انسانی اسمگلنگ اور غلامی کی نئی شکلیں

   
تاریخ : 
ستمبر ۲۰۰۹ء

مغربی ملکوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے انسانی معاشرہ سے غلامی کو ختم کر دیا ہے اور انسان کو وہ عزت فراہم کر دی ہے جس کا وہ مستحق ہے۔ لیکن یہ دعویٰ صرف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور اس کی فائلوں میں درج ہے، جبکہ اس کی عملی صورت یہ ہے کہ لاکھوں انسانوں کو آج بھی عالمی سطح کے منظم ادارے ورغلا کر اور دوسرے ملکوں میں بہتر روزگار کی فراہمی کی لالچ دے کر تکنیکی طور پر غلام بنا لیتے ہیں اور پھر ان سے غلاموں کی طرح ہی کام لیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی کے ۱۰ جولائی ۲۰۱۱ء کے شمارہ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیے:

’’یوکرائن، روس اور مشرقی یورپ میں زیادہ تر خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ ہوتی ہے جن میں سے اکثریت کو جنسی تسکین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق سالانہ ۶ لاکھ سے سوا آٹھ لاکھ افراد کو غیر قانونی طور پر بین الاقوامی سرحدوں سے منتقل کیا جاتا ہے، ان میں ۸۰ فیصد خواتین اور بچے ہوتے ہیں۔امریکا میں سالانہ ۴۵ ہزار سے ۵۰ ہزار افراد غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہیں جن میں سے ۳۰ ہزار ایشیائی ملکوں سے، دس ہزار لاطینی امریکا سے اور پانچ ہزار دیگر ممالک سے آتے ہیں، کینیڈا میں سالانہ چھ سو سے آٹھ سو افراد غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہیں جبکہ کینیڈا میں داخل ہونے کے بعد غیر قانونی طور پر امریکا جانے والے افراد سالانہ ۱۵۰۰ سے ۲۲۰۰ کے درمیان ہیں۔

انسانی اسمگلنگ کو آج ہیومن ٹریفکنگ (Human Trafficking) کا نام دیا جاتا ہے، یعنی انسانوں کو غیر قانونی طور پر ان کے ملک سے دوسرے ملکوں میں منتقل کرنا، یہ غیر قانونی کاروبار آج عالمی سطح پر اسلحے اور منشیات کی اسمگلنگ کے بعد دوسرا بڑا کار و بار بن چکا ہے اور اس سے سالانہ عالمی سطح پر پانچ ارب ڈالر سے ۹ ارب ڈالر تک کی آمدنی ہوتی ہے، کونسل آف یورپ کے مطابق گزشتہ دس برس میں انسانی اسمگلنگ کا کاروبار کرنے والوں کو ساڑھے بیالیس ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی۔

اقوام متحدہ کے مطابق اس دوران پوری دنیا کے ۱۲۷ ملکوں میں ۲۵ لاکھ انسانوں کو غیر قانونی طور پر دوسرے ملکوں میں منتقل کیا گیا، مختلف ملکوں میں انسانوں کی غیر قانونی منتقلی کا کاروبار بھی مختلف انداز کا ہے، مثلاً گھانا اور دیگر افریقی ممالک میں سالانہ ۲۴ ہزار بچے غیر قانونی طور پر دوسرے ملکوں میں منتقل کیے جاتے ہیں اور ان بچوں سے غلاموں کی طرح صنعتوں میں کام لیا جاتا ہے، امریکا، مغربی یورپ، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، بوسنیا، کسوو، کینیڈا، برازیل، ہندوستان، نیپال، بنگلہ دیش، میکسیکو، فلپائن۔‘‘

یہ غلامی افراد کی سطح پر ہے اور انسانی اسمگلنگ کی صورت میں ہے مگر اقوام و ممالک کی غلامی کا منظر تو پوری دنیا کے سامنے ہے کہ عالمی استعمار نے سیاسی، معاشی اور عسکری حربوں سے قوموں اور ملکوں کو یرغمال و غلام بنا رکھا ہے اور انسانی آبادی کے ایک بڑے حصے کو ان کے شہری و سیاسی حقوق اور قومی اور ملکی آزادی سے محروم کر رکھا ہے، اسی کو کہا جاتا ہے کہ ’’ہاتھی کے دانت، کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘۔

   
2016ء سے
Flag Counter