ماڈل مدارس ۔ چند غور طلب پہلو

   
تاریخ : 
۳۰ ستمبر ۲۰۱۱ء

روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ میں ۲۵ ستمبر ۲۰۱۱ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق:

’’کروڑوں روپے کی لاگت سے مکمل ہونے والے ماڈل مدرسے میں پانچ سال بعد بھی تعلیمی سلسلہ شروع نہیں ہو سکا۔ ۸ کنال رقبہ پر تعمیر مدرسے میں نشئیوں، آوارہ کتوں اور بلیوں نے ڈیرے ڈال لیے۔ سابق وزیر اعلٰی پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے دور حکومت میں پنجاب بھر میں ڈویژنل ہیڈ کوارٹر شہروں میں طلبہ و طالبات کو دینی تعلیم سے روشناس کروانے کے لیے ماڈل دینی مدرسے تعمیر کروائے گئے تھے۔ گوجرانوالہ شہر کے علاقہ چمن شاہ قبرستان کے قریب واقع حضرت لاہوری شاہ دربار کی اراضی پر ماڈل دینی مدرسہ تعمیر کروایا گیا جس پر دس کروڑ روپے لاگت آئی اور ۲۰۰۶ء میں ۲۲ کے قریب کلاس رومز، پرنسپل آفس و اسٹاف روم تیار ہوگیا تھا۔ حکومتی منصوبے کے مطابق اس مدرسے میں طالبات کو جدید تعلیم، کمپیوٹر و دیگر نصاب پڑھایا جانا تھا۔ مدرسے کو ۲۰۰۶ء میں مکمل کر دیا گیا مگر کلاسیں شروع نہ ہونے کی وجہ سے ماڈل مدرسہ نشئیوں، آوارہ جانوروں کی آماجگاہ بن گیا۔ گزشتہ سال مقامی ایم پی اے نے مذکورہ مدرسے میں سرکاری اسکول کی طالبات کی کلاسیں شروع کروا دی تھیں۔ محکمہ اوقاف کی بروقت مداخلت پر اسے خالی کروا لیا گیا تھا لیکن تاحال مدرسہ کی کلاسیں شروع نہیں ہو سکیں۔ ایکسپریس کے رابطہ کرنے پر ڈویژنل ایڈمنسٹریٹر اوقاف چودھری محمد اسلم کا کہنا ہے کہ وزیر اعلٰی پنجاب نے ماڈل دینی مدرسہ کے مستقبل کے لیے کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے لیکن ابھی تک اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا، انہوں نے کہا کہ نشئیوں اور آوارہ کتوں کے بارے میں شکایات پر محکمے کی طرف سے ماڈل دینی مدرسے میں نگران مقرر کر کے ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔‘‘

ماڈل دینی مدارس کی یہ تحریک جنرل پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں ہمارے شہ دماغوں نے اس مقصد کے لیے شروع کی تھی کہ دینی مدارس کے موجودہ نظام کو ناکام بنانے کے لیے ایک ایسا متبادل نظام وجود میں لایا جائے جو طلبہ و اساتذہ کے لیے باعث کشش ہو، اور دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا امتزاج ظاہر کر کے سرکاری نظم کے تحت اساتذہ کو ملازمت کے تحفظ اور طلبہ کو ڈگریوں کا لالچ دے کر ماڈل دینی مدرسوں کی طرف لایا جائے۔ اس غرض سے کمپیوٹر اور دیگر ٹیکنیکل علوم و فنون کو نصاب کا حصہ بنانے اور طلبہ کو عالم دین کے ساتھ ساتھ ہنرمند ہونے کا مژدہ سنا کر وسیع پیمانے پر اس کا پروپیگنڈا کیا گیا، بڑی بڑی عمارات اس مقصد کے لیے تعمیر کی گئیں ، بیرونی امداد کے علاوہ بینکوں سے کاٹی جانے والی زکٰوۃ کی بڑی رقوم اس کے لیے مختص کی گئیں، راولپنڈی میں حاجی کیمپ کو اس نظام تعلیم کا ہیڈکوارٹر بنایا گیا، ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر کیا گیا، نصاب تعلیم طے کر کے اس کا اعلان کیا گیا اور اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات دے کر اساتذہ و طلبہ کو اس طرف بلایا گیا۔ مگر کئی برسوں کی محنت اور تگ و دو کے باوجود نہ اساتذہ کو اس طرف راغب کیا جا سکا اور نہ ہی طلبہ کی توجہ حاصل کی جا سکی، جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کی رقوم برباد ہوئیں اور بے شمار لوگوں کی صلاحیتوں کو بے مصرف کر دیا گیا جس کی ایک ہلکی سی جھلک مذکورہ بالا خبر میں دیکھی جا سکتی ہے۔

ہم نے اسی وقت عرض کر دیا تھا کہ یہ بے مقصد محنت، دولت اور صلاحیتوں کے ضیاع کے سوا کوئی نتیجہ نہیں دے گی اس لیے کہ کوئی بھی کام اسی صورت میں آگے بڑھ سکتا ہے کہ اس کے کرنے والے نہ صرف یہ کہ اس کام کا تجربہ رکھتے ہوں بلکہ اس کے ساتھ مخلص بھی ہوں۔ دینی مدارس کے موجودہ نظام کی کامیابی اور مسلسل پیشرفت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان مدارس کو قائم کرنے والے اور انہیں چلانے والے لوگ دینی مدارس کی ضرورت اور ان کی افادیت و اہمیت سے باخبر ہیں، دینی مزاج کو سمجھتے ہیں، دینی اور تعلیمی ذوق سے بہرہ ور ہیں اور اس کام کو مشن سمجھتے ہوئے اس کے لیے ہر قسم کی قربانی اور ایثار کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ورنہ آج کے دور میں دینی مدارس کے مدرسین کی اکثریت کی تنخواہیں کراچی کو چھوڑ کر سات اور دس ہزار روپے کے درمیان ہیں جس سے ایک متوسط گھرانے کا دال روٹی کا خرچہ بھی نہیں چلتا۔ لیکن اس کے باوجود دینی مدارس آباد ہیں، انہیں اساتذہ مل رہے ہیں بلکہ مدارس کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ تدریس کے خواہشمند فضلاء کی فہرست میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔جس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہیں اس میں کچھ سہولتیں دکھائی دیتی ہیں بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ انہوں نے دین کا جو علم حاصل کیا ہے اور دین کی خاطر حاصل کیا ہے وہ کام میں آجائے اور ضائع نہ ہو جائے۔

کوئی سمجھدار صحافی دینی مدارس کے اساتذہ کے جذبات و رجحانات اور مسائل و مشکلات کو قلمبند کرنے کا کام شروع کر دے تو اسے ایک نئی دنیا سے واسطہ پڑے گا جو آج کی معروضی دنیا سے بالکل مختلف ہے اور وہ یہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ جائے گا کہ مدارس کے بہت سے اساتذہ تنگ بھی ہیں، پریشان بھی ہیں، ان کے سامنے متبادل ذرائع موجود ہیں لیکن وہ یہ راستہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں اس لیے کہ وہ ساری مشکلات کے باوجود مطمئن ہیں کہ جو کام وہ کر رہے ہیں وہی ان کے لیے صحیح ہے اور اسی راستے پر گامزن رہ کر وہ خود کو دین کے لیے اور سوسائٹی کے لیے کارآمد بنا سکتے ہیں۔ گزشتہ روز روزنامہ ایکسپریس کی یہ خبر ایک دوست کو پڑھوائی تو ان کا پہلا اور بے ساختہ تبصرہ یہ تھا کہ ان دس کروڑ سے ہم تو دس مدرسے آسانی کے ساتھ چلا سکتے ہیں۔

ماڈل مدرسوں کی یہ تجویز صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں بھی پیش ہوئی تھی اور حکومت نے بہاولپور کا جامعہ عباسیہ یہ کہہ کر تحویل میں لیا تھا کہ درس نظامی اور عصری علوم کے امتزاج کے ساتھ اسے ماڈل اسلامی یونیورسٹی کے طور پر سامنے لایا جائے گا، اسے جامعہ اسلامیہ کا نام دیا گیا اور اس کے لیے مولانا شمس الحق افغانی اور مولانا احمد سعید کاظمی جیسے جید علماء کرام کو وہاں لایا گیا۔ مگر چونکہ چلانے والوں اور فنڈنگ کرنے والوں کا مزاج اسی نوعیت کا تھا اس لیے آج اس کا نتیجہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہی جامعہ عباسیہ آج بہاولپور یونیورسٹی کے نام سے کام کر رہا ہے لیکن اس میں درس نظامی اور دینی مدارس کے تعلیمی نصاب کو خوردبین کے ذریعے بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ محکمہ اوقاف نے بھی اس دور میں بیسیوں مدارس اپنی تحویل میں لیے تھے کہ ان کا نظام زیادہ بہتر طریقے سے چلایا جائے گا، وہ مدارس آج کسمپرسی کی عبرتناک تصویر بنے ہوئے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔

اس پس منظر میں اور ماضی کے ان تلخ تجربات کے پیش نظر حکومت کے کارپردازان سے میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ دینی مدارس چلانا نہ محکمہ اوقاف کے بس میں ہے اور نہ ہی محکمہ تعلیم کے لیے یہ بار اٹھانا آسان بات ہے۔ یہ سرے سے ان کا کام ہی نہیں ہے اور عام محاورہ بھی ہے کہ ’’جس کا کام اسی کو ساجھے، اور کرے تو ٹھینگا باجے‘‘۔ اسی کی ایک اور مثال بھی گوجرانوالہ شہر ہی سے پیش کر رہا ہوں کہ کچھ معزز اور مخلص شہریوں نے ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے نام سے ۲۸ ایکڑ پر مشتمل ایک بڑا تعلیمی ادارہ قائم کیا مگر تمام تر اخلاص و ایثار کے باوجود تعلیمی ذوق اور تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے اسے نہ چلا سکے تو انہوں نے اسے جامعۃ الرشید کراچی کے سپرد کر دیا اور آج وہ ’’جامعہ شاہ ولی اللہ‘‘ کے نام سے کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ محکمہ اوقاف بھی ماضی کے ناکام اور تلخ تجربات دہرانے کی بجائے ایک ایکڑ کے اس مدرسے کو کسی بڑے تعلیمی ادارے کے سپرد کر دے کیونکہ اسی طرح یہ مدرسہ کامیاب ہو سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter