دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے تربیتی نظام کی ضرورت اور تقاضے

   
تاریخ: 
دسمبر ۲۰۰۶ء

(’’دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے تربیتی نظام کی ضرورت اور تقاضے‘‘ کے عنوان پر منعقدہ ایک روزہ ورکشاپ میں خطبۂ استقبالیہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ علم انسان کا وہ امتیاز ہے جس نے انہیں فرشتوں پر فضیلت عطا کی اور معلّم وہ منصب ہے جسے سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر اپنے تعارف کے طور پر پیش کیا کہ ’’انما بعثت معلما‘‘ میں معلم اور استاذ بنا کر بھیجا گیا ہوں جب کہ رسول اکرمؐ پر نازل ہونے والی پہلی وحی قراءت، قلم اور تعلیم کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔ اسی لیے اسلام میں تعلیم کے مشغلہ اور معلم کے منصب کو ہمیشہ عزت اور وقار کا مقام حاصل رہا ہے بلکہ دنیا کی ہر مہذب اور متمدن قوم میں معلم کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ البتہ اسلام نے معلم خیر اور معلم شر کا فرق ضرور کیا ہے اور علم کو نافع اور ضار کے شعبوں میں تقسیم کر کے خیر و نفع کے معلم کو فضیلت و وقار کے مقام سے نوازا ہے، جبکہ شر اور ضرر کا باعث بننے والے علوم کی مذمت کرتے ہوئے ان کی تعلیم کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ شیطان بھی اصل میں ایک معلم ہی تھا لیکن چونکہ اس نے شر اور ضرر کا راستہ اختیار کر لیا تھا، اس لیے راندۂ درگاہ قرار پایا اور قیامت تک کے لیے لعنت کا طوق اس کی گردن میں پڑ گیا۔

اسلام علم برائے علم کا قائل نہیں ہے بلکہ صرف ان علوم کو اپنے تعلیمی نظام کے دائرہ میں جگہ دیتا ہے جو انسان اور انسانی سوسائٹی کے لیے نفع اور خیر کا باعث ہوں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جادو اور اس نوعیت کے دیگر علوم کی فنی اور واقعاتی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی تعلیم و تعلّم سے منع فرمایا ہے، بلکہ قرآن کریم نے تو جائز علوم کی بھی درجہ بندی کر کے یہ اصول پیش کیا ہے کہ ہر علم ہر شخص کے لیے موزوں نہیں ہے، بلکہ ذہنی سطح، منصبی فرائض اور مقام و حیثیت کو ملحوظ رکھ کر تعلیم و تعلّم کے لیے مضامین کے انتخاب کی سمت قرآن کریم نے راہنمائی فرمائی ہے، جیسا کہ جناب نبی اکرمؐ کے بارے میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ‘‘ ہم نے آپ کو شعر و شاعری نہیں سکھائی اور وہ آپ کے لیے مناسب بھی نہیں ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی علم کا حصول صرف اس لیے ضروری یا مناسب نہیں ہو جاتا کہ وہ علم ہے بلکہ ضرورت و مناسبت کے لیے یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ علم حاصل کرنے والے کو اس کی عملی زندگی میں اس علم کی کس حد تک ضرورت ہے اور وہ اس کے لیے کس درجہ میں مناسب حال ہے۔

اسلام نے علم کو نافع اور ضار کے درجوں میں تقسیم کیا ہے، یہ نفع و ضرر دنیا اور آخرت دونوں حوالوں سے ہے۔ اور آج کے عالمی تعلیمی نظام اور اسلام کے فلسفہ تعلیم میں یہی جوہری فرق ہے کہ آج کی دنیا کے نزدیک نفع و ضرر صرف اس دنیا کے حوالے سے ہے کہ جو بات اس دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے اور شخصی، طبقاتی یا اجتماعی زندگی کی کامیابی کے لیے مفید ہے، وہی تعلیمی نظام کا حصہ ہے۔ لیکن اسلام اس دنیا کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے کہیں زیادہ آخرت کی فوز و فلاح اور اس ابدی زندگی میں نجات کو اپنے تعلیمی و تربیتی نظام کا اساسی ہدف قرار دیتا ہے۔ اسلام اس دنیا کی زندگی اور اس کی بہتری اور کامیابی کی نفی نہیں کرتا، بلکہ اس کے لیے ہر جائز صورت کو اختیار کرنے کی اجازت بلکہ بعض صورتوں میں حکم دیتا ہے، مگر اس شرط اور ترجیح کے ساتھ کہ دنیا کی زندگی کی آسائش، سہولتیں اور اس کی بظاہر بہتری کی کوئی صورت انسان کی اخروی زندگی میں اس کے لیے خرابی کا باعث نہ بن جائے اور دنیاوی زندگی کی سہولتیں اخروی نجات کی قیمت نہ ہوں۔

میری طالب علمانہ رائے میں اسلام نے علوم کو دنیاوی اور دینی حوالے سے تقسیم نہیں کیا بلکہ نفع و ضرر کو علوم کی تقسیم کا باعث سمجھا ہے اور یہ نفع و ضرر دنیا اور آخرت دونوں حوالوں سے ہے۔ اس لیے جو علوم انسان کے لیے فرد اور معاشرہ کے دونوں دائروں یعنی اس کی آخرت کی نجات اور فوز و فلاح اور دنیا کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ بہتر، پر امن اور باسہولت بنانے کے لیے مفید ہے، وہ اسلام کی نظر میں مطلوب علم ہے۔ اور جو علم ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے، وہ علوم ضارہ میں شمار ہوتا ہے۔ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا اسی سمت ہماری راہنمائی کرتی ہے کہ ’’اے اللہ! مجھے وہ علم عطا فرما جو نفع بخش ہو، اور اس علم سے محفوظ رکھ جو ضرر کا باعث ہو یا نفع بخش نہ ہو۔ ‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے دینی مدارس میں تعلیم کا انتظام کرنے والے ارباب بست و کشاد اور تعلیم و تدریس کا فریضہ انجام دینے والے اساتذہ کو آج کے عالمی ماحول میں تعلیمی فلسفہ و نظام کی اس بنیاد اور امتیاز کو ہر وقت سامنے رکھنا چاہیے تاکہ وہ اپنے زیر تعلیم اور زیر تربیت افراد کو ایک بہتر انسان اور مسلمان کے طور پر اچھی زندگی گزارنے کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ پوری انسانی سوسائٹی کے سامنے اسلام کے صحیح نمائندہ کا مقام دے سکیں۔

اب سے کم و بیش ڈیڑھ سو سال قبل جب ہمارے معاشرہ میں دینی مدارس کا یہ نظام وجود میں آیا تھا، اس وقت ہمارے بزرگوں کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ جنوبی ایشیا کے مسلم معاشرہ میں مسجد و مدرسہ کا ادارہ موجود رہے اور اسے امام، حافظ، قاری، مدرس، مفتی اور خطیب کے طور پر رجال کار ملتے رہیں تاکہ مسلمانوں کی عبادات اور دینی تعلیم کے ماحول اور تسلسل کو باقی رکھا جا سکے اور اس میں کوئی تعطل یا رکاوٹ نہ ہو۔ بحمد اللہ ہمارے دینی مدارس اپنے اس مقصد اور ہدف میں کامیاب ہیں اور آج بھی اس پورے خطے میں مسجد و مدرسہ کے ادارے کے لیے ضروری رجال کار یہ دینی مدارس فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ضروریات کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی دینی راہنمائی کا تقاضا بڑھ رہا ہے جو نہ صرف یہ کہ وقت کی ضرورت ہے بلکہ ہماری ذمہ داری بھی ہے۔

اسی طرح آج کی گلوبل دنیا اور مستقبل کا بین الاقوامی ماحول ہمیں اس طرف توجہ دلا رہا ہے کہ ہم اپنے محدود اور مقامی و علاقائی ماحول کا اسیر رہنے کی بجائے عالمیت، گلوبلائزیشن اور بین الاقوامیت کے تقاضوں اور ضروریات کو بھی سمجھیں اور اس کے لیے اپنے تعلیمی نصاب اور تربیتی نظام میں جس ردوبدل اور تنوع کی ضرورت ہو، اس سے گریز نہ کریں تاکہ دینی مدارس اپنے مستقبل کے کردار کو امت مسلمہ کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بنا سکیں۔ ہمارے اکابر نے ہر دور میں یہ عمل سرانجام دیا ہے اور آج بھی یہ عمل ہم سے پیشرفت کا متقاضی ہے۔

ان تمام امور کے حوالہ سے سب سے پہلی ضرورت دینی مدارس کے اساتذہ کو اس طرف توجہ دلانے، انہیں وقت کے تقاضوں اور مستقبل کی ضروریات سے آگاہ کرنے اور فکری، علمی اور فنی طور پر اس کے لیے تیار کرنے کی ہے اور اسی مقصد کے لیے اس ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ ہم باہمی مشاورت اور تبادلہ خیالات کے ذریعہ اس سلسلے میں کوئی قابل عمل پروگرام وضع کر سکیں۔

میں تمام مہمانان گرامی اور شرکائے محفل کا تشریف آوری پر شکریہ ادا کرتے ہوئے ملتمس ہوں کہ اس بارے میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کار خیر کو بہتر طور پر آگے بڑھانے کی توفیق دیں۔ آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter