افغان طالبان کی سرگرمیاں

   
تاریخ : 
۲۳ جولائی ۲۰۱۳ء

افغان طالبان اور امریکہ کے مجوزہ مذاکرات اس وقت تعطل کی حالت میں ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ باہمی اعتماد کی فضا قائم کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔ وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے امور خارجہ جناب سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ یہ تعطل عارضی ہے اور ان مذاکرات میں پاکستان کا کردار سرِدست صرف اتنا ہے کہ وہ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اپنے حالیہ دورۂ کابل کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات بحال کرانے میں مدد دے گا۔

ہم اس سے قبل اسی کالم میں عرض کر چکے ہیں کہ اس قسم کے بہت سے مراحل آئیں گے لیکن چونکہ یہ مذاکرات دونوں فریقوں کی ضرورت ہیں اس لیے بالآخر مذاکرات کی میز سجے گی اور دونوں کسی نہ کسی نتیجے پر بہرحال پہنچیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ان مذاکرات کے حوالہ سے ہمیں ایک الجھن شروع سے پریشان کر رہی تھی کہ افغان طالبان کے موقف اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں اوریجنل معلومات کہاں سے حاصل ہوں گی؟ اس لیے کہ افغان طالبان کی طرز پر پاکستانی طالبان کے ٹائیٹل نے بہت سی باتیں خلط ملط کر رکھی ہیں اور خبروں اور تبصروں کے مسلسل اختلاط کے ذریعہ خود میڈیا نے یہ صورت حال پیدا کر دی ہے کہ ہر طرف دھند ہی دھند دکھائی دیتی ہے، اور گاڑی کی ہیڈلائیٹس روشن کرنے کے باوجود کچھ نظر نہیں آرہا کہ سڑک کدھر ہے اور جانا کس سمت ہے۔

طالبان اور جہاد کے عنوان سے متعدد جرائد ہماری نظر سے گزرتے ہیں مگر ان کی صورت حال بھی یہ ہے کہ کسی کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ افغان طالبان ہی کی نمائندگی کر رہا ہے اور اس کے پس پردہ کچھ اور مقاصد نہیں ہیں۔ اس پس منظر میں ایک اردو جریدہ دیکھنے کو ملا ہے جو ماہنامہ ’’شریعت‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے اور اس کی پیشانی پر ’’امارت اسلامیہ افغانستان کا واحد ترجمان‘‘ درج ہے جبکہ اندرونی ٹائیٹل کے ایک چوکھٹے میں یہ عبارت موجود ہے کہ:

’’ماہنامہ شریعت امارت اسلامیہ افغانستان کا اردو زبان میں واحد اور باضابطہ دینی، ثقافتی اور سیاسی مجلہ ہے جو امارت اسلامیہ کے میڈیا ونگ اور ثقافتی کمیشن کی زیر نگرانی شائع ہوتا ہے۔ ماہنامہ شریعت افغانستان میں جاری کشمکش، حالات و واقعات اور مظلوم مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے بھیانک مظالم کا سچا اور چشم دید عکاس ہے۔‘‘

یہ جریدہ دیکھ کر ہمیں اس پہلو سے خوشی ہے کہ انتہائی محدود سطح پر سہی لیکن ایک ایسا اوریجنل ذریعہ میسر آگیا ہے جس کے ذریعہ افغان طالبان کے حوالہ سے شائع ہونے والی کوئی خبر یا رپورٹ پڑھ کر یہ تسلی ہوگی کہ یہ افغان طالبان ہی کی خبر اور رپورٹ ہے اور اس کی روشنی میں متعلقہ مسئلہ کے بارے میں رائے قائم کرنا آسان ہو جائے گی جو موجودہ حالات میں نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔

ویسے افغان طالبان کو مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے اور مذاکرات کی میز پر لانے والوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کو مذاکرات کے ماحول میں لانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ان کے بارے میں میڈیا کے افق پر پائی جانے والی شدید دھند کو کم کرنے کی بھی کوئی صورت نکالیں۔ کیونکہ جنگ ہو یا صلح جب تک دونوں طرف کی اوریجنل اور صحیح معلومات میسر نہ آئیں ، نہ عالمی رائے عامہ کوئی صحیح نتیجہ اخذ کر سکتی ہے اور نہ ہی عالمِ اسلام کے عوام اور پاکستان کی قومی رائے عامہ کو صحیح رائے قائم کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔

اس وقت ’’ماہنامہ شریعت‘‘ کا جون ۲۰۱۳ء کا شمارہ ہمارے پیش نظر ہے جو طباعت و کمپوزنگ کے مناسب معیار کے ساتھ اڑتالیس صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں افغانستان میں افغان طالبان کی عسکری سرگرمیوں کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ مذاکرات کے حوالہ سے تجزیاتی مضامین بھی موجود ہیں اور مختلف فکری اور سیاسی پہلوؤں پر تحریریں بھی اس کا حصہ ہیں۔ ہم اپنی دلچسپی کے دو تین موضوعات کے حوالہ سے اس جریدہ کے چند مضامین کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں۔ ’’۲۰۱۴ء کے بعد مغرب کا ممکنہ حملہ‘‘ کے عنوان سے جناب اکرم تاشفین نے عالم اسلام پر مغرب کی تہذیبی یلغار اور اس میں مستشرقین کے مسلسل کردار کا تذکرہ کیا ہے اور اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان سے مغربی فوجوں کی واپسی کے بعد اس خطہ میں ثقافتی کشمکش اور مغرب کی تہذیبی یلغار اپنے عروج کو پہنچ جائے گی۔ وہ اس کی منظر کشی یوں کرتے ہیں کہ:

’’ذرائع ابلاغ کے ذریعے افغان عوام کے افکار کو مسخر کیا جائے گا، ان کی تہذیب، ثقافت، تاریخ، روایات، افکار، خیالات، شجاعت، بہادری، متانت، سنجیدہ فکری اور علم پسندی کا مذاق اڑا کر اس کی تضحیک کی جائے گی۔ افغانوں کی ثقافت و تاریخ کو جاہلانہ اور وحشیانہ قرار دے کر خود افغانوں کی نظر میں اس کی اہمیت و عزت گھٹا دی جائے گی۔ افغان عوام شروع سے اسلام اور ایمان پر جان چھڑکتے ہیں، ان کی مذہب پسندی کے خاتمہ کے لیے بے حیائی اور فحاشی کا سیلاب بہا دیا جائے گا اور مذہب سے بے گانہ کر کے ان کو آزاد خیال بنا دیا جائے گا۔‘‘

ہمیں اکرم تاشفین صاحب کا یہ مضمون پڑھ کر خوشی ہوئی کہ ’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ کے ماحول میں مغرب اور عالم اسلام کے درمیان جاری فکری و ثقافتی جنگ اور تہذیبی کشمکش کا اس درجہ کا شعور موجود ہے اور وہ افغانستان پر اس کے اثر انداز ہونے کے امکانات کا ادراک رکھتے ہیں۔ جناب حسن مومند نے ’’روس کو دوبارہ افغانستان میں لانے کی کوشش‘‘ کے عنوان کے تحت ان مبینہ سازشوں کا تذکرہ کیا ہے جو امریکی اتحاد کی فوجوں کے اس خطہ سے نکل جانے کے بعد روس کو افغانستان میں دوبارہ مداخلت کی ترغیب دے رہی ہیں۔ حسن مومند نے اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی بات اس پر ختم کی ہے کہ:

’’افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کے انخلاء پر روس کو بھی افغانیوں کی طرح خوشی ہونی چاہیے، اس لیے کہ وہ طالبان کو خطرہ نہ سمجھے، طالبان سے مطمئن رہے اور سی آئی اے کی مذموم سازشوں سے بچنے کی کوشش کرے۔‘‘

عبد القادر سیف صاحب کا ایک مضمون ’’اسلام اور کنزیومرازم‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں سرمایہ دارانہ معیشت کی خرابیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس سے امارت اسلامیہ افغانستان کے اعلیٰ سطحی ماحول میں سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے بارے میں پائے جانے والے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ آخر میں ہم اس جریدہ کے آخری ٹائیٹل کے اندرونی صفحہ پر موجود افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر مجاہد کا یہ پیغام قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں جو ’’افغانستان کا مستقبل‘‘ کا عنوان سے ہے اور ملا محمد عمر لکھتے ہیں:

’’امارت اسلامیہ حکومتی اجارہ داری کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ افغانستان تمام افغانوں کا مشترکہ گھر ہے جس طرح سب پر اس کی تعمیر اور ترقی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اسی طرح اہلیت و برابری کی شرط پر حکومت میں حصہ لینا بھی ہر ایک کا حق ہے۔ امارت اسلامیہ کی بھرپور کوشش ہوگی کہ اختیارات اور اقتدار ایسے لوگوں کے سپرد کیا جائے جن میں حکومت داری کی پوری اہلیت ہو جو کرپٹ نہ ہو، وطن کے ساتھ مخلص ہو اور ایمانداری کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کرنے والا ہو۔

امارت اسلامیہ حصول تعلیم کو اپنی قوم کی دنیاوی ترقی اور اخروی سعادت کا باعث گردانتی ہے، آپ کو معلوم ہے کہ امارت اسلامیہ نے اپنے دور اقتدار میں بجٹ کا بڑا حصہ تعلیم کے لیے مختص کر رکھا تھا اور آج بھی تعلیم و تربیت ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور اس کے لیے خصوصی کمیشن بنا رکھے ہیں تاکہ اپنی عوام کو تعلیمی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ لیکن بارہا دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اسکول بند کر دیے جاتے ہیں، کچھ کو جلا دیا جاتا ہے یا طلبہ پر زہریلا مواد استعمال کر کے مجاہدین کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کام شکست خوردہ دشمن کی خفیہ سازشوں کی ایک کڑی ہے جو مجاہدین کو بدنام کرنے کے لیے بروئے کار لائی جاتی ہیں۔

ہم خواتین کو اسلامی اصولوں، قومی مفادات اور اپنی شرعی ثقافت کے مطابق تمام حقوق دینے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قابض قوتوں کی آمد کے ساتھ ہی افغان عوام خصوصاً خواتین کو بہت سے مصائب اور تکالیف برداشت کرنا پڑا ہے یہاں تک کہ کئی خواتین مظالم سے تنگ آکر خود کو جلا بیٹھیں اور بعض مظلوم خواتین کو انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا گیا، ان کی عزتیں پامال کی گئیں اور آج بھی یہ جبر مسلسل رکنے میں نہیں آرہا جبکہ امارت اسلامیہ افغانستان میں افغان خواتین پر امن زندگی بسر کر رہی تھیں اور ان تمام مصائب سے محفوظ تھیں‘‘

افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر مجاہد کا یہ پیغام جہاں ان کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے وہاں افغان طالبان کے بارے میں عالمی سطح پر پھیلائے گئے بہت سے شکوک و شبہات کی حقیقت بھی کھول دیتا ہے اور دانشوروں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ افغان طالبان کے موقف اور سرگرمیوں کا اوریجنل معلومات اور زمینی حقائق سے جائزہ لے کر قومی رائے عامہ کی دیانت داری کے ساتھ صحیح راہنمائی کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter