سانحۂ ساہیوال اور ریاستی نظامِ امن و عدل

   
تاریخ : 
۲۶ جنوری ۲۰۱۹ء

سانحۂ ساہیوال نے پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور اس کا ارتعاش قومی زندگی میں ہر سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ جس طرح ایک پر امن فیملی کو جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے گولیوں سے بھون کر رکھ دیا گیا اس نے امن و امان اور عدل و انصاف کے نظام پر ایک عرصہ سے چلے آنے والے سوالیہ نشان کو اور زیادہ نمایاں کر دیا ہے۔ قوم کی اعلیٰ ترین سطح پر اس کی ایک جھلک آج کے قومی اخبارات میں شائع ہونے والی درج ذیل خبروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

  • وزیراعظم عمران خان نے پنجاب پولیس کے سربراہ کو خط لکھا ہے کہ پولیس کے نظام میں اصلاحات کی جائیں۔
  • سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک کیس پر بحث کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے محترم جسٹس گلزار احمد نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا ہے کہ پولیس کا رویہ اور کارکردگی شرمناک ہے، ختم کر دیں ایسی پولیس کو، ان سے کہیں چلے جائیں، کوئی دوسری فورس لائیں۔ یہ لوگ کسی وجہ کے بغیر چلتے آدمی کو مار دیتے ہیں، فیملی گاڑی میں سفر کر رہی ہے اسے بھی مار دیتے ہیں، پانچ سالہ بچی کو بھی نہیں چھوڑا گیا، کیا وہ دہشت گرد تھی؟ یہ لوگ عوام کے پیسوں پر پلتے ہیں مگر عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے۔
  • لاہور ہائی کورٹ نے سانحۂ ساہیوال پر جوڈیشیل انکوائری کے لیے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے دو رکنی بینچ بنا دیا۔ فاضل جج نے جے آئی ٹی کے سربراہ اور آئی جی پنجاب کو اٹھائیس جنوری کو طلب کر لیا۔ فاضل چیف جسٹس آئی جی پولیس پر برہم ہوگئے اور کہا کہ آئندہ صوبے میں ایسا واقعہ نہیں ہونا چاہیے، پولیس کیسے سیدھی گولیاں چلا سکتی ہے؟
  • یہ خبریں تو پولیس کے نظام کے حوالہ سے ہیں جو آج کے مختلف اخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔ مگر ملک کی عدلیہ کے سربراہ چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عدالتی نظام کے بارے میں جو فرمایا ہے اسے بھی آج ہی کے ایک قومی اخبار کی خبر میں ملاحظہ فرما لیں۔ انہوں نے ایک کیس پر بحث کے دوران کہا ہے کہ جج کا کام انصاف کرنا ہوتا ہے اور جو انصاف نہیں کر سکتے وہ گھر چلے جائیں۔ آج کل انصاف وہی ہے جو مرضی کا ہو، خلاف فیصلہ ہو جائے تو وہ انصاف نہیں ہوتا۔ عدالت کا کام تفتیش کرنا نہیں، تفتیشی افسر کو پتہ ہوتا ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا گواہ ہے۔ عدالت اور منصف کا کام یہ نہیں کہ وہ اپنا نام بچاتے ہوئے دوسروں کو سزا دے دے۔ پنجاب میں ایسا ہوتا ہے کہ اگر جرم ثابت ہو جائے تو سزائے موت نہ ہو تو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے، اس طرح تو انصاف نہیں ہوتا، ستر سال میں بہت ہوگیا، اب نظام کو ٹھیک کرنا ہے۔

ملک میں امن و امان کے قیام اور عدل و انصاف کی فراہمی کے نظام پر یہ تبصرے نئے نہیں ہیں، ماضی میں بھی ہر دور میں یہ سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ اب سے نصف صدی قبل پنجاب پولیس کے افسر اعلیٰ جناب انور آفریدی نے اسی قسم کی باتیں کہی تھیں جن پر راقم الحروف نے تبصرہ کرتے ہوئے کچھ گزارشات پیش کیں جو ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں ۱۴ مئی ۱۹۷۱ء کو شائع ہوئی تھیں، اس دور کا منظر سامنے لانے کے لیے ان معروضات کو کالم کا حصہ بنا رہا ہوں:

پنجاب پولیس کے افسر اعلٰی جناب انور آفریدی نے ایک پریس کانفرنس میں پولیس کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بعض خامیوں کے ضمن میں پولیس کمیشن کی سفارشات کا ذکر کیا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ محکمانہ کارکردگی کو بہتر بنانے کی پوری کوشش کی جائے گی۔

جہاں تک پولیس کی کارکردگی پر لوگوں کے شبہات اور اعتراضات کا تعلق ہے انہیں یکسر جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ بعض باتیں یقیناً ایسی ہیں جو پولیس کے کردار کو عوام کی نظروں میں مشکوک بنا دیتی ہیں اور خصوصاً کچھ آفیسرز کا رعونت آمیز رویہ، جس کا اعتراف خود جناب آفریدی نے بھی کیا ہے، پولیس کی کارکردگی کے بہتر ہونے میں رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ رشوت خوری اور اقرباء پروری کا مرض بھی دوسرے محکموں کی نسبت اس محکمہ میں کچھ زیادہ ہی پرورش پا گیا ہے۔ اس طرح قانون کی حفاظت کرنے والا یہ محکمہ عام زندگی پر قانون کی گرفت مضبوط رکھنے میں ناکام نظر آرہا ہے۔

دوسری طرف پولیس سے متعلقہ افراد کو بھی بعض شکایات اور ان کی بعض ضروریات ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ ان شکایات و ضروریات کو پورا کیے بغیر ان سے بہتر کارکردگی کی توقع رکھنا فضول ہے۔ آفریدی صاحب نے جس پولیس کمیشن کا ذکر کیا ہے اس کی رپورٹ ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آئی۔ ہماری رائے میں عوامی زندگی کے تمام شعبوں سے اس قدر وسیع تعلق رکھنے والے محکمہ کی کارکردگی کے بارے میں محدود تجزیہ کافی نہیں ہے بلکہ حکومت کو چاہیے وہ ذرا کھل کر عوامی سطح پر اس امر کا جائزہ لے۔ اس کے لیے اگر ایک سوالنامہ جاری کیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اس سوالنامہ کے جواب میں پولیس کے بارے میں اپنی شکایات کا اظہار کریں، اور ساتھ ہی ساتھ پولیس کے حکام اور سپاہیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی شکایات اور ضروریات کو بلاجھجھک ظاہر کریں۔ اور پھر تصویر کے دونوں رخوں کو سامنے رکھ کر محکمہ پولیس کی کارکردگی کی اصلاح کے لیے کوئی قدم اٹھایا جائے۔ ہماری رائے میں اصلاح احوال کا یہ راستہ زیادہ مفید ثابت ہو گا۔

حالات کی ستم ظریفی کا تسلسل دیکھیں کہ اڑتالیس سال قبل تحریر کی جانے والی ان معروضات میں نصف صدی کے بعد بھی ہمیں کسی ردوبدل کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی اور ہم وزیراعظم اور چیف جسٹس پاکستان کی خدمت میں دوبارہ وہی تجویز دہرا رہے ہیں، البتہ اس کے ساتھ ملک کے عمومی تناظر میں نظام کی اصلاح کے حوالہ سے اس پہلو پر بھی بحث و تمحیص کی ضرورت ہے کہ آخر گزشتہ ستر برس سے نظام میں اصلاح کی ہر کوشش آخر کیوں ناکام ہو رہی ہے اور کیا اس میں ملک کے دینی حلقے اور اصحاب فکر و دانش بھی کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ اس کے لیے عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلّمہ کی ایک تحریر کالم میں شامل کی جا رہی ہے جو اس سلسلہ میں بحث و گفتگو کا آغاز بن سکتی ہے۔

ہمارے ہاں مذہبی فتوؤں کا مصرف عموماً، مثبت طور پر، فروعی فقہی مسائل میں لوگوں کی راہنمائی، یا منفی طور پر، کسی فرد یا گروہ کی تکفیر و تضلیل رہا ہے، معاشرے میں مذہبی و اخلاقی ذمہ داریوں کا شعور پیدا کرنے اور عدل و انصاف کی روایات کی تشکیل میں ان کا کوئی کردار نہیں رہا۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ دینی راہنمائی کے اس انتہائی اہم انسٹی ٹیوشن کو سماج کی تعمیر کے لیے اور اس میں مستحکم ہو جانے والے غیر انسانی رویوں اور جبر و استحصال پر مبنی نظام کی اصلاح کے لیے بھی بروئے کار لایا جائے۔

اس وقت جبر و استحصال کی ہر صورت کا براہ راست منبع یا کم سے کم اسے تحفظ فراہم کرنے کا ذریعہ ہمارا ریاستی نظام ہے جو سماج میں مستحکم ظلم و جبر ہی کا ایک پرتو ہے۔ اس کے ہر ہر پہلو کو نہ صرف مذہبی وعظ و نصیحت اور خطبات و تقاریر کا موضوع بننا چاہیے بلکہ اس حوالے سے مذہبی تعلیمات کی حساسیت کا ابلاغ کرنے والے متفقہ فتاوٰی بھی سامنے آنے چاہئیں۔

جن ایشوز کے حوالے سے مذہبی علماء کو از خود اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس میں وہ خود اس کا اہتمام کر لیتے ہیں، اور جہاں ریاست کو ضرورت ہوتی ہے وہ بھی ایسے فتاوٰی کے اجرا کا بندوبست کر لیتی ہے۔ سماج میں جبر اور ظلم کا خاتمہ اس وقت کسی بھی طبقے کی ترجیح نہیں ہے، اس لیے اس کی طرف توجہ دلانے کی ذمہ داری ہم اور آپ جیسے عوام کو ہی اٹھانا پڑے گی۔ میری اس پوسٹ کو پڑھنے والے تمام احباب سے درخواست ہو گی کہ وہ نیچے دیے گئے استفسار کو اپنے تعلقات کے دائرے میں جہاں بھی رسائی ممکن ہو، کسی بھی مسلک کے مستند دارالافتاء تک پہنچانے اور اس کا مصدقہ جواب حاصل کرنے کے لیے تھوڑا سا وقت اور محنت صرف کریں۔ حاصل شدہ جواب کا عکس مجھے ان باکس میں یا ای میل میں بھیج دیا جائے تاکہ ان سب فتاوٰی کو جمع کر کے آن لائن شائع کیا جا سکے۔ یہ ایک کار خیر ہوگا اور مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالٰی اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

  1. کیا کسی مسلمان حکومت کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی بھی جرم کے ملزم کو باقاعدہ عدالتی کارروائی میں اپنے دفاع کا موقع دیے بغیر، جس کی شریعت اور ملکی آئین میں ضمانت دی گئی ہے، ماورائے عدالت مجرم قرار دے کر سزا دینے کا کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکے؟
  2. کیا کسی بھی حکومتی ادارے کے ملازمین کے لیے شرعاً اس کی گنجائش ہے کہ اگر انہیں اپنے حکام کی طرف سے شرعی و آئینی حدود سے متجاوز ہدایات دی جائیں (مثلاً کسی پر تشدد کرنا، جھوٹا مقدمہ درج کرانا، جھوٹے ثبوت فراہم کرنا، جھوٹی گواہی دینا، کسی کو غیر قانونی طور پر گرفتار یا محبوس کرنا، یا کسی کو قتل کر دینا وغیرہ) تو وہ اسے اپنی ڈیوٹی سمجھ کر حکم کی تعمیل کر دیں؟
  3. اگر ادارے کی طرف سے، حکم عدولی پر کسی ماتحت کو نوکری سے برخاست کر دیے جانے، ترقی روک دیے جانے، معطل کر دیے جانے، یا جان کو خطرہ لاحق ہونے کی صورتحال کا سامنا ہو تو کیا ان حالات میں اس حکم کو بجا لانے پر اسے معذور سمجھا جا سکتا ہے؟
  4. اگر ماتحتوں کے لیے افسران بالا کے غیر شرعی و غیر آئینی احکام کو بجا لانا جائز نہیں تو کیا ایسا کرنے کی صورت میں وہ اپنی ماتحت حیثیت کی وجہ سے مجبور یا معذور سمجھے جائیں گے، یا ناجائز اقدام کی ذمہ داری میں برابر کے شریک متصور ہوں گے؟ بینوا توجروا۔
منجانب: حافظ محمد عمار خان ناصر، الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، کنگنی والا، گوجرانوالہ۔
aknasir2003@yahoo.com
   
2016ء سے
Flag Counter