کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن

   
تاریخ: 
مارچ ۲۰۲۰ء

گزشتہ روز جامعۃ الرشید کراچی کے نشریاتی چینل (JTR) کے لیے کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال کے حوالہ سے ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کرایا جسے میرے عزیز نواسے حافظ محمد حذیفہ خان سواتی (مدرس جامعہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ) نے قلمبند کر لیا، اسے نظرثانی کے بعد قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰة ۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے دنیا بھر میں جو صورتحال پیدا کر دی ہے، اس کا سب سے پہلا تقاضا تو اللہ رب العزت کی قدرت اور تمام معاملات کے کنٹرول پر ہمارے ایمان کی تازگی کا ہے۔ کائنات میں بہت کچھ موجود ہے جس کے پیچھے سب سے بڑی قوت اللہ تعالٰی کی ذات ہے، جو کچھ ہوتا ہے اسی کی مرضی سے ہوتا ہے۔ یہ جو وبائیں، آزمائشیں اور مصیبتیں آتی ہیں، یہ اللہ تبارک و تعالٰی کی جانب سے تنبیہ بھی ہوتی ہیں اور اس کی قدرت کا اظہار بھی۔ لہٰذا ایسے مواقع پر اپنے ایمان کو مضبوط کرنا چاہیے۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسے مواقع پر سنت مبارکہ یہ ہے کہ وہ نماز، ذکر و اذکار، توبہ و استغفار اور مسجد کی طرف رجوع کی تلقین فرماتے تھے اور خود آپؐ کا اپنا بھی یہی معمول تھا، اس لیے ہمیں توبہ و استغفار اور اللہ کے ذکر و اذکار کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ وباؤں، آزمائشوں اور بیماریوں سے خود بچنے اور لوگوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنا بھی ہماری دینی ذمہ داری ہے، اس کے یے احتیاطی تدابیر کو بھرپور اختیار کرنا چاہیے، اور اس کے متعلقہ اداروں اور ڈاکٹر صاحبان کی طرف سے علاج و معالجہ اور اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی جو بھی تدابیر بتائی جاتی ہیں، ان پر توجہ دینی چاہیے، عمل کرنا چاہیے اور ان کی پابندی کرنی چاہیے۔

دنیا بھر کی مثالوں کو سامنے رکھ کر ہمارے ہاں ملک بھر کے لاک ڈاؤن کی باتیں چل رہی ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن بھی اس کا ایک حل ہے، اگر اس کے سوا کوئی متبادل راستہ اور صورت ممکن نہ ہو تو یہ مجبوری ہے، تاہم مکمل لاک ڈاﺅن کے حوالہ سے چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں:

  • اللہ کرے کے مکمل لاک ڈاؤن کی نوبت نہ آئے، لیکن اگر مکمل لاک ڈاؤن ہوا تو ملک کا غریب طبقہ اور عوام الناس، بالخصوص دیہاڑی دار مزدور طبقہ بالکل بے بس ہو کر رہ جائے گا۔ بعض مغربی ممالک میں لاک ڈاؤن ہوا ہے لیکن اس دوران لوگوں کو گھروں میں ان کی زندگی کی ضروریات فراہم کی جا رہی ہیں کیونکہ ان کے پاس سسٹم بھی موجود ہے اور وسائل بھی۔ مثلاً میں نے آج ہی ایک خبر پڑھی ہے کہ برطانیہ میں جو لوگ کورونا وائرس کی وجہ سے دفاتر میں نہیں آرہے ان کو ان کی تنخواہوں کا ۸۰ فیصد دینے اور گھروں میں سہولتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے پاس وسائل بھی نہیں ہیں اور سسٹم بھی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں اپنے معاشرتی مزاج کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا تاکہ مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں ہم مزید کسی بحران کا شکار نہ ہو جائیں، ایسا نہ ہو کہ ایک طرف تو ہم بحران سے نکلیں اور دوسری طرف خدانخواستہ اس سے بڑے بحران میں مبتلا ہو جائیں۔ چنانچہ ایک عام آدمی جو گھر میں بیٹھ کر اپنا گزارا نہیں کر سکتا ہمیں عوامی سطح پر اس کی مشکلات کا خیال رکھنا چاہیے اور صاحب حیثیت لوگوں کو اپنے اردگرد ایسے خاندانوں کی ضروریات پر توجہ دینی چاہیے۔
  • دوسری بات لاک ڈاؤن کے حوالہ سے یہ ہے کہ ایسی آزمائشوں کے مواقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مساجد کو آباد کرنے کی تلقین کی گئی ہے نہ کہ مساجد کو ویران کرنے کی، اس کا بھی کوئی درمیانہ راستہ نکالا جا سکتا ہے کہ مسجدوں میں نمازیں اور جمعہ اہتمام سے ہوتا رہے، حاضری کو مختصر اور محدود کرنا اور اس کے علاوہ دیگر جتنی بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں وہ کی جانی چاہئیں، لیکن یہ بات کہ مساجد لاک کر دی جائیں یا ان میں نماز اور جمعہ سرے سے نہ ہو، درست نہیں ہے۔ فقہاء نے جو کم سے کم حدود بیان کی ہیں، اس کا درمیانہ راستہ میرے نزدیک یہ ہے کہ مسجدوں میں لاک ڈاؤن کے دوران باجماعت نمازیں اور جمعہ محدود دائرہ میں ہی سہی، تاہم ان کا اہتمام جاری رہنا چاہیے اور لاک ڈاؤن کی صورت میں لوگوں کو وقتاً فوقتاً مساجد میں آنے کا موقع بھی ملنا چاہیے، مسجدوں کو بالکل بند کر دینا اور لوگوں کو ان سے بالکل روک دینا دینی تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مساجد کی آبادی کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ لوگوں کا مزاج بھی یہی ہے۔ ہم نے گزشتہ جمعہ کے موقع پر گوجرانوالہ میں اپنی مسجد میں جمعہ کا دورانیہ مختصر کرنے کا اعلان کیا اور اس پر عملدرآمد بھی کیا، ہم نے دورانیہ تقریباً ایک تہائی تک محدود کر دیا لیکن مسجد میں لوگوں کی آبادی پہلے سے زیادہ تھی۔ ہمارے ہاں لوگوں کا بجا طور پر رجحان یہ ہے کہ مصیبت ہو تو مسجد میں جائیں اور اللہ سے دعا مانگیں۔ اس لیے ہمیں اپنے دینی اور معاشرتی مزاج کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہم کون سی بات نباہ سکیں گے اور کون سی بات ہمارے لیے کسی نئے مسئلے اور مشکل کا باعث بنے گی، ان ساری باتوں کو ہمیں ملحوظ رکھنا ہو گا۔
  • ہمارے اور مغرب کے معاشرتی مزاج و ماحول میں بہت فرق ہے، ہم بہت سی باتیں مغرب کو دیکھ کر کرتے ہیں اور خود کو اس پر قیاس کر لیتے ہیں لیکن وہ ہم سے ہوتی نہیں ہیں۔ ماضی میں ایسی کئی تدبیریں ہم اختیار کر چکے ہیں لیکن ان کے ضروری تقاضے پورے نہ ہو سکنے کی وجہ سے ان کا کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔ اس لیے تدابیر ایسی اختیار کی جائیں جو ہمارے قومی مزاج و ماحول کے مطابق ہوں اور ان پر کماحقہ عمل کیا جا سکے۔
  • ہماری ایک معاشرتی حیثیت ہے، ایک قومی ضرورت ہے، ایک ملی تقاضا ہے اور ایک شرعی حیثیت ہے۔ اس وقت ملک کے بڑے بڑے دارالافتاء جو اپنے اپنے طور پر کام کر رہے ہیں وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے، لیکن میری درخواست یہ ہے کہ اگر وہ اجتماعی طور پر مل بیٹھ کر اجتماعی بات کریں تو قوم کو حوصلہ ہو گا، الگ الگ رائے دیں گے تو کوئی نہ کوئی جزوی اختلاف تو ضرور ہو گا، اس کو اچھالنے والے اچھالتے ہیں، بالخصوص آج کا میڈیا تو تلاش میں رہتا ہے کہ علماء کی باتوں میں کوئی اختلاف کا پہلو نظر آئے تو اس کو نمایاں کریں، اس لیے میں تمام مکاتب فکر کے بڑے بڑے علمی اداروں اور دارالافتاؤں سے یہ گزارش کروں گا کہ اجتماعی رائے قائم کرنے کی کوشش کریں۔
  • آخری گزارش میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں سے کرنا چاہوں گا کہ خوامخواہ خوف نہ پھیلائیں، لوگوں کو حوصلہ دیں، بچاؤ کی تدابیر اور اور بچنے کے راستوں کی تلقین کریں اور قوم کو منظم کرنے کی کوشش کریں، یہ مرحلہ ایک دوسرے کو کوسنے اور طعنے دینے کا نہیں بلکہ ایک دوسرے سے تعاون کرنے کا ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ ایک آدمی نہر میں ڈوب رہا تھا اور ڈبکیاں کھا رہا تھا، اس نے آواز لگائی بچاؤ بچاؤ بچاؤ، کنارے پر ایک شخص کھڑا ہو کر اس کو کوسنے لگا کہ تم پانی کے اندر کیوں گئے تھے، کس نے کہا تھا، تمہیں تیرنا نہیں آتا تھا تو یہاں کیوں آئے، اس نے آواز دی کہ میرے بھائی! مجھے پہلے یہاں سے نکالو، ڈوبنے سے بچاؤ، اس کے بعد جتنے مرضی طعنے دے لینا اور جتنا مرضی کوس لینا۔ آج ہمارا ماحول ایک دوسرے کو طعنے دینے، الزام لگانے اور ایک دوسرے کو کوسنے کا نہیں ہے، ہمیں یہ روش ترک کر دینی چاہیے، یہ ایک دوسرے سے تعاون کرنے، ساتھ دینے اور قوم کو بخیریت اس آزمائش سے باہر نکالنے کے لیے محنت کرنے کا وقت ہے، اللہ پاک ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲۴ مارچ ۲۰۲۰ء)
2016ء سے
Flag Counter