مدارس آرڈیننس نافذ کرنے کا نیا سرکاری پروگرام

   
تاریخ : 
۱۱ دسمبر ۲۰۰۳ء

دینی مدارس کے بارے میں صدر پرویز مشرف اور وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے اعلانات کے باوجود تذبذب اور گومگو کی فضا ابھی تک ختم نہیں ہوئی اور مختلف حوالوں سے یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ حکومت ریگولیشن اور رجسٹریشن کے نام پر اس آرڈیننس کو ایک بار پھر جھاڑ پھونک کر نفاذ کے مرحلہ تک لانے کی تیاریاں کر رہی ہے جسے دینی مدارس کے تمام وفاقوں نے متفقہ طور پر مسترد کر دیا تھا۔

  • باخبر ذرائع کے مطابق صوبہ سرحد کی حکومت نے پچھلے دنوں وفاقی حکومت سے استفسار کیا کہ جو مدارس رجسٹرڈ نہیں ہیں کیا انہیں پہلے سے چلے آنے والے رجسٹریشن کے قانون کے تحت رجسٹرڈ کر لیا جائے؟ تو اس کے جواب میں وفاق نے صوبائی حکومت کو یہ کہہ کر اس کام سے روک دیا کہ اس سلسلہ میں ایک آرڈیننس کا مسودہ زیرغور ہے اس کے نفاذ تک کسی مدرسہ کی رجسٹریشن نہ کی جائے۔
  • اس کے ساتھ ہی سرحد حکومت کو وفاقی حکومت کی طرف سے اسی آرڈیننس کی کاپی بھجوا دی گئی جسے ملک کے دینی حلقوں اور مدارس کے تمام مکاتب فکر کے وفاقوں نے متفقہ طور پر مسترد کر دیا تھا۔
  • بعض اخبارات میں پنجاب حکومت کے حوالے سے شائع ہونے والی یہ خبر بھی توجہ طلب ہے کہ اس نے دینی مدارس کے بارے میں کوئی نیا قانون آرڈیننس کی شکل میں نافذ کرنے سے اختلاف کیا ہے۔ خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کو مذکورہ آرڈیننس کا مسودہ بھجوا کر اس کے نفاذ کے سلسلہ میں ان سے رائے طلب کی ہے جس کے جواب میں پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے نمایاں افراد کو اعتماد میں لیے بغیر اس سلسلہ میں کیا جانے والا کوئی فیصلہ خطرناک اور دھماکا خیز ہو سکتا ہے اس لیے اس قانون کو آرڈیننس کی صورت میں لانے کی بجائے بل کی شکل میں اسمبلی میں پیش کیا جائے۔ پنجاب حکومت نے یہ رائے بھی دی ہے کہ جو معروف مدارس پہلے سے رجسٹرڈ چلے آرہے ہیں ان کے لیے نئی رجسٹریشن کی شرط ضروری قرار نہ دی جائے اور قواعد میں نرمی کر کے انہیں حسب سابق رجسٹرڈ تصور کیا جائے، نیز نئے مسودہ قانون کی اس شق پر نظرثانی کی جائے کہ کسی مدرسہ کی مختلف شاخوں کو الگ الگ خودمختار تعلیمی اداروں کی صورت میں رجسٹرڈ کیا جائے گا بلکہ انہیں الگ حیثیت دینے کی بجائے اسی مرکز کا حصہ تصور کیا جائے جس کی وہ شاخیں ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت نے اپنے جوابی خط میں چند اور تجاویز بھی پیش کی ہیں جن کا تعلق انتظامی امور سے ہے۔

ان خبروں سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ مدارس کے بارے میں کوئی نیا آرڈیننس نافذ کرنے کا سرکاری پروگرام ختم نہیں ہوا بلکہ وقتی طور پر دینی حلقوں کے احتجاج کی وجہ سے اسے مؤخر کر دیا گیا تھا اور اب اسے نئے سرے سے سامنے لانے کی صورت نکالی جا رہی ہے۔ لیکن اس دفعہ طریق کار میں یہ فرق ہے کہ اس سے قبل دینی مدارس کے وفاقوں کو اس معاملہ میں اعتماد میں لیا جاتا تھا اور ان کے نمائندوں سے مشاورت کی جاتی تھی لیکن اب اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی اور حکومت اپنے طور پر ہی اس کام کو نمٹانے کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہے۔ حتیٰ کہ تمام دینی مکاتب فکر کے دینی مدارس کے وفاقوں کے مشترکہ اجلاس میں، جو گزشتہ روز جامعہ نعیمیہ لاہور میں ہوا اور جس میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے تمام وفاقوں کے ذمہ دار حضرات شریک ہوئے، بتایا گیا کہ کچھ عرصہ قبل وفاقی وزراء اور دیگر اعلیٰ سرکاری عہدہ داروں کے ساتھ دینی مدارس کے وفاقوں کے نمائندوں کے مشترکہ اجلاس میں ۹ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور طے کیا گیا تھا کہ دینی مدارس کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ اس ۹ رکنی مشترکہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں کیا جائے گا۔ پھر ستمبر کے وسط میں وفاقی وزیرتعلیم محترمہ زبیدہ جلال نے ایک اجلاس میں دینی مدارس کی نمائندہ قیادت کے ساتھ وعدہ کیا کہ ایک ماہ کے اندر مشترکہ اجلاس اس مقصد کے لیے طلب کیا جائے گا۔ لیکن ان دونوں باتوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے اور دینی مدارس کی قیادت کو ایک طرف رکھتے ہوئے حکومت ان کے بارے میں آرڈیننس کے نفاذ کی تیاریوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔

مذکورہ آرڈیننس دینی مدارس نے اس لیے مسترد کر دیا تھا کہ اس کے نفاذ کی صورت میں ان کی آزادی اور خودمختاری سلب ہو کر رہ جائے گی جو خود صدر جنرل پرویز مشرف کے اس اعلان کے منافی ہے کہ وہ مدارس کے نظام میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی انہیں کنٹرول میں ٔلینا چاہتے ہیں۔ یہ اعلان صدر جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں علمائے کرام کے ایک اجلاس میں پھر دہرایا ہے کہ ان کا دینی مدارس کے معاملات میں مداخلت اور کنٹرول کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ صرف ان کے نصاب میں جدید علوم کو شامل کرانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں قومی دھارے میں لایا جا سکے۔

اسی طرح پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع میں شرکت کے موقع پر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دینی مدارس کے نظام میں مداخلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ وارثان انبیائے کرامؑ کے مراکز ہیں۔ جبکہ جس آرڈیننس کو ازسرنو ملک میں نفاذ کرنے کی سرگرمیاں دکھائی دے رہی ہیں وہ دینی مدارس کے نظام کو مکمل طور پر سرکاری کنٹرول میں لینے کا قانون ہے اور وفاقی وزیرداخلہ کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اس آرڈیننس کے نفاذ کے لیے پیش رفت ہو رہی ہے۔ اس وقت اس سلسلہ میں عجیب سی صورتحال ہے:

  1. ایک طرف صدر محترم سمیت ذمہ داران حکومت کے یہ اعلانات ہیں کہ دینی مدارس کو کنٹرول کرنے اور ان کے نظام میں مداخلت کرنے کا کوئی سرکاری پروگرام نہیں ہے۔
  2. دوسری طرف اس آرڈیننس کا مسودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مختلف محکموں میں مشاورت کے لیے گھوم رہا ہے جس کے بارے میں دینی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس کے نفاذ سے دینی مدارس کی آزادی سلب ہو جائے گی اور وہ مکمل طور پر سرکاری کنٹرول میں چلے جائیں گے۔
  3. اور تیسری طرف امریکہ کا یہ اعلان اس صورتحال کو اور زیادہ گھمبیر بنا رہا ہے کہ وہ پاکستان کے دینی مدارس کی ’’اصلاح‘‘ چاہتا ہے اور اس نے اس مقصد کے لیے حکومت پاکستان کو کروڑوں کی مالی امداد دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت بارہ ارب روپے کی وہ خطیر رقم اس وقت فٹ بال بنی ہوئی ہے جو امریکہ نے فراہم کی ہے اور حکومت پاکستان اسے امداد کے نام سے دینی مدارس میں تقسیم کرنا چاہتی ہے لیکن دینی مدارس نے یہ رقم قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور جامعہ نعیمیہ لاہور میں منعقد ہونے والے مذکورہ اجلاس میں تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کی اعلیٰ قیادت نے متفقہ طور پر یہ طے کر لیا ہے کہ وہ نہ صرف امریکہ کی اس رقم کو مسترد کرتے ہیں بلکہ وہ کسی قسم کی سرکاری امداد قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ دینی مدارس کا یہ آزادانہ ماحول آج کی عالمی برادری اور مغربی قیادت کے لیے ناقابل برداشت ہے کہ وہ پوری آزادی کے ساتھ کسی تبدیلی اور تحفظات کے بغیر قرآن و سنت کی مکمل تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ مغربی قیادت کا تقاضا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے وہ حصے جو بالادست مغربی تہذیب اور عالمی نظام سے متصادم ہیں وہ نہ پڑھائے جائیں اور ان کے لیے نئی نسل کی ذہن سازی نہ کی جائے کیونکہ اس سے نئی نسل میں مروجہ عالمی نظام اور مغربی تہذیب و ثقافت کے خلاف بغاوت کا ذہن پیدا ہوتا ہے۔ مدارس کو اس کام سے روکنے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اگر رضاکارانہ طور پر مغربی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو انہیں کسی نہ کسی طرح سرکاری کنٹرول میں لیا جائے اور ’’قومی دھارے‘‘ میں شامل کر کے دیگر قومی اور حکومتی شعبوں کی طرح دینی مدارس کے شعبہ کو بھی عالمی نظام کے شکنجے میں جکڑ لیا جائے۔ مگر دینی مدارس کی قیادت بیدار ہے اور مغربی نظام کے اس مقصد کا پوری طرح ادراک رکھتی ہے اس لیے وہ مدارس کی آزادی اور خودمختاری کو ہر حالت میں قائم رکھنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے اور اس کے خلاف کسی اقدام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اس غرض کے لیے دینی مدارس کا ایک متبادل سرکاری نظام ’’مدرسہ ایجوکیشن بورڈ‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا اور محکمہ تعلیم نے انٹرمیڈیٹ کے تمام بورڈز میں ’’درس نظامی گروپ‘‘ قائم کیے لیکن اساتذہ اور طلبہ نے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ پھر اربوں روپے کی امداد کا لالچ دے کر مدارس کو اس ڈھب پر لانے کی کوشش کی گئی مگر دینی مدارس نے اربوں روپے کی اس رقم کو اس شان بے نیازی کے ساتھ ٹھکرا دیا کہ جرمنی کے سفیر محترم کو دارالعلوم سرحد پشاور جا کر سوال کرنا پڑا کہ آپ لوگ امریکہ کی مالی امداد کو قبول کیوں نہیں کر رہے؟ اس کے بعد ایک ہی حربہ باقی رہ گیا ہے کہ جبر سے کام لیا جائے اور یکطرفہ طور پر ان کے خلاف اقدامات کا اعلان کر دیا جائے۔ اس کے لیے دینی مدارس کے وفاقوں کو غیر مؤثر بنانا اور مدارس پر ان کی گرفت کمزور کرنا ضروری ہے اور نمائندہ وفاقوں کو نظر انداز کر کے الگ طور پر علمائے کرام کے اجلاس طلب کرنے، ملک بھر میں مدارس کو براہ راست امداد کی پیش کش کرنے اور رجسٹریشن و ریگولیشن کے نام پر مجوزہ آرڈیننس کی تیاری میں دینی مدارس کی نمائندہ قیادت کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ یکلخت ترک کر دینے کے پیچھے یہی حکمت عملی کارفرما ہے۔

ایک دوست نے پوچھا کہ کیا حکومت پنجاب کی طرف سے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے مذکورہ متنازعہ قانون کو آرڈیننس کی شکل میں جبرًا نافذ کرنے کی مخالفت کے باوجود وفاقی حکومت اتنے بڑے اقدام کا رسک لے گی؟ میں نے عرض کیا کہ ہم (ہمارے حکمران) ’’یو ٹرن‘‘ کے عادی ہیں بلکہ ہم نے ’’اباؤٹ ٹرن‘‘ کی مشق بھی اچھی طرح کر رکھی ہے جس کے لیے صرف ایڑی کے بل گھوم جانا ہوتا ہے اس لیے کوئی اقدام بھی غیرمتوقع نہیں ہے۔ البتہ اگر دینی مدارس کے وفاق باہمی رابطہ و اعتماد کی موجودہ فضا کو قائم رکھ سکیں، ملحقہ مدارس پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے ضروری تقاضے پورے کر لیں اور رائے عامہ کے ساتھ ان کا تعلق مستحکم ہو جائے تو جبر کا حربہ بھی اسی طرح ناکام ہو جائے گا جس طرح لالچ کا حربہ ناکام ہوا ہے۔ اصل بات ملک بھر کے دینی مدارس کے ارباب بست و کشاد کی دینی حمیت اور بیداری، اپنے اپنے وفاقوں کی قیادت پر بھرپور اعتماد اور پھر تمام وفاقوں کی قیادتوں کا باہمی رابطہ و مشاورت ہے۔ یہ بات قائم رہی تو ان شاء اللہ تعالیٰ دینی مدارس اس امتحان میں بھی سرخرو ہوں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter