فرقہ وارانہ کتابوں کی ضبطی کا معاملہ

   
تاریخ : 
اکتوبر ۲۰۰۶ء

ان دنوں اخبارات میں حکومت کی طرف سے جاری کردہ کتابوں کی ایک فہرست کے بارے میں مختلف حلقوں کے بیانات شائع ہو رہے ہیں۔ اس فہرست کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ کم و بیش ساٹھ کتابوں پر مشتمل ہے اور یہ ان کتابوں کی فہرست ہے جنہیں فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بننے والی کتابیں قرار دے کر انہیں ضبط کرتے ہوئے دوبارہ ان کی اشاعت کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کتابوں میں حضرت شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ کی تصنیف ’’تقویۃ الایمان‘‘ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے فتاویٰ کا مجموعہ ’’فتاویٰ رشیدیہ‘‘ بھی شامل ہے اور اس کے علاوہ بعض ایسی کتابیں بھی اس فہرست میں درج کی گئی ہیں جو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے قادیانیوں کی تردید میں لکھی گئی ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم دو باتوں کی طرف ملک کی حکومت اور اہل علم کو توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں:

  1. ایک یہ کہ قادیانیوں کے خلاف لکھی گئی کتابوں کو اس فہرست میں شامل کرنے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ قادیانی گروہ بھی مسلمانوں کے باہمی فرقوں میں سے کوئی فرقہ ہے- اور اس پس منظر میں یہ تاثر اور بھی زیادہ گمراہ کن ہوجاتا ہے کہ قادیانی اپنے بارے میں علماء امت اور پارلیمنٹ فیصلوں کو رد کرتے ہوئے مسلمان کہلانے اور خود کو ایک مسلم فرقہ کے طور پر متعارف کرانے پر مصر ہیں، اور ان کی مسلسل کوشش ہے کہ انہیں مسلمانوں سے الگ غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی بجائے مسلمان فرقہ میں سے ایک فرقہ تصور کیا جائے- اس لیے فرقہ وارانہ کتابوں پر پابندی کے عنوان سے قادیانیوں کے خلاف کتابوں کو اس زمرہ میں شمار کرکے ان کی فہرست میں انہیں داخل کرنا قادیانیوں کی اس گمراہ کن کوشش کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہے اور اس پر حکومت کو نظر ثانی کرنی چاہیے۔
  2. دوسری بات یہ کہ فرقہ وارانہ اختلافات پر عمل اور تحقیقی انداز میں لکھی گئی کتابوں کو اس زمرہ میں شمار کرنا علم و تحقیق کا دروازہ بند کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی فرقہ کو اپنا موقف علمی انداز میں بیان کرنے کے حق سے محروم کر دینے کے بھی مترادف ہے اور اس کی کسی بھی صورت میں حمایت نہیں کی جا سکتی۔ یہ صرف مذہب کے شعبہ کی بات نہیں، زندگی کے دوسرے شعبوں کے مسائل میں بھی اسی طرح کا اختلاف رائے موجود ہے، اختلاف رائے پر مبنی گروہ بندیاں بھی ہیں اور ہر مسئلہ پر اپنے نقطۂ نظر کے اظہار کے ساتھ ساتھ دوسروں کے موقف سے اختلاف اور اس کے رد کی روایت بھی صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ اس پر قدغن لگانے سے تو بحث و مباحثہ اور مکالمہ کا وہ دروازہ ہی بند ہوجائے گا جسے مذاہب کے درمیان رابطہ اور ڈائیلاگ کے عنوان سے اب عالمی سطح پر کھولنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس لیے علم و تحقیق اور مکالمہ و مباحثہ پر پابندی لگانا نہ صرف فطرت بلکہ دینی تقاضوں کے بھی منافی ہے۔

گزشتہ سال مدرسہ نصرۃ العلوم کے ایک محترم فاضل مولانا حافظ مہر محمد میانوالوی کو اسی حوالہ سے گرفتار کیا گیا، وہ کئی ماہ جھنگ جیل میں رہے اور ان پر باقاعدہ مقدمہ چلایا گیا، حالانکہ وہ ایک محقق و مصنف ہیں اور اپنی کتابوں میں دلیل اور حوالہ کے ساتھ سنی شیعہ تنازعات پر بحث کرتے ہیں۔ لیکن انہیں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کا مجرم قرار دے کر گرفتار کیا گیا اور کئی ماہ جیل میں رکھا گیا حتیٰ کہ عدالت نے یہ دیکھ کر کہ ان کا انداز تو تحقیقی اور مباحثہ کا ہے اور وہ دلیل و حوالہ کے ساتھ بات کرتے ہیں انہیں باعزت بری کر دیا۔

ہم حکومت سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اس سلسلہ میں ’’اندھے کی لاٹھی‘‘ کی طرز کا قانون نافذ کرنے کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ کوئی معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کتاب یا تحریر اس انداز میں لکھی گئی ہے کہ اس میں کسی فرقے کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسایا گیا ہے یا ایسی منافرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو نقص امن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، اس پر ضرور پابندی لگائی جانی چاہیے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف لازماً کاروائی ہونی چاہیے۔ لیکن اس کی آڑ میں سنجیدہ علمی مباحثہ اور مسائل پر دلیل اور حوالہ کے ساتھ بات کرنے کا راستہ بند کر دینا کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے، ہمیں امید ہے کہ ملک کے علمی و دینی حلقے اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دیں گے اور باہمی مشاورت اور مناسب عملی پیشرفت کے ساتھ حکومت کو اس فہرست اور طرز عمل دونوں سے نظر ثانی کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter