عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں

   
تاریخ: 
۲۹ جنوری ۲۰۱۳ء

۲۹ جنوری کو ڈسٹرکٹ کونسل ہال گوجرانوالہ میں محکمہ اوقاف و مذہبی امور کی طرف سے ڈویژنل سیرت کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کی صدارت ڈی سی او گوجرانوالہ سید نجم احمد شاہ نے کی جبکہ محکمہ اوقاف کے زونل ایڈمنسٹریٹر عشرت اللہ خان نیازی، مولانا خالد حسن مجددی، مولانا محمد رمضان اویسی، مولانا محمد نعیم بٹ، مولانا ریاض خان سواتی، قاری محمد سلیم زاہد، مولانا شاہد فاروق بٹ، قاری سعید احمد اور پروفیسر قاری عبید اللہ عابد کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس کا موضوع تھا ’’عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں‘‘۔ اس موقع پر جو معروضات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج مجھے عدلِ اجتماعی کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور ارشادات گرامی کے حوالہ سے کچھ عرض کرنا ہے، اور اس کے بیسیوں پہلوؤں میں سے صرف ایک پہلو پر چند معروضات پیش کروں گا۔ وہ یہ کہ عام طور پر ایک حکومت اور ریاست کی ذمہ داری میں شہریوں کی جان و مال کی حفاظت، امن کی فراہمی، انصاف کے قیام اور ان کے حقوق کی پاسداری کو شامل کیا جاتا ہے لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت و ریاست کی ذمہ داریوں میں ایک اور بات کا اضافہ کیا کہ وہ شہریوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی اور سوسائٹی کے نادار، بے سہارا اور معذور لوگوں کی کفالت کی بھی ذمہ دار ہے۔ اسی کو آج کی دنیا میں رفاہی ریاست اور ویلفیئر اسٹیٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مال چھوڑ کر مرا وہ مال اس کے وارثوں میں تقسیم ہوگا ’’ومن ترک کلًا وضیاعًا فإلیّ وعلیّ‘‘ اور جو شخص قرض کا بوجھ اور بے سہارا اولاد چھوڑ کر مرا وہ میری طرف رجوع کریں گے اور ان کی ذمہ داری مجھ پر ہوگی۔ گویا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوسائٹی کے نادار، مستحق اور بے سہارا اپنی ضروریات کے لیے میرے پاس آئیں گے، اور آپؐ نے بات صرف ’’فإلیّ ‘‘پر نہیں چھوڑی بلکہ’’ وعلیّ‘‘ فرما کر خود کو اس کا ذمہ دار بھی قرار دیا۔ چنانچہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے بیت المال کا تصور سامنے آیا جس کا دائرہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ تھا کہ کسی شخص کو جو ضرورت بھی پیش آتی تھی وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المال کے فنڈ سے اس کی ضرورت پوری فرما دیتے تھے۔ بیسیوں واقعات احادیث میں مذکور ہیں جن میں سے صرف دو کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے خاندان کو ایک سفر کے لیے کچھ اونٹ درکار تھے، میں خاندان کا نمائندہ بن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور سواریوں کا تقاضہ کیا، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اونٹ موجود نہیں تھے اس لیے آپؐ نے نہیں دیے لیکن تھوڑی دیر کے بعد کہیں سے اونٹوں کا بندوبست ہوگیا تو مجھے واپس بلا کر دو جوڑے میرے حوالے کیے۔ اسی طرح ایک واقعہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی اور دل لگی کے حوالہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ مجھے سفر کے لیے اونٹ کی ضرورت ہے۔ آپؐ نے فرمایا ٹھہرو میں تمہیں اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں، وہ شخص فکرمند ہوگیا کہ میں اونٹنی کے بچے کے ساتھ کیا کروں گا، تھوڑی دیر اس کی فکرمندی سے محظوظ ہونے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کے بندے جو اونٹ میں تجھے دوں گا وہ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوگا۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی ضروریات کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتے تھے اور بیت المال سے ان کی ضروریات پوری کی جاتی تھیں۔ جبکہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمرانوں کی مہربانی اور احسان قرار دینے کی بجائے حکومت کی ذمہ داریوں کے طور پر بیان کیا ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مالی نظام یہ تھا کہ غنیمت میں سے بیت المال کو خمس یعنی پانچواں حصہ ملتا تھا اور اس خمس کا خمس جو کل غنیمت کا چار فی صد بنتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ذاتی اور گھریلو اخراجات کے لیے دیا جاتا تھا۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق اس خمس الخمس میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج اور خاندان کے دیگر افراد کو خرچہ دیتے تھے اور یہ خرچے پورے ہونے کے بعد جو بچ جاتا تھا وہ پھر بیت المال کو عام مسلمانوں کی ضروریات کے لیے واپس کر دیتے تھے۔

میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو لوگوں کی ضروریات حسبِ موقع فراہم کرنے کا ذمہ دار قرار دینے کی بات سب سے پہلے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اور وہیں سے رفاہی ریاست اور ویلفیئر اسٹیٹ کا آغاز ہوتا ہے ، اور آج بہت سی حکومتوں نے رفاہی ریاست کا یہ نظام اختیار کر رکھا ہے۔ یہ نظام خلفاء راشدینؓ کے دور میں باقاعدہ منظم ادارے کی شکل اختیار کر گیا تھا جس کی ایک عملی صورت حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور خلافت کے ایک واقعہ کا ذکر کر کے واضح کرنا چاہتا ہوں جبکہ اس وقت مدینہ منورہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بیت المال کے آغاز کو کم و بیش ایک صدی گزر چکی تھی۔

کتاب الاموال میں امام ابو عبید قاسم بن سلّامؒ نے واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور خلافت میں ان کے عراق کے گورنر عبد الحمید مرحوم نے ایک سال انہیں خط لکھا کہ صوبہ میں زکوٰۃ و عشر اور دیگر محصولات کی وصولی کے بعد پورے سال کا خرچہ اور بجٹ پورا کر کے کچھ رقم بچ گئی ہے، اس کے بارے میں بتایا جائے کہ ہم کیا کریں؟ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے جواب لکھا کہ یہ سروے کرواؤ کہ تمہارے صوبے میں جو لوگ مقروض ہیں اور اپنا قرضہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے، ان کے قرضے اس رقم میں سے ادا کر دو، گورنر نے جواب دیا کہ حضرت یہ کام میں پہلے ہی کر چکا ہوں۔ امیر المؤمنین نے دوسرا خط لکھا کہ جن بالغ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں ان کی شادیاں اس رقم میں سے کرا دو۔ گورنر نے جواب دیا کہ یہ کام بھی میں کر چکا ہوں، امیر المؤمنین نے تیسرا خط لکھا کہ جن خاوندوں نے ابھی تک بیویوں کے مہر ادا نہیں کیے اور وہ مہر ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے، ان کے مہر اس رقم میں سے دلوا دو، گورنر نے جواب دیا کہ یہ کام بھی میں کر چکا ہوں۔ امیر المؤمنین نے چوتھا خط لکھا کہ زمینوں کا سروے کرواؤ اور بے آباد زمینوں کی کاشت کے لیے کسانوں کو آسان قسطوں پر قرضے دے دو۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ میں نے یہ واقعہ ایک مجلس میں بیان کیا تو ایک نوجوان نے مجھ سے سوال کیا کہ مولوی صاحب! یہ صوبے کا بجٹ تھا یا بحر الکاہل تھا، ایک صوبے کے بجٹ میں اتنے پیسے کدھر سے آگئے تھے؟ میں نے جواب دیا کہ انہی حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا ایک اور واقعہ سن لو یہ بات بھی سمجھ میں آجائے گی۔ کتاب الاموال ہی کی روایت کے مطابق ایک دن حضرت عمر بن عبد العزیزؒ شام کے وقت گھر واپس آئے تو اہلیہ سے پوچھا کہ تمہارے پاس ایک درہم ہو تو مجھے دے دو ضرورت ہے۔ اس نے پوچھا کیا ضرورت ہے؟ فرمایا کہ گھر آتے ہوئے راستے میں ایک ریڑھی پر انگور دیکھے ہیں، انگور کھانے کو جی چاہتا ہے مگر جیب میں پیسے نہیں ہیں۔ اہلیہ نے کہا کہ آپ کے پاس نہیں ہیں تو میرے پاس کہاں سے آئیں گے؟ پھر اس نے بیویوں والے انداز میں کہا کہ آپ کیسے امیر المؤمنین ہیں کہ اپنے لیے ایک درہم کے انگور بازار سے نہیں منگوا سکتے۔ میں اس کا ترجمہ کیا کرتا ہوں کہ کیا آپ کے پاس اتنا صوابدیدی فنڈ بھی نہیں ہے کہ ایک درہم کے انگور اپنے لیے خرید سکیں؟ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اس پر فرمایا کہ خدا کی بندی جس درہم کی تم بات کر رہی ہو وہ درہم نہیں آگ کا انگارہ ہے۔

میں نے اس نوجوان سے کہا کہ برخوردار! جس ملک کا حکمران سرکاری خزانے کے درہم کو آگ کا انگارہ سمجھے گا اس کے بجٹ میں پیسے ہی پیسے ہوں گا، پھر مقروضوں کے قرضے بھی ادا ہوں گے، کنواروں کی شادیاں بھی ہوں گی، خاوندوں کے مہر بھی ادا ہوں گے، اور کسانوں کو قرضے بھی ملیں گے، لیکن شرط یہ ہے کہ ملک کا حکمران سرکاری خزانے کے روپے کو آگ کا انگارہ تصور کرے۔

حضرات محترم ! میں نے عدلِ اجتماعی اور سوشل جسٹس کے حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کی صرف ایک جھلک آپ کے سامنے پیش کی ہے، آج کی دنیا کو اسی نظام کی تلاش ہے اور یہی نسل انسانی کی بہت بڑی ضرورت ہے، یہ ہماری ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی کہ دنیا کو سوشل جسٹس کے اس تصور سے متعارف کرائیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدینؓ کی تعلیمات کی روشنی میں صحیح سمت نسلِ انسانی کی راہ نمائی کا فریضہ سر انجام دیں۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۳۱ جنوری ۲۰۱۳ء)
2016ء سے
Flag Counter