بلاول بھٹو زرداری سے چند گزارشات

   
تاریخ : 
جنوری ۲۰۰۸ء

محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی جگہ ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت مکمل کرنے تک ان کے والد جناب آصف علی زرداری کو شریک چیئرمین کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے، جبکہ مخدوم امین فہیم کو آئندہ وزارت عظمی کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی آئندہ قیادت کے خدوخال کچھ نہ کچھ واضح ہوگئے ہیں۔ چیئرمین شپ کو بھٹو خاندان میں رکھنا ہمارے خطے کی روایتی مجبوری ہے کہ مغرب کی طرز کی خالص جمہوریت ہمیں راس نہیں آتی اور خاندانی عقیدت اور وابستگی کا پیوند لگائے بغیر ہمارے ہاں جمہوری اور عوامی قیادت بھی مکمل نہیں ہو پاتی۔ بھارت میں نہرو خاندان اور پاکستان میں بھٹو خاندان اس کی واضح مثالیں ہیں اور ان کے علاوہ مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی اور محمود اچکزئی جیسے سیاسی قائدین کے نام بھی اس روایت کے تسلسل کے لیے پیش کیے جا سکتے ہیں۔

ہمیں پی پی کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کا حق نہیں ہے لیکن ایک ہمدرد کے طور پر رائے تو دے سکتے ہیں اور اس حوالے سے ہماری رائے یہ ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت کے خانے میں بھٹو خاندان، زرداری خاندان اور مخدوم امین فہیم کے ساتھ جناب اعتزاز احسن کو بھی فٹ کر لیا جاتا یا اب کر لیا جائے تو خود پی پی کے لیے بھی یہ بہت فائدے کی بات ہے۔ بھٹو خاندان کے ساتھ بے لچک اور مسلسل سیاسی وفاداری کے ساتھ ساتھ ملک میں دستور کی بالادستی کے لیے جدوجہد نے جناب اعتزاز احسن کے لیے یہ استحقاق پیدا کر دیا ہے کہ انہیں ان کی سیاسی جماعت کی قیادت میں باقاعدہ شریک کیا جائے اور اس معروضی حقیقت کو یکسر نظر انداز کر دینا کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں ہوگا۔

بلاول زرداری نے اپنے نام کے ساتھ بھٹو کا لفظ بھی شامل کر لیا ہے اور اب وہ بلاول بھٹو زرداری کہلائیں گے تاکہ بھٹو خاندان کے ساتھ ان کی نسبت واضح رہے، اس پر بعض حلقوں میں چہ میگوئیاں کی جا رہی ہیں لیکن ہمارے خیال میں یہ کوئی زیادہ تعجب کی بات نہیں ہے:

  • حضرت امام جعفر صادقؒ سے کسی نے سوال کیا تھا کہ جناب آپ کا خاندان اولاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہلاتا ہے حالانکہ آپ حضرات کا جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ رشتے کا تعلق حضرت فاطمہؓ کے حوالے سے ہے، جبکہ نسب تو باپ کے ذریعے قائم ہوتا ہے۔ حضرت امام جعفر صادقؒ نے جواب میں فرمایا کہ قرآن کریم نے حضرت عیسٰی کو اولاد آدم میں شمار کیا ہے حالانکہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور ان کا آدم کے ساتھ رشتہ ان کی والدہ محترمہ حضرت مریم علیہا السلام کے ذریعے ہے، اس لیے حضرت عیسٰیؑ اگر حضرت آدمؑ کی اولاد میں شمار ہوتے ہیں تو ہمیں بھی اولاد رسولؐ کہلانے کا حق ہے۔
  • علاوہ ازیں ایک حدیث مبارکہ میں بھی یہ آتا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ایک خاندان کے لوگوں سے بات کرنے کے لیے انہیں ایک جگہ جمع ہونے کو کہا اور فرمایا کہ صرف اس خاندان کے افراد جمع ہوں۔ اور جب وہ ایک چاردیواری میں جمع ہو گئے تو نبی اکرمؐ نے پھر دریافت کیا کہ کیا خاندان سے باہر سے کوئی شخص تو تمہارے اندر موجود نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اور تو کوئی نہیں ہے لیکن ہمارا ایک بھانجا یہاں بیٹھا ہے جو دوسرے خاندان سے ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں ’’ابن اخت القوم منہم‘‘، بھانجا بھی قوم میں شمار ہوتا ہے۔

اس لیے اگر بلاول زرداری نے اپنی نسبت بھٹو خاندان کے ساتھ مستقل طور پر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس میں ہمارے خیال میں کوئی زیادہ اشکال کی بات نہیں ہے۔

بلاول بھٹو زرداری ۱۹ سالہ نوجوان ہیں، انہوں نے ابھی اپنی تعلیم مکمل کرنی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی تربیت بھی ہونی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس دوران پارٹی کے معاملات آصف زرداری ہی چلائیں گے اور اپنی تعلیم اور تربیت مکمل کرنے کے بعد بلاول اپنی نئی ذمہ داری سنبھالیں گے۔ ہم اس موقع پر عزیز بلاول کے ساتھ ان والدہ محترمہ کی المناک شہادت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کا جانشین منتخب ہونے پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان کے ایک بہی خواہ اور ہمدرد ہونے کے ناتے سے ایک دو گزارشات ان سے کرنا چاہتے ہیں۔

ایک بات تو یہ ہے کہ وہ اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ بھٹو خاندان کے موجودہ سیاسی قد کاٹھ، ملکی و بین الاقوامی تعارف اور لیڈرشپ کی ساکھ کا اصل سرچشمہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی شخصیت ہے۔ ان کی فکر و جدوجہد کے باعث پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد کی ہمدردیاں اور سیاسی وابستگی اس خاندان کو حاصل ہے۔ بھٹو مرحوم کی جن خدمات اور کارناموں نے انہیں قومی اور بین الاقوامی سیاست میں یہ مقام بخشا ہے، ملک کے عام لوگوں کی نظر میں اس کا نقشہ کچھ اس طرح ہے:

  • انہوں نے مزدور، کسان اور دیگر محنت کش اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو حقوق کا شعور دیا اور ان میں اس کے لیے آواز بلند کرنے کا حوصلہ پیدا کیا۔
  • مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو سنبھالا اور ملک کے تمام سیاسی حلقوں کو اعتماد میں لے کر ملک کی تعمیر نو کا آغاز کیا۔
  • ملک کے تمام دینی، سیاسی اور علاقائی گروہوں کو اعتماد کی لڑی میں پرو کر ۱۹۷۳ء کا متفقہ دستور دیا جو آج بھی ملک کے تمام طبقوں کا متفقہ دستور ہے اور قومی وحدت کا ضامن ہے۔
  • اسلام، جمہوریت یا سوشلزم کی بحث میں ملک کی اعلیٰ ترین قیادت کو اپنے ساتھ رکھتے ہوئے ۱۹۷۳ء کے دستور میں سمو کر ہمیشہ کے لیے یہ بات طے کرا دی کہ ملک میں جمہوری حکومت ہوگی جو قرآن و سنت کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک کا نظام چلائے گی۔
  • ایک صدی سے لاینحل چلا آنے والا قادیانی مسئلہ حل کیا اور اس سلسلے میں پوری دنیا کی امت مسلمہ کا اعتماد حاصل کیا۔
  • لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کر کے عالم اسلام کی وحدت کے ساتھ پاکستان کی عملی وابستگی کا اظہار کیا۔
  • پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی طرف پیشرفت کی اور اسے پاکستان اور عالم اسلام کی ضرورت قرار دیتے ہوئے عالمی استعمار کی دھمکیوں کے باوجود ایٹمی پروگرام کو پروان چڑھایا۔

یہ وہ کارنامے ہیں جن کا پاکستان پیپلز پارٹی کے باشعور رہنماؤں اور کارکنوں کی زبان پر اکثر تذکرہ رہتا ہے اور جن کا بھٹو مرحوم کے سیاسی مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں۔ اس لیے ہمارے خیال میں یہی بھٹو مرحوم کا ورثہ ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اب بلاول بھٹو زرداری پر آ پڑی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ پی پی پی کی نئی قیادت اور اپنا وقت آنے پر بلاول بھٹو زرداری اپنی سیاسی پالیسیاں اور ترجیحات طے کرتے وقت ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ان کارناموں اور اصولوں کو ضرور پیش نظر رکھیں گے جن کی وجہ سے بھٹو خاندان اور پی پی پی کو قومی اور بین الاقوامی سیاست میں یہ مقام حاصل ہوا ہے۔

عزیز بلاول سے دوسری گزارش ہم یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے دبئی پہنچنے کے بعد ان سے منسوب ایک انٹرویو ان کی ویب سائٹ کے حوالے سے سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے دوسری بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ وہ لبرل مسلمان ہیں اور اس انتہا پسندی کے خلاف ہیں جو اسلام کے بارے میں سترھویں صدی کی مخصوص تشریح کو زبردستی مسلمانوں پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے نماز اور ڈاڑھی کے لیے زبردستی کرنے کا بھی ذکر کیا ہے۔ اگرچہ ان کے والد محترم جناب آصف علی زرداری نے ایک بیان میں اس ویب سائٹ کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسی ویب سائٹ بلاول بھٹو زرداری کا امیج خراب کرنے کے لیے سازش کے تحت بنائی گئی ہے۔

لیکن اس کے باوجود چونکہ بلاول بھٹو زرداری کی عمر اور ان کے معاشرتی طبقے اور کلاس کے نوجوانوں کا عام ذہن اسی نوعیت کا ہے اور اس میں ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہے کہ انہیں اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے جو ذرائع میسر ہیں، ان سے اسلام کے بارے میں اسی طرح کا تاثر قائم ہو سکتا ہے۔ چنانچہ مسلم دنیا کے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اکثریت، جن کی اسلامی تعلیمات کے اصل سورسز تک رسائی نہیں ہے، اسلام کے بارے میں یہی ذہن رکھتی ہے، اس لیے اگر بلاول بھٹو زرداری نے یہ بات کہہ دی ہے تو اس میں ہمارے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اور اس میں ہم ایسے نوجوانوں کو قصوروار نہیں سمجھتے کہ اصل قصور ہمارے تعلیمی نظام اور تربیتی سسٹم کا ہے جو اسلامی تعلیمات کے اصل سورسز تک آج کے نوجوانوں کی رسائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ قصور عصری تعلیمی نظام کا بھی ہے کہ اس کا ایجنڈا ہی یہی ہے، اور دینی نظام تعلیم کا بھی ہے کہ وہ آج کے ان جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں تک اپروچ کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کر رہا جنہوں نے کل اس قوم کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔

اس لیے ہم عزیز بلاول سے اس مسئلہ کی تمام جزئیات و تفصیلات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ سترھویں صدی یا اکیسویں صدی کے چکر میں نہ پڑیں اور اسلام کو اس کے اصل سورسز (۱) قرآن کریم، (۲) سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (۳) اسوۂ خلفائے راشدین کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں، انہیں ان شاء اللہ کسی الجھن کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے کچھ عرصہ قبل اپنے دانشوروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسلام کو اسٹڈی کریں اور یہ بات بھول جائیں کہ اسلام کے بارے میں ان کے بڑوں نے کیا کہا ہے اور موجودہ مسلمان کیسے نظر آ رہے ہیں، بلکہ اسلام کو اس کے اصل سورسز سے اسٹڈی کریں۔ شہزادہ چارلس کا یہی مشورہ عزیز بلاول کے سامنے پیش کرتے ہوئے ہم ان کی بہتر زندگی اور کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter