بنگلہ دیش کے چند دینی مراکز میں حاضری

   
تاریخ : 
فروری ۲۰۰۴

گزشتہ ماہ مجھے دو ہفتے کے لیے بنگلہ دیش جانے کا موقع ملا، دارالرشاد میرپور ڈھاکہ کے زیر اہتمام ’’سید ابو الحسن علی ندویؒ ایجوکیشن سنٹر‘‘ کی افتتاحی تقریب کے لیے دارالرشاد کے پرنسپل مولانا سلمان ندوی کا اصرار تھا جس کے ساتھ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کا اصرار بھی شامل ہوگیا اور اس وجہ سے مجھے یہ سفر کرنا پڑا، ورنہ مدرسہ میں اسباق کے آغاز کے بعد اتنا لمبا سفر میرے لیے مشکل تھا۔ دسمبر کے اواخر میں ڈھاکہ میں تبلیغی اجتماع تھا جس کی وجہ سے براہ راست ڈھاکہ جانے والی کسی فلائیٹ میں سیٹ نہ مل سکی۔ یکم جنوری ۲۰۰۴ء کو منعقد ہونے والی مذکورہ بالا تقریب میں شرکت کے لیے ۲۹ دسمبر کو براستہ دوبئی سیٹ ملی اور میں نے دو دن دوبئی میں احباب سے ملاقاتوں میں صرف کیے۔ محمد فاروق شیخ ہمارے پرانے ساتھی ہیں، جمعیۃ طلباء اسلام کے سرگرم راہنماؤں میں رہے ہیں اور کافی عرصہ سے شارجہ میں مقیم ہیں، ان کی میزبانی کا لطف اٹھایا اور دوبئی، شارجہ اور ابوظہبی میں سرکردہ علماء کرام اور دینی راہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئیں۔

۳۱ دسمبر کو ڈھاکہ پہنچا تو لندن سے مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا مشفق الدین اور مولانا محمد فاروق ملاّ ، دار العلوم دیوبند سے حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمان خیر آبادی اور ندوۃ العلماء لکھنو سے حضرت مولانا سید سلمان حسینی بھی اس پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے۔ یکم جنوری کو جامع مسجد بیت المکرم ڈھاکہ کے ایک ہال میں افتتاحی تقریب کے طور پر سیمینار ہوا جس کی صدارت مجلس تحفظ ختم نبوت بنگلہ دیش کے امیر حضرت مولانا عبید الحق مدظلہ نے فرمائی اور اس سے مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ بنگلہ دیش کے چند سرکردہ علماء کرام بالخصوص حضرت مولانا محی الدین خان نے بھی خطاب کیا۔ اس کے بعد ڈھاکہ، چاٹگام اور سلہٹ کے متعدد مدارس میں حاضری کا پروگرام مولانا سلمان ندوی نے طے کر رکھا تھا جہاں مولانا عیسیٰ منصوری کے ہمراہ حاضری ہوئی، مختلف اجتماعات سے خطاب کیا، مدارس کے نظام و نصاب کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور وفاق المدارس العربیہ بنگلہ دیش کے صدر حضرت مولانا حافظ نور الدین مدظلہ اور ناظم اعلیٰ حضرت مولانا عبد الجبار صاحب سے مختلف امور پر تبادلہ خیالات ہوا۔

میری واپسی ۷ جنوری کو طے تھی مگر مدرسہ نصرۃ العلوم کے ایک فاضل مولانا محمد عبداللہ نے اصرار کرکے دو روز کے لیے مزید روک لیا، ۹ جنوری کو ان کے مدرسہ جامعہ حلیمیہ مدھوپور کا سالانہ جلسہ تھا اور ان کی خواہش تھی کہ اس میں ضرور شرکت کروں۔ مولانا محمد عبداللہ موصوف کے والد محترم حضرت مولانا عبد الحمید صاحب مدظلہ حضرت حکیم الامت تھانوی قدس اللہ سرہ العزیز کے حلقہ کے معروف روحانی پیشوا ہیں اور ان کا مدرسہ جامعہ حلیمیہ علاقہ کے بڑے دینی مدارس اور روحانی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے سالانہ جلسہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی جس میں دار العلوم دیوبند سے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق اعظمی دامت برکاتہم بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے اور جامعہ حلیمیہ کے فضلاء کی دستار بندی فرمائی۔

سلہٹ میں ان دنوں دارالعلوم دیوبند (وقف) کے مہتمم اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قدس اللہ سرہ العزیز کے فرزند و جانشین حضرت مولانا محمد سالم قاسمی مدظلہ العالی تشریف لائے ہوئے تھے ، ان سے ملاقات ہوئی اور مختلف تعلیمی امور پر گفتگو ہوئی۔سلہٹ کے قریب سونام گنج ضلع میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہٗ کے ایک خلیفہ مجاز حضرت مولانا عبدالحق صاحب مدظلہ کی زیارت کے لیے دار العلوم درگاپور میں حاضری ہوئی تو یہ معلوم کرکے بے حد خوشی ہوئی کہ وہاں کے شیخ الحدیث مولانا نور الاسلام خان صاحب مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل ہیں، انہوں نے ۱۳۹۱ھ میں دورہ حدیث کیا تھا اس کے بعد سے مسلسل تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، انہیں میری حاضری کا پہلے سے علم نہیں تھا، اچانک ملاقات پر بے حد خوش ہوئے، ان کا اصرار تھا کہ ایک دو دن ان کے ہاں رکوں مگر میرے لیے طے شدہ شیڈول میں تبدیلی مشکل تھی اس لیے سرسری ملاقات پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔

مجلس تحفظ ختم نبوت بنگلہ دیش کے دفتر میں حاضری ہوئی اور امیر محترم حضرت مولانا عبید الحق مدظلہ کے علاوہ سیکرٹری جنرل مولانا نور الاسلام صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ بنگلہ دیش میں ان دنوں تحریک ختم نبوت کی سرگرمیوں میں خاصا جوش و خروش ہے، بڑی سطح پر ایک ختم نبوت کانفرنس کی تیاری ہو رہی تھی اور حکومتی ذمہ داروں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ بنگلہ دیش میں قادیانیوں کے لٹریچر پر پابندی کا سرکاری اعلان ہماری موجودگی میں ہوا، اللہ تعالیٰ تحریک ختم نبوت میں بنگلہ دیش کے دینی حلقوں کو مزید پیشرفت نصیب فرمائیں آمین یا رب العالمین۔بنگلہ دیش کا یہ سفر بہت سے حوالوں سے مفید اور معلومات افزا رہا اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ دینی حلقے پوری دلجمعی کے ساتھ اپنی جدوجہد اور سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter