’’سودی نظام‘‘ پر اسلام آباد میں ایک اہم سیمینار

   
تاریخ : 
۱۴ مئی ۲۰۱۹ء

رمضان المبارک کے دوران معمولات تبدیل ہو جاتے ہیں اور اس کا آغاز شعبان المعظم کے آخری ہفتہ سے ہی ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کچھ ضروری کام بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس سال شعبان کے آخری ایام میں اسلام آباد کا ایک اہم سفر ہوا جس کے مشاہدات میں قارئین کو شریک کرنا ضروری تھا مگر تاخیر ہوگئی۔ شریعہ اکادمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد نے مفتیان کرام کے چھ روزہ تربیتی کورس کا اہتمام کر رکھا تھا اور ۴ مئی کو اس کا آخری روز تھا۔ محترم ڈاکٹر مشتاق احمد اور جناب علی اصغر کا ارشاد تھا کہ میں اس میں ضرور حاضری دوں، چنانچہ تعمیل حکم میں حافظ محمد عثمان حیدر کے ہمراہ اسلام آباد پہنچا اور مذکورہ کورس کے شرکاء سے ان کے موضوع پر گفتگو کے علاوہ انسدادِ سود کی مہم کے حوالہ سے شریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ایک مستقل نشست میں حاضری ہوگئی جبکہ وفاقی شرعی عدالت کے محترم جسٹس فدا محمد خان کے ساتھ مختصر ملاقات کا موقع بھی مل گیا جو مفتیان کرام کے کورس میں لیکچر کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے۔

مفتیان کرام سے میں نے مختصرًا چند باتیں عرض کریں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ تفسیر قرطبیؒ میں مذکور ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے کسی شخص نے پوچھا کہ کیا قاتل کے لیے توبہ کی گنجائش ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں ہے۔ یہ سن کر وہ چلا گیا۔ اس پر مجلس کے حضرات نے عرض کیا کہ حضرت! توبہ کی گنجائش تو ہر گنہگار کے لیے ہوتی ہے اور آپ نے بھی اس سے قبل فرمایا تھا کہ قاتل کے لیے توبہ کی گنجائش ہے، جبکہ اس سائل کو آپ نے اس کے خلاف بات کہہ دی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ میں نے اس کے چہرے سے اندازہ کر لیا تھا کہ وہ کسی کو قتل کرنے کے ارادے سے جا رہا ہے اور میرے فتوے کو اپنی تسلی کے لیے استعمال کرے گا۔ مجلس میں شریک ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اس سائل کو تلاش کر کے اس بات کی تحقیق کی تو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا اندازہ درست ثابت ہوا اور ان کی حکمت عملی بھی کامیاب نظر آئی کہ سوال پوچھنے والے شخص نے قتل کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ اس سے فقہاء کرام یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کسی استفتاء پر مفتی صاحب کو صرف یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کیا پوچھ رہا ہے بلکہ یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کیوں پوچھ رہا ہے اور ان کے فتوے کا وہ کہاں اور کیسے استعمال کرے گا؟

انسداد سود کے حوالہ سے نشست میں قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے ایم این اے مولانا عبد الاکبر چترالی کا حال ہی میں پیش کردہ بل موضوع گفتگو تھا جو بحث کے لیے منظور ہو کر قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جا چکا ہے اور اس کا سردست خوش آئند پہلو یہ ہے کہ وفاقی وزیر قانون نے اس کی مخالفت نہیں کی جس کی وجہ سے اسے بحث کے لیے منظور کر کے کمیٹی کے حوالہ کر دیا گیا ہے۔ اس بل کے ساتھ ساتھ سودی نظام کے خلاف اب تک کی پارلیمانی، عوامی اور عدالتی جدوجہد کے حوالہ سے پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد، ڈاکٹر زاہد صدیق مغل اور جناب علی اصغر کے علاوہ راقم الحروف نے بھی گزارشات پیش کیں اور خاص طور پر مختلف مکاتب فکر کے مشترکہ فورم ’’تحریک انسداد سود پاکستان‘‘ کی اب تک کی سرگرمیوں سے شرکاء کو مختصرًا آگاہ کیا۔ اس فورم کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے کنوینر کی ذمہ داری میرے سپرد ہے اور اس میں مختلف مکاتب فکر بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ کے سرکردہ حضرات شامل ہیں۔

مقررین کی گفتگو میں سود کی تعریف، اطلاق اور اس کی مختلف صورتوں کے بارے میں پیدا کیے جانے والے شکوک و اعتراضات بھی زیر بحث آئے اور ان رکاوٹوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا جو پارلیمنٹ، عدالت اور عوامی محاذ پر سودی نظام کے خاتمہ کی راہ میں حائل دکھائی دیتی ہیں۔ اس پر راقم الحروف نے شرکاء محفل کو ایک لطیفہ سنایا جس سے سب دوست محظوظ ہوئے۔ وہ یہ کہ جن دنوں ’’تحریک انسداد سود پاکستان‘‘ کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا اور اخبارات میں میرے مختلف مضامین اور بیانات سامنے آئے تو ایک صاحب نے مجھ سے خط و کتابت شروع کی اور اس بات پر زور دیا کہ ہم ’’انسداد سود‘‘ کے نام پر جو کچھ کر رہے ہیں وہ قرآن کریم کے خلاف ہے اور وہ مجھ سے مل کر اس غلطی سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ ملاقات کے لیے تشریف لائے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ ہم لوگ تو قرآن کریم کے حکم پر عملدرآمد کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں، اگر خدانخواستہ یہ سب کچھ قرآن کریم ہی کے خلاف ہے تو اپنی غلطی واضح ہونے پر ہم نظرثانی کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ لوگوں نے جس چیز کو سود قرار دے کر اس کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے، قرآن کریم اسے سود نہیں کہتا، قرآن کریم نے تو ’’وغرابیب سود‘‘ کہہ کر کالے پہاڑوں کو سود کہا ہے اور آپ لوگ خوامخواہ اسے معاشی نظام کی طرف لے گئے ہیں۔ اس ’’نکتہ رسی‘‘ پر باقاعدہ سر پیٹنے کو جی چاہا اور میں نے ’’قالو سلاما‘‘ کہہ کر پیچھا چھڑانے میں عافیت محسوس کی۔

شریعہ اکادمی کی سودی نظام کے حوالہ سے اس نشست سے مجھے خاصا حوصلہ ملا بلکہ یہ معلوم کر کے حوصلہ کئی گنا بڑھ گیا کہ آئندہ دنوں میں شریعہ اکادمی سودی نظام سے متعلقہ علمی، فکری اور فقہی مسائل پر ایک بڑے اور وسیع دائرہ میں سیمینار کا اہتمام کرنے والی ہے جو اس جدوجہد میں بہت فائدہ دے گا۔ اس موقع پر اس بات پر زور دیا گیا کہ وطن عزیز کو سودی نظام کی نحوست سے نجات دلانے کے لیے مختلف محاذوں پر کام کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

  • پارلیمانی محاذ پر جہاں مولانا عبد الاکبر چترالی کا پیش کردہ بل زیر بحث ہے، ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتوں و رابطوں اور ان کی بریفنگ کا اہتمام ضروری ہے اور یہ مستقل طور پر کرنے کا کام ہے۔
  • وفاقی شرعی عدالت میں سودی قوانین کے خاتمہ کا کیس ایک عرصہ سے چل رہا ہے، اس میں دلچسپی لینا، بحث و مباحثہ میں شریک ہونا اور کیس کی تاریخ پر وہاں حاضر ہو کر اپنی موجودگی اور دلچسپی کا اظہار کرنا اہل دین بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی کے علماء کرام اور دینی راہنماؤں کی ذمہ داری ہے۔
  • عصری و دینی درسگاہوں میں سودی نظام اور اس سے متعلقہ مباحث کو درس و تدریس کا موضوع بنانا اور اساتذہ و طلبہ کو اس کی عملی و فکری ضروریات سے آگاہ کرنا اس کا اہم تقاضا ہے۔
  • عوامی محاذ پر علماء کرام اور خطباء کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خطبات جمعہ اور درس و وعظ میں اس عنوان پر گفتگو کریں اور رائے عامہ کو اس سلسلہ میں بیدار و منظم کرنے کی خدمت سرانجام دیں۔
  • جبکہ میڈیا کے تمام شعبوں کا یہ دینی و قومی فریضہ بنتا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک اہم ریاستی ستون ہونے کی حیثیت سے اپنے موجودہ رویہ پر نظرثانی کریں اور شکوک و شبہات کو فروغ دینے کی بجائے دستور پاکستان کی ہدایت کے مطابق اسلامی تعلیمات کے فروغ اور فحاشی اور سودی نظام کے خاتمہ کے لیے اپنی ترجیحات کا ازسرنو تعین کر کے قومی میڈیا کا قبلہ درست کریں۔
  • ملک میں وفاقی دارالحکومت، خیبرپختونخواہ اور صوبہ پنجاب کی حدود میں پرائیویٹ سطح پر سود کے لین دین کی ممانعت کا قانون موجود ہے جس کے تحت یہ قابل سزا جرم ہے، مگر اکثر لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے اور نہ ہی اس پر عمل کرانے میں کوئی دلچسپی موجود ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو اس سے آگاہ کیا جائے، اس کے تحت سود خوروں کے خلاف مقدمات کے اندراج کا اہتمام کیا جائے اور اس پر عملدرآمد کا عمومی ماحول بنایا جائے۔
   
2016ء سے
Flag Counter