قرآن کریم کی حرمت کے تقاضے

   
تاریخ : 
۹ مارچ ۲۰۱۲ء

آج (۷ مارچ) کا روزنامہ اسلام میرے سامنے ہے اور قرآن کریم کے حوالہ سے دو اہم خبریں توجہ کو اپنی طرف مبذول کرا رہی ہیں۔
ایک خبر یہ ہے کہ سینٹ آف پاکستان نے افغانستان میں قرآن کریم کی توہین کے مرتکب امریکی فوجیوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ قائدین ایوان نیر حسین بخاری کی پیش کردہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایوان بالا اس واقعہ کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے، یہ انتہائی مکروہ فعل تھا جو کہ نیٹو افواج کے سپاہیوں نے کیا ہے، اس واقعہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، امریکہ اور نیٹو ممالک اس واقعہ کی تحقیقات کرائیں اور اس میں ملوث فوجیوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔

افغانستان میں نیٹو فوجیوں کی طرف سے قرآن کریم کی توہین کے سانحہ کے بعد افغانستان میں احتجاج و اضطراب کی جو لہر چل رہی ہے وہ اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ افغانوں کی دینی حمیت اور ملی غیرت ابھی نہ صرف باقی ہے بلکہ جبر، لالچ اور پروپیگنڈا کے تمام تر ہتھیار استعمال کرنے کے باوجود اس کے درجۂ حرارت میں کوئی کمی نہیں کی جا سکی۔ گزشتہ دنوں ایک امریکی تھنک ٹینک نے اس صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے امکانات دوبارہ دکھائی دینے لگے ہیں مگر تمام تر کوششوں کے بعد بھی اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا کہ وہ دوبارہ حکومت میں آکر سخت قوانین (شریعت اسلامیہ) نافذ نہیں کریں گے اور اس صورتحال کو افغانستان میں اتحادی فوجیوں کی اپنے اہداف کے حوالہ سے ناکامی پر محمول کیا جا رہا ہے۔

ہمیں تو پہلے ہی یقین تھا کہ اتحادی فوجوں کی لشکر کشی اور جبر و تشدد افغانوں کے دینی جذبہ اور قومی غیرت میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکے گا مگر اب دنیا نے بھی ایک بار پھر دیکھ لیا ہے کہ افغان قوم آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں وہ برطانوی فوجوں کی یلغار کے وقت تھی اور جہاں وہ روسی استعمار کی لشکر کشی کے وقت کھڑی تھی۔ اب تیسرے راؤنڈ یعنی امریکی استعمار اور اس کے اتحادیوں کی دس سالہ یلغار کے اختتامی مراحل میں بھی افغان قوم کے پائے استقلال میں کوئی لغزش دکھائی نہیں دے رہی اور اس استقامت و عزیمت پر افغان قوم کو سلام عقیدت پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔

جہاں تک سینٹ آف پاکستان کی مذمتی قرارداد کا تعلق ہے، یہ خوش آئند ہے مگر کافی نہیں ہے اس لیے کہ اصل مسئلہ مذمت کا نہیں بلکہ عالمی سطح پر حرمت قرآن کریم، حرمت نبی اکرمؐ اور حرمت انبیاء کرامؑ کے مسئلہ کو اٹھانے کا ہے۔ اور عالمی اداروں کو اس بات کے لیے آمادہ کرنے کا ہے کہ وہ وحی الٰہی، آسمانی کتابوں اور انبیاء کرامؑ کے احترام کو مذاہب کے پیروکاروں کا حق تسلیم کریں اور اس کے لیے عالمی سطح پر قانون سازی کریں۔ مسلم حکومتوں کی اصل ذمہ داری یہ ہے اور جب تک وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی طرف عملی پیشرفت نہیں کریں گے اس وقت تک اس قسم کے افسوسناک حادثات پیش آتے رہیں گے جبکہ اسلامی نظریاتی ریاست ہونے کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اس مہم میں پیش پیش ہونا چاہیے۔

دوسری خبر بھی قرآن کریم کے حوالہ سے ہے اور وہ یہ کہ پنجاب اسمبلی نے قرآن کریم کو نصاب تعلیم میں باضابطہ طور پر شامل کرنے کی سفارش کی ہے اور یہ سفارش ایک قرارداد کی متفقہ منظوری کی صورت میں کی گئی ہے جو فنکشنل لیگ کی رکن اسمبلی محترمہ عاصمہ ممدوٹ نے پیش کی اور کسی اختلاف کے بغیر ایوان نے اسے منظور کر لیا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ:

’’قرآنی تعلیمات کے فروغ اور موجودہ نسل کی قرآن کریم سے آشنائی کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید کو بطور نصابی کتاب تعلیمی نصاب کا حصہ بنا کر اسے باقاعدہ ترجمہ کے ساتھ پڑھایا جائے۔ نیز تدریس قرآن و حدیث کے لیے جامع پروگرام تشکیل دیا جائے اور اس کے لیے تمام وسائل فراہم کیے جائیں۔‘‘

قرآن و سنت کی تعلیم و تدریس اور اپنے شہریوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا ایک اسلامی ریاست کی حیثیت سے ریاستی ذمہ داریوں اور حکومتی فرائض میں شامل ہے اور ایسا قیام پاکستان کے بعد سے ہی ہو جانا چاہیے تھا لیکن اس سے مسلسل گریز کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ریاستی نظام تعلیم میں قرآن و حدیث کی تعلیمات جزوی طور پر تو کچھ نہ کچھ شامل ہوتی آرہی ہیں لیکن حکومتوں کی پالیسیوں کے تحت ان میں کمی بیشی بھی ہوتی رہی ہے، اور یہ المیہ ہمارے ساتھ شروع سے چلا آرہا ہے کہ اسلامی تعلیمات کو ریاستی ذمہ داریوں میں شامل سمجھنے کی بجائے حکومتی پالیسیوں کے تابع رکھا گیا ہے اور حکومتوں کے رجحانات کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا دائرہ بھی گھٹتا بڑھتا رہا ہے۔

مسلم شریف (کے باب) کتاب المساجد کی ایک روایت کے مطابق امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے آخری عمر میں ایک خطبہ جمعہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ انہوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مرغ نے ان کے سر پر تین ٹھونکے لگائے ہیں جس سے وہ یہ سمجھے ہیں کہ ان کی وفات کا وقت قریب آگیا ہے۔ پھر اس حوالہ سے انہوں نے کچھ خصوصی ہدایات ارشاد فرمائیں اور ان میں ’’امراء مصار‘‘ یعنی مختلف علاقوں کے مسلم حکام کے فرائض بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے ان علاقائی حکام کو اس لیے مقرر کیا ہے کہ وہ (۱) شہریوں کو عدل و انصاف فراہم کریں (۲) قرآن و سنت کی تعلیم دیں (۳) اور قومی خزانے سے ان کے حصہ کی صحیح تقسیم کار کا اہتمام کریں۔ یعنی حضرت عمرؓ نے قرآن و سنت کی تعلیم کو مسلم حکمرانوں کی بنیادی ذمہ داریوں میں شمار کیا ہے۔

ہمارے خیال میں محترمہ عاصمہ ممدوٹ کی پیش کردہ یہ قرارداد حکومت پاکستان کو اسی ذمہ داری کی طرف توجہ دلانے کی کوشش ہے جس کی متفقہ منظوری پر پنجاب اسمبلی کے تمام ارکان مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں۔ اور خاص طور پر قرارداد کے دو جملے بہت اہم ہیں جن کی طرف سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کریم کو باقاعدہ نصابی کتاب کے طور پر ترجمہ کے ساتھ پڑھایا جائے اور دوسرا یہ کہ اس کے لیے تمام وسائل فراہم کیے جائیں۔ ہمیں یاد ہے کہ کچھ عرصہ قبل وفاقی محتسب اعلٰی نے ایک حکم جاری کیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اسکولوں میں اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ مڈل تک طلبہ اور طالبات کو ناظرہ قرآن کریم پڑھایا جائے۔ لیکن اس حکم پر یہ کہہ کر عملدرآمد سے گریز کیا گیا تھا کہ اس کے لیے اسکولوں کے پاس وسائل نہیں ہیں اور تعلیم کے لیے سرکاری طور پر مختص کیے جانے والے بجٹ میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ اس دور میں وفاقی وزارت تعلیم کے ایک ذمہ دار افسر سے اس مسئلہ پر ہماری بات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ ملک بھر کے تمام مڈل اسکولوں میں ایک ایک قاری بھی تعینات کیا جائے تو ہزاروں قاریوں کی ضرورت ہوگی اور ان کی تنخواہیں اور مراعات بھی اسی حساب سے درکار ہوں گی جبکہ تعلیمی بجٹ میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ میں نے اس پر عرض کیا کہ اس کے لیے دینی مدارس کا شکریہ ادا کیجئے کہ وہ کسی قسم کے سرکاری بجٹ کے بغیر باہمی تعاون کی بنیاد پر ملک بھر کی لاکھوں مساجد کو نہ صرف حافظ و قاری بلکہ عربی درس نظامی کے مدرس و معلم اور مفتی و خطیب بھی فراہم کر رہے ہیں اور اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک میں بھی وسیع پیمانے پر اپنی اس ’’پیداوار‘‘ کو ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔

بہرحال ہم پنجاب اسمبلی کی اس متفقہ قرارداد کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن اس کے لیے صرف قرارداد اور سفارش کافی نہیں بلکہ ایک باقاعدہ بل لانے اور اسے اسی طرح متفقہ طور پر پاس کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ارکان اسمبلی کی اس اچھی خواہش کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter