضی عصمت اللہؒ / حضرت مولانا محمد الطافؒ / مولانا خلیل احمد نعمانیؒ

   
تاریخ : 
۳ نومبر ۲۰۱۱ء

مولانا سید عبد المالک شاہ اور مولانا میاں عبد الرحمان کی جدائی کا غم ابھی تازہ تھا کہ دو اور بزرگ علماء کرام حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ اور حضرت مولانا محمد الطاف کی وفات کی غمناک خبر سننا پڑ گئی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دونوں بزرگ ملک کے بڑے علماء میں سے تھے اور ان کی دینی خدمات کے ساتھ ساتھ ان کے شاگردوں کا دائرہ بھی خاصی وسعت رکھتا ہے۔

مگر ان کا تذکرہ کرنے سے قبل روزنامہ اسلام میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اپنے پرانے اور عزیز ساتھی مولانا قدرت اللہ عارف کے ایک شکوہ کا ذکر کرنا چاہوں گا جو انہوں نے مولانا سمیع الحق کی طلب کردہ ’’دفاع پاکستان کانفرنس‘‘ میں میری عدم شرکت کے حوالے سے کیا ہے۔ ان کا شکوہ بجا ہے لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے کسی نے مجھے دعوت ہی نہیں دی، ورنہ سب دوست جانتے ہیں کہ میں جمعیۃ علماء اسلام (ف) کا غیر متحرک رکن ہوں اور گزشتہ دو عشروں سے میری مسلسل یہ پالیسی چلی آرہی ہے کہ خیر کے کاموں میں سب دینی جماعتوں کے ساتھ حسب استطاعت شریک ہوتا ہوں البتہ باہمی جھگڑوں میں کہیں بھی فریق نہیں بنتا۔ میرے نزدیک موجودہ بحران سے نجات کے لیے کسی ایک شخصیت یا کسی ایک جماعت کا کردار کافی نہیں ہے بلکہ سب دینی جماعتوں بلکہ تمام مکاتب فکر کو باہم مل کر قوم کو اس بحران سے نکالنے کے لیے مشترکہ کردار ادا کرنا ہوگا، اور اگر جمعیۃ علماء اسلام کے دونوں دھڑے متحد ہو جائیں تو قومی خودمختاری کی بحالی کی جدوجہد کو جاندار قیادت میسر آسکتی ہے۔ مذکورہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی کو دی گئی تھی، انہوں نے کانفرنس سے دو روز قبل مجھ سے فون پر مشورہ کیا تو میں نے عرض کیا کہ قومی مسئلہ ہے آپ کو اس میں ضرور شریک ہونا چاہیے، وہ کسی مصروفیت کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے تو بات الگ ہے ورنہ اگر دعوت دی جاتی تو مجھے بھی شریک ہو کر یقیناً خوشی ہوتی۔

حضرت مولانا محمد الطاف نے گزشتہ ہفتے کم و بیش اَسی برس کی عمر میں حافظ آباد میں وفات پائی، ان کا تعلق وادی سون سکیسر کے گاؤں کوٹلی سے تھا، مختلف دینی مدارس میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے دورۂ حدیث جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے کیا اور حضرت السید مولانا محمد یوسف بنوریؒ سے تلمذ کا شرف حاصل کیا۔ وہ ۱۹۶۱ء میں حافظ آباد کی مرکزی جامع مسجد قدیم میں خطیب کی حیثیت میں آئے اور کم و بیش نصف صدی تک جامع مسجد کی خطابت کے ساتھ اس سے ملحقہ مدرسہ اشرفیہ قرآنیہ میں تدریس و اہتمام کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد سے بیعت کا تعلق تھا اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سرگرم راہنماؤں میں سے تھے۔

ایک دور میں جمعیۃ علماء اسلام لاہور ڈویژن کے امیر حضرت مولانا بشیر احمد پسروری اور ناظم عمومی مولانا محمد الطاف تھے اور مجھے ان کی نیابت و معاونت میں ڈویژنل ناظم کے طور پر کام کرنے کا کئی سال تک موقع ملا۔ وہ جید عالم دین، پختہ مدرس، حق گو خطیب اور بیدار مغز سیاسی کارکن تھے۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے بعد وہ جمعیۃ علماء اسلام (ف) سے وابستہ ہوئے اور آخر دم تک پورے عزم و وفاداری اور استقامت کے ساتھ اس کے لیے متحرک رہے۔ جامعہ نصرۃ العلوم اور اس کے اساتذہ کرام بالخصوص والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے تھے اور اس ناتے سے مجھ پر بھی ہمیشہ شفقت فرماتے تھے۔ سیاسی اور جماعتی معاملات میں دوٹوک رائے رکھتے تھے اور کسی رو رعایت کے بغیر اس کا اظہار کرتے تھے۔

حضرت مولانا قاضی عصمت اللہؒ ملک کے معروف اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا قاضی نور محمد صاحبؒ کے فرزند و جانشین تھے۔ اس خاندان کا تعلق پنڈی گھیپ کے علاقے سے ہے مگر ان کی دینی جدوجہد اور تگ و تاز کا میدان گوجرانوالہ کا علاقہ رہا۔ حضرت مولانا قاضی نور محمدؒ، حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ اور حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ نے اس خطے میں توحید و سنت کے پرچار اور دینی تعلیمات کے فروغ کے لیے کم و بیش پون صدی تک مسلسل جدوجہد کی ہے جس کے اثرات صرف اس علاقہ میں نہیں بلکہ ملک بھر میں محسوس کیے جاتے ہیں۔

مولانا قاضی عصمت اللہؒ مدرسہ انوار العلوم مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے فاضل تھے، انہوں نے اس دور میں یہاں دورۂ حدیث کیا جب ان کے چچا محترم حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ مدرسہ انوار العلوم کے شیخ الحدیث تھے۔ قاضی عصمت اللہ صاحبؒ منجھے ہوئے مدرس اور بے باک خطیب ہونے کے علاوہ ایک کامیاب مناظر بھی تھے۔ زندگی بھر قرآن و حدیث اور دیگر دینی علوم کی تدریس کرتے رہے اور ہزاروں طلبہ کو دینی تعلیم سے انہوں نے فیضیاب کیا۔ ان کا تعلق جمعیۃ اشاعت التوحید والسنۃ سے تھا اور ایک دور میں وہ جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ بھی سرگرم عمل رہے۔ ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں مولانا قاضی عصمت اللہؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کی طرف سے پاکستان قومی اتحاد کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور اچھے خاصے ووٹ حاصل کیے۔ اس الیکشن میں راقم الحروف ان کے ساتھ کورنگ امیدوار تھا اور حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی راہنمائی میں مولانا احمد سعید ہزارویؒ، علامہ محمد احمد لدھیانویؒ، ڈاکٹر غلام محمدؒ، مولانا علی احمد جامیؒ، مولانا گل محمد توحیدی اور دیگر جماعتی راہنماؤں نے حضرت قاضی صاحب کی الیکشن مہم میں سرگرم کردار ادا کیا۔

چند مسائل پر باہمی اختلافات اور ان پر دونوں طرف سے تحریری مجادلہ و مکالمہ کے باوجود قاضی خاندان اور ہمارا تعلق آپس میں ہمیشہ خوشگوار رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ کے مرض الوفات میں والد گرامیؒ بیمار پرسی کے لیے ان کے گھر گئے تو مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا، جبکہ میں نے عزیزم عمار خان ناصر کو بھی ساتھ لے لیا، حضرت قاضی صاحبؒ بستر علالت پر تھے، دونوں بزرگ بڑی محبت کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ میں نے اچانک حضرت قاضی صاحبؒ سے مخاطب ہو کر عرض کیا کہ حضرت! تین پشتیں حاضر ہیں! یہ بات سن کر حضرت قاضی صاحبؒ رونے لگ گئے اور باہمی محبت کا یہ منظر ہمیشہ کے لیے میرے دل میں نقش ہوگیا۔

اس موقع پر میں ایک اور فاضل دوست کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھوں گا جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا ہے۔ حضرت مولانا منظور احمد نعمانی مدظلہ العالی آف ظاہر پیر ضلع رحیم یار خان ملک کے بزرگ علماء اور اساتذہ میں سے ہیں، ان کے فرزند مولانا خلیل احمد نعمانی ایک عرصہ سے گوجرانوالہ میں رہتے تھے، جامعہ اسلامیہ میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے تھے، حضرت والد صاحبؒ کے ساتھ گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے اور ہمارے سرگرم مسلکی اور جماعتی ساتھیوں میں سے تھے، چند ہفتے قبل اچانک بیمار ہوئے اور آناً فاناً انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

قحط الرجال کے اس دور میں ان پانچ بزرگ علماء کرام اور مخلص ساتھیوں کی یہ جدائی اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے ان کی وفات بے حد صدمہ کا باعث ہے جس سے تنہائی اور خلا کا احساس مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ جانے والے اپنے اپنے وقت پر جا رہے ہیں اور ہم ان کی یادیں تازہ کرنے اور ان کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعاؤں میں مصروف ہیں۔ مگر اردگرد کا ماحول اور سناٹا دیکھ کر میرے دل کے ایک کونے سے ناصر کاظمی کا یہ شعر خدا جانے بار بار کیوں ابھر رہا ہے کہ:

دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
   
2016ء سے
Flag Counter