مسلم پرسنل لاء: مولانا محی الدین خان کی فکر انگیز باتیں

   
تاریخ : 
۱۶ اگست ۱۹۹۹ء

۱۷ اگست ۱۹۹۹ء کو ایسٹ لندن میں واقع دارالامہ میں ورلڈ اسلامک فورم کی ایک فکری نشست میں ڈھاکہ کے بزرگ عالم دین مولانا محی الدین خان مہمان خصوصی تھے اور نشست کا عنوان تھا ’’مغربی ممالک میں مسلم پرسنل لاء کی اہمیت‘‘ ۔ نشست کی صدارت فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے کی جبکہ مولانا منظور احمد چنیوٹی، حافظ عبد الرشید ارشد اور دیگر مقررین کے علاوہ راقم الحروف نے بھی گزارشات پیش کیں جن میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کے پرسنل لاء یعنی نکاح و طلاق اور وراثت میں شرعی احکام پر عمل کے حق کو تسلیم کرانے کے لیے جدوجہد کی جائے، چنانچہ ورلڈ اسلامک فورم نے اس سلسلہ میں رابطہ کمیٹی قائم کر کے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کر دیا ہے۔

مہمان خصوصی مولانا محی الدین خان نے اپنے خطاب میں گفتگو کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ جن ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں انہیں اسلامی پرسنل لاء کا حق دلوانے کے لیے جدوجہد ضروری ہے، لیکن جن ملکوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہیں وہاں بھی مسلم پرسنل لاء خطرے میں ہے اور نکاح و طلاق اور وراثت کے شرعی احکام کو مغربی فلسفہ کے مطابق تبدیل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں ترکی کی مثال دی کہ وہاں مسلمانوں کے پرسنل لاء تبدیل کیے جا چکے ہیں اور بنگلہ دیش کے بارے میں بتایا کہ وہاں نکاح و طلاق اور وراثت کے شرعی احکام و قوانین کو تبدیل کرنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

مولانا محی الدین خان کا ارشاد بالکل بجا ہے اور ہم خود پاکستان میں اسی عمل سے گزر رہے ہیں۔ قرآن و سنت کے منافی دفعات رکھنے والے عالمی قوانین کے مسلسل نفاذ کے بعد اب سپریم کورٹ کے ایک جج کی سربراہی میں خواتین حقوق کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی ہے اور اس میں جس طرح عدالتوں کے فیصلوں کے ذریعے نکاح و طلاق اور وراثت کے شرعی احکام میں ردوبدل کی کوشش کی جا رہی ہے وہ فی الواقع تشویشناک ہے اور خاص طور پر قاہرہ اور بیجینگ میں ہونے والی خواتین کانفرنسوں کے بعد ان کی قراردادوں اور فیصلوں کے حوالہ سے مختلف اطراف سے جو پیش رفت ہو رہی ہے اگر اسے روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو مسلم ممالک میں بھی اکثریت سے رہنے والے مسلمان اپنے خاندانی نظام میں قرآن و سنت کے احکام پر عمل کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter