مغربی ممالک میں مسلمانوں کی نئی نسل کا مستقبل اور مسلم دانشوروں کی ذمہ داری

   
تاریخ : 
جنوری ۱۹۹۳ء

پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے چیئرمین پروفیسر پری شان خٹک نے گزشتہ دنوں لندن کے جنگ فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی نئی نسل کے بارے میں کہا تھا کہ:

’’مجھے یہاں کی نئی نسل سے مل کر بڑی مایوسی ہوئی، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ مجھے یہاں ان کی بگڑتی ہوئی مشرقی روایات کو دیکھنے کے کچھ تلخ تجربے ہوئے ہیں۔ نوٹنگھم میں میرے ایک عزیز نے اپنے بچے سے میرا تعارف کرایا تو اس نے بڑے اکھڑے انداز میں کہا: ’’ہیلو پری شان‘‘۔ اسی طرح ایک اور دوست کے بیٹے نے کہا: ’’ہووو پروفیسر‘‘ (ہیلو پروفیسر)۔ ایسے اور بہت سے واقعات سے میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ جو نسل اپنے سے بڑوں کو چچا، ماموں یا ہیلو انکل کہنے کے آداب بھول رہی ہے، جو کہ ہماری مشرقی روایات کی بنیاد ہے، تو اس نسل سے اپنے سے اور اپنے وطن سے جڑا رہنے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟ یہاں میں جتنا عرصہ بھی رہتا ہوں، میرے کان ’’ہیلو انکل‘‘ سننے کو ترس جاتے ہیں‘‘۔ (روزنامہ جنگ، لندن ۔ ۳ ستمبر ۱۹۹۲ء)

نئی نسل کے بارے میں اس قسم کے خیالات کا اظہار اکثر ہماری مجالس میں ہوتا رہتا ہے اور ہمیں یہ شکایت رہتی ہے کہ مغربی ممالک میں مقیم ہماری نئی نسل مشرقی روایات، اسلامی اقدار اور پاکستانی تہذیب سے بیگانہ ہوتی جا رہی ہے۔ شکوہ بجا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس میں نئی نسل کا قصور کیا ہے؟ اور اسے کوسنے میں ہم کس حد تک حق بجانب ہیں؟ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورتحال کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور اس کے اسباب کا تجزیہ کیا جائے، مستقبل کی ضروریات کی نشاندہی کی جائے اور پھر نئی نسل کو اس رخ پر لانے کے لیے جسے ہم ضروری سمجھتے ہیں، منظم منصوبہ بندی کی جائے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ محدود سوچ کو ذہن میں رکھ کر اس کے مطابق ایک رخ پر چل پڑتے ہیں اور جب اس سوچ کا دائرہ ختم ہونے پر اس سے آگے کا ماحول اجنبی نظر آنے لگتا ہے تو ذہنی الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں اور کسی نہ کسی کو شکوہ و شکایت کا ہدف بنا کر نفسیاتی تسکین کا مصنوعی ماحول پیدا کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ مشرقی ممالک، بالخصوص اسلامی ممالک سے ترک وطن کر کے مغربی ممالک میں آباد ہونے والوں کا اصل ہدف کیا ہے؟

  • اگر تو مقصد صرف یہ ہے کہ یہاں سے کمائی کر کے کسی نہ کسی وقت پھر واپس اپنے اپنے وطن چلے جانا ہے اور مغربی ممالک میں قیام کی نوعیت عارضی ہے، تو ہماری تعلیمی پالیسیوں اور معاشرتی روایات و اقدار کو اس کے دائرہ میں رہنا چاہیے۔
  • اور اگر ہمارا واپسی کا کوئی پروگرام نہیں ہے یا حالات نے ہمیں یہاں رہنے پر مجبور کر دیا ہے اور ہماری آئندہ نسلوں نے انہی ممالک میں رہنا بسنا ہے، تو پھر اپنی تعلیمی و معاشرتی ضروریات کا تعین ہمیں اسی وسیع تناظر میں کرنا ہوگا۔ ورنہ نئی نسل کے ساتھ ہم قطعی طور پر انصاف نہیں کر سکیں گے۔

مثال کے طور پر ایک بات کا حوالہ دینا مناسب خیال کرتا ہوں۔ برطانیہ میں ان دنوں برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کے طرز کے دینی مدارس کے قیام کا رجحان بڑھ رہا ہے جو خوش آئند ہے۔ بعض دارالعلوم اور جامعات اعلیٰ سطح پر قائم ہو رہے ہیں۔ مجھے ایک بڑے جامعہ کے بانی و مہتمم صاحب نے فرمایا کہ آپ نصاب تعلیم کے بارے میں ہمیں مشورہ دیں۔ میں نے عرض کیا کہ نصاب تعلیم کے بارے میں مشورہ بعد میں دوں گا، پہلے میرے ساتھ کسی نشست میں یہاں کی دینی ضروریات کے بارے میں تبادلہ خیال کریں تاکہ اس معاشرہ کی دینی ضروریات کا ایک واضح نقشہ ہمارے سامنے آ سکے۔ کیونکہ نصاب تعلیم کی بنیاد ضروریات پر ہوتی ہے اور اگر ان دونوں کے درمیان تناسب و توازن قائم نہ رہے تو کسی بھی نصاب تعلیم سے گزر کر آنے والی کھیپ معاشرہ میں کسی مفید کردار کی حامل نہیں ہو سکتی۔

لیکن ہمارے ہاں ہو یہ رہا ہے کہ نہ صرف برطانیہ بلکہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی دینی مدارس اسی نظام و نصاب کے تحت چل رہے ہیں جو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد ہمارے اکابر نے محض دینی علوم کی حفاظت اور مشرقی معاشرت کے تسلسل کو باقی رکھنے کے لیے اختیار کیا تھا۔ وہ دور غلامی تھا اور اس دور کی ضرورت صرف یہ تھی کہ حملہ آور انگریزوں کی تعلیمی و تہذیبی یلغار سے دینی علوم و مشرقی معاشرت کو جس حد تک ممکن ہو بچا لیا جائے، اور مسلمانوں کو مساجد میں نماز پڑھانے اور قرآن کریم کی تعلیم دینے والے ائمہ، اساتذہ اور حفاظ میسر آتے رہیں۔ یہ ایک قسم کی دفاعی جنگ تھی جس میں دینی مدارس کا یہ نظام و نصاب کافی حد تک کامیاب رہا۔ لیکن آزادی کے بعد بالخصوص پاکستان اور بنگلہ دیش میں مقاصد و ضروریات کے دائرے بدل گئے تھے اور اب صرف دینی علوم کی حفاظت نہیں بلکہ معاشرے کو دینی علوم و روایات کے رنگ میں رنگنے کی ذمہ داری ان مدارس پر آ پڑی تھی۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک ہمارے دینی نظام کے تعلیمی ماہرین اس طرف توجہ نہیں دے سکے اور جو کچھ وہ اپنے محدود وسائل کے باوجود اس ضمن میں بہتر منصوبہ بندی اور ترجیحات کے ذریعے کر سکتے تھے، اس کا چوتھائی حصہ بھی دیکھنے میں نہیں آ رہا۔

دینی مدارس کے نظام و نصاب کی بات تو بطور مثال عرض کی گئی ہے۔ اب پھر اسی نکتہ کی طرف آ جائیے کہ مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی تعلیمی ضروریات کیا ہیں؟ اس ضمن میں ایک بات ہمیں واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں سے ہماری واپسی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا اور نہ ہی واپسی ان مسائل کا کوئی مثبت حل ہے۔ تین سال قبل واشنگٹن ڈی سی کے ایک اجتماع میں راقم الحروف نے اپنے پاکستانی بھائیوں کو نئی نسل کی اسلام سے بیگانگی اور پھر اس سے اگلی نسل کے دین سے بالکل منحرف ہو جانے کے امکان کی طرف توجہ دلائی تو اجتماع کے بعد ایک دوست نے کہا کہ میں نے آپ کی باتیں سن کر فیصلہ کیا ہے کہ بچوں سمیت بہت جلد وطن واپس چلا جاؤں گا۔ میں نے عرض کیا کہ میں آپ کو اس کا مشورہ نہیں دوں گا، کیونکہ یہ فرار ہے اور مسلمانوں کا کام فرار اختیار کرنا نہیں ہے۔ اب آپ اسی معاشرہ میں رہیے، مسائل کا سامنا کیجیے اور حوصلہ و تدبر کے ساتھ ان کا حل تلاش کیجیے۔

پھر یہاں سے واپس چلے جانا مسلمان خاندانوں کے بس میں بھی نہیں رہا۔ اس میں نئی نسل ان کا ساتھ نہیں دے گی اور ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں کہ واپس جانے والے خاندانوں کو نئی نسل کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال کر ’’اسی تنخواہ پر‘‘ یہاں واپس آنا پڑا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی تعلیمی اور تہذیبی و ثقافتی ضروریات طے کرتے وقت اس حقیقت کو بہرحال سامنے رکھنا ہوگا کہ ہمیں اب یہاں رہنا ہے اور یہی ہماری آئندہ نسلوں کا وطن ہے۔ اور یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا ہوگی کہ آپ کی نئی نسل پر صرف آپ کی نہیں بلکہ یہاں کی سوسائٹی کی بھی نظر ہے، اور وہ اس معاملے میں سوچ، منصوبہ بندی، ترجیحات اور منظم عمل میں آپ سے کہیں آگے ہے۔ صرف ایک بات سے اندازہ کر لیجیے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے برطانیہ میں گرجے فروخت ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ مساجد بن رہی ہیں۔ سینکڑوں مساجد ایسی ہیں جو گرجے خرید کر ان میں قائم کی گئی ہیں۔ مجھے خیال ہوا کہ اس بارے میں یہاں کے پادریوں کا رد عمل معلوم کرنا چاہیے۔ آخر وہ اس صورتحال سے باخبر ہیں، سب کچھ دیکھ رہے ہیں تو اس معاملہ میں ان کا نقطہ نظر کیا ہے؟ یہاں کے ایک مسلمان مذہبی راہنما کے سامنے میں نے اس خیال کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ ایک بڑے پادری صاحب سے اس سلسلے میں خود ان کی بات ہوئی ہے اور پادری صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ہمیں اس سلسلہ میں کچھ زیادہ فکر نہیں ہے، اس لیے کہ جو مساجد بن رہی ہیں، ان میں حاضری دینے اور نماز پڑھنے والے اکثر وہی بوڑھے اور پختہ عمر کے لوگ ہیں جو مختلف ممالک سے ترک وطن کر کے یہاں آئے ہیں۔ ان کی اگلی نسل میں نماز پڑھنے والوں کا تناسب بہت کم ہے اور اس سے اگلی نسل کی تیسری اور چوتھی پشت خود ان مساجد کو دوبارہ ہمارے ہاتھوں فروخت کرے گی۔ پادری صاحب کی بات سو فیصد درست نہ ہو، تب بھی اس سے ہماری نئی نسل کے بارے میں یہاں کی سوسائٹی کی سوچ کا اندازہ ضرور کیا جا سکتا ہے اور ہمیں اپنی تعلیمی و ثقافتی ضروریات کا دائرہ متعین کرنے میں اس سے کافی مدد مل سکتی ہے۔

اب مسئلہ کے ایک اور پہلو کا جائزہ لے لیا جائے تو نامناسب نہ ہوگا کہ جب برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں نے اور ان کی اگلی نسلوں نے بہرحال یہیں رہنا ہے تو یہاں کی مقامی آبادی کے ساتھ ان کے تعلقات اور معاشرتی جوڑ کی مستقبل کے اعتبار سے نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ اور کیا یہ ضروری ہے کہ درمیان میں حجاب اور منافرت کی ایک دیوار ہمیشہ حائل رہے؟ یہ بہت نازک سوال ہے اور اس کا یہ مطلب بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شاید میں مسلمانوں کو یہاں کی معاشرت قبول کرنے کا مشورہ دے رہا ہوں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ میرے سامنے قرون اولٰی کے مسلمانوں کی مثال ہے جو عرب سے نکلے اور پوری دنیا میں پھیل گئے۔ وہ جہاں جہاں بھی گئے، دو باتوں کا پوری طرح اہتمام کیا:

  1. ایک یہ کہ عمل اور کردار کے لحاظ سے ایسی صاف ستھری زندگی وہاں کی آبادی کے سامنے پیش کی جس نے اسلام کا خاموش اور مثبت تعارف کرایا۔
  2. اور دوسری یہ کہ مقامی معاشرت کے ساتھ معاندانہ روش اختیار نہیں کی اور جو بات اسلام کے بنیادی عقائد و احکام سے منافی نظر نہیں آئی، اسے قبول کر لیا۔

تھوڑی دیر کے لیے ذہن پر زور دیجیے کہ اگر برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں باہر سے جانے والے مسلمان، بالخصوص صوفیائے کرام مقامی معاشرت کے ساتھ کسی حد تک مصالحانہ طرز عمل اختیار نہ کرتے، اور وہاں جاتے ہی مقامی معاشرتی اقدار کے خلاف جنگ کا بگل بجا دیتے تو کیا برصغیر کی اتنی بڑی آبادی کے مسلمان ہو جانے کا کوئی امکان باقی رہ جاتا؟ اسلام نے تو عرب کے جاہلی معاشرہ کی تمام اقدار و روایات کو رد نہیں کیا بلکہ جو بات قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات سے متصادم نظر نہیں آئی، اسے اسی طرح باقی رہنے دیا۔ اس لیے مغربی ممالک میں مقیم مسلمان دانشوروں کو اپنے مستقبل کا نقشہ بے حد سوچ بچار اور مکمل احتیاط کے ساتھ بنانا ہوگا۔ ہم اس وقت ’’مداری کے رسے‘‘ پر چل رہے ہیں:

  • ہمیں ایک طرف یہ سوال درپیش ہے کہ ہماری نئی نسل باشعور مسلمان ہو اور یورپی معاشرت کی وہ غلط اقدار، جن کا تعلق شراب، سور، عریانی اور جنسی بے راہ روی سے ہے، ہمارے نوجوانوں کی زندگی پر قابو نہ پا لیں۔
  • اور دوسری طرف یہ مسئلہ بھی کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں کہ ہماری نئی نسل اور مقامی سوسائٹی کے درمیان اجنبیت کی کوئی ایسی دیوار حائل نہ ہونے پائے جس سے مستقبل میں ہماری حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی ہو کر رہ جائے، اور ہم یہاں کی قومی زندگی میں کوئی مقام اور کردار حاصل نہ کر سکیں۔

میرے نزدیک اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ یہاں رہنے والے مسلمان مساجد اور دینی مدارس کے ساتھ ساتھ اپنی آبادی کے لیے عصری تعلیم کے اسکول بھی خود قائم کریں جن میں ماحول اسلام کے مطابق ہو اور تعلیم کا معیار یہاں کے سرکاری اسکولوں سے کسی طرح کم نہ ہو۔ نیز مسلمان بچوں کو اعلٰی تعلیم کے لیے زیادہ سے زیادہ آگے بھجوایا جائے تاکہ مستقبل میں مسلمانوں کو کسی قسم کے احساس کمتری سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ اسی طرح مقامی سوسائٹی کے ساتھ معاشرتی میل جول کو اس نقطہ نظر سے بڑھایا جائے کہ ہم نے انہیں اسلام کی دعوت دینی ہے اور اسلام کی طرف مائل کرنا ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب:

  1. ہم ان کے سامنے ایک اچھے مسلمان کا کردار ادا کر سکیں،
  2. ان کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں صدیوں سے پایا جانے والا خوف دور کر سکیں،
  3. اور انہیں یہ باور کرا سکیں کہ معاشرتی طور پر جس بے سکونی اور عدم اطمینان کا وہ شکار ہیں، اس کا حل صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے۔

یہ راستہ کٹھن ضرور ہے لیکن ناقابل عبور نہیں۔ خدا کرے کہ مغرب میں مقیم مسلمان دانشور اپنی صلاحیتوں کو اس رخ پر بھی صرف کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter