توہینِ رسالت ؐ کو عالمی سطح پر جرم قرار دیا جائے

   
تاریخ : 
اکتوبر ۲۰۱۲ء

توہینِ رسالتؐ پر مبنی بدنام زمانہ حالیہ امریکی فلم کے خلاف عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا میں جس شدید ردعمل کا اظہار ہوا ہے وہ بلاشبہ اس حقیقت کا ایک بار پھر اظہار ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ مسلمانوں کی محبت و عقیدت اور جذباتی وابستگی پوری شدت کے ساتھ قائم ہے اور اس میں خدانخواستہ کمی یا کمزوری کی جو امید عالمی سیکولر لابیوں نے ایک عرصہ سے اپنے ذہنوں میں بسا رکھی ہے اس کا کوئی امکان ابھی تک پیدا نہیں ہو سکا۔

عالمی سیکولر لابیاں بالخصوص مغرب کے اسلام بیزار دانشور گزشتہ کئی صدیوں سے اسلام، قرآن کریم، جناب نبی اکرمؐ اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار و روایات کے خلاف منفی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں جس میں لالچ، میڈیا، لابنگ اور خوف کے سارے ہتھکنڈے بے دردی کے ساتھ استعمال کیے جا رہے ہیں۔ مگر اس مذموم مہم میں اپنی قائم کردہ توقعات کا عشرِعشیر بھی انہیں حاصل نہیں ہو سکا، کیونکہ آج بھی دنیائے اسلام اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت و عقیدت میں اسی مقام پر کھڑی نظر آرہی ہے جہاں وہ اب سے دو سو برس پہلے تھی اور دنیا کا کوئی بھی مسلمان حرمت رسول ؐپر قربان ہونے کو اب بھی اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہے۔

پاکستان میں حکومتی سطح پر ۲۱ ستمبر جمعۃ المبارک کو ’’یومِ عشق رسولؐ‘‘ منایا گیا ہے جس میں پوری قوم نے متحد ہو کر ناموس رسالتؐ کے مسئلہ پر یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے، جو تشدد اور قتل و غارت کے چند جزوی اور افسوسناک واقعات کے باوجود مجموعی طور پر پرجوش اور پراَمن رہا ہے اور اس پر پوری قوم ہدیۂ تبریک کی مستحق ہے۔ اس موقع پر ہمارے لیے سب سے زیادہ اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ جو بات اس سے قبل صرف دینی حلقوں کی طرف سے کہی جاتی تھی کہ توہینِ رسالتؐ کو عالمی سطح پر جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کی جائے اور اقوامِ متحدہ سمیت عالمی ادارے اس کی طرف عملی پیشرفت کریں، وہ بات اب حکومت کی جانب سے علی الاعلان کہی گئی ہے۔ اور اس سلسلہ میں ہونے والی قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم جناب راجہ پرویز اشرف نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ جس طرح ’’ہولوکاسٹ‘‘ کے بارے میں لب کشائی کو صرف اس لیے جرم سمجھا جاتا ہے کہ اس سے یہودیوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اسی طرح جناب نبی اکرمؐ کی توہین کو بھی بین الاقوامی سطح پر جرم قرار دینا ضروری ہے کیونکہ اس سے دنیا کے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اس کے ساتھ اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ حکومتِ پاکستان اس مقصد کے لیے اقوامِ متحدہ سے رجوع کرنے کا پروگرام رکھتی ہے۔

ہم حکومتِ پاکستان کے اس عزم کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس مسئلہ کا اصل حل یہی ہے کہ عالمی برادری مسلمانوں کے دلی جذبات کا احترام کرے اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو پوری نسلِ انسانی کی مشترکہ میراث قرار دیتے ہوئے ان کی بے حرمتی اور توہین کو سنگین جرم قرار دینے کے لیے عالمی اداروں کی طرف سے قانون سازی کا اہتمام کیا جائے، اس لیے اس مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جس میں مسلم حکومتوں اور او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کو مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter