فلسطین کی حمایت میں روس، عرب اور یورپی ممالک کا متوقع اتحاد

   
تاریخ : 
۸ جولائی ۲۰۰۲ء

ایک قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق فلسطین کی حمایت میں روس، عرب اور یورپی ممالک کا اتحاد وجود میں آنے والا ہے، جبکہ فلسطین پر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف روس اور یورپی یونین کے بعض ملکوں کے درمیان خفیہ اتحاد ہو گیا ہے۔ ان یورپی ممالک نے روس کو یقین دلایا ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت پر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف اسٹینڈ لیں گے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ روس نے اسلامی و یورپی ملکوں کے سربراہوں سے رابطے کیے ہیں اور اسرائیلی مظالم رکوانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ فلسطین کے اندر اسرائیل جو مظالم اور تباہ کاریاں کر رہا ہے اس سے اکثر یورپی ممالک کے لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ امریکہ کی حمایت کے بغیر اسرائیل یہ سب کچھ نہیں کر سکتا۔

ادھر امریکہ اس موقف پر ڈٹا ہوا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں یاسر عرفات کا کوئی کردار نہیں ہوگا اور فلسطینی عوام کو یاسر عرفات کے علاوہ اپنا کوئی دوسرا لیڈر منتخب کرنا ہو گا، ورنہ یاسر عرفات کے دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں امریکہ فلسطینی ریاست کی حمایت اور تعاون سے دست کش ہو جائے گا۔

اخباری رپورٹوں کے مطابق امریکہ کے اس موقف کے خلاف غزہ کے علاقہ میں ہزاروں فلسطینیوں نے یاسر عرفات کے حق میں مظاہرہ کیا ہے اور صدر بش کے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا ہے کہ فلسطینی عوام اپنی قیادت بالخصوص یاسر عرفات کو تبدیل کریں۔ مظاہرین نے ہوائی فائرنگ کی اور کہا کہ آزادانہ انتخاب ہمارا حق ہے، ہم بش کی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے اور ہمارا انتخاب اور لیڈر یاسر عرفات ہے۔ جب کہ امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ واشنگٹن نے فلسطین کے صدر یاسر عرفات سے تمام رابطے منقطع کر دیے ہیں اور فی الحال انہیں بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یاسر عرفات امریکہ کی خواہش کے مطابق فلسطینیوں کو قیادت فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ کولن پاؤل نے کہا کہ اب امریکہ سمجھتا ہے کہ فلسطینیوں کی قیادت کے لیے کسی نئے آدمی کو سامنے لایا جائے جو امریکی خواہشات کے مطابق قیادت کرے، چونکہ یاسر عرفات امریکی خواہشات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے اب امریکہ انہیں ہٹا کر ہی دم لے گا۔

روس کی طرف سے فلسطینیوں کی حمایت اور اس سلسلہ میں اسلامی ممالک اور یورپی ملکوں کے ساتھ روس کے رابطوں کی خبر سے اب سے کوئی تیس برس پہلے کا منظر نامہ پھر سے سامنے آ گیا ہے جب دنیا دائیں اور بائیں بازو کے عنوان سے دو بڑے چودھریوں کے درمیان بٹی ہوئی تھی۔ ایک طرف امریکہ تھا ور دوسری طرف روس۔ اور ان کی قیادت میں دو بڑے بلاک قائم تھے جن کے مابین سرد جنگ کا سلسلہ جاری تھا، جس سے کمزور ممالک اور اقوام کو یہ سہولت میسر تھی کہ اگر ایک چودھری کی طرف سے ظلم اور ناانصافی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو وہ دوسرے چودھری کا سہارا لے کر خود کو کسی حد تک محفوظ کر لیا کرتی تھیں۔ مگر اب یہ صورتحال باقی نہیں رہی کہ ’’افغان وار‘‘ میں روس کی ہزیمت کے بعد امریکہ دنیا کا واحد چودھری اور حکمران بن گیا اور اس کے مقابل کوئی ایسی طاقت باقی نہیں رہی جو اس کے کسی اقدام کو چیلنج کر سکے اور اسے مظلوم اقوام کے ساتھ زیادتی سے روک سکے۔

اس وقت عالمی صورتحال کچھ عجیب سی تھی اور مسلم ممالک بھی تقسیم کے اس عمل سے محفوظ نہیں تھے:

  • مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو امریکہ کی کھلی سرپرستی اور پشت پناہی حاصل تھی، جو اب تک مسلسل جاری ہے بلکہ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
  • جبکہ عرب ممالک دو حصوں میں تقسیم تھے: ایک حصہ سعودی عرب کی قیادت میں امریکی کیمپ میں تھا اور دوسرا کیمپ مصر کے جمال عبد الناصر مرحوم کی سربراہی میں روس کی بہی خواہوں میں شمار ہوتا تھا۔
  • عرب قوم پرستی کی تحریک کو روس کی حمایت حاصل تھی اور وہ عرب ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اپنے حامی عرب ممالک کے ساتھ اقتصادی اور فنی تعاون میں بھی پیش پیش تھا۔
  • ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں خوفناک پٹائی کے بعد روسی کیمپ کے عرب ممالک میں یہ احساس ابھرنا شروع ہوا کہ روس کی حمایت اور تعاون ان کے لیے کچھ زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہو رہا، اس لیے اب ان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ امریکی کیمپ میں اپنے لیے جگہ تلاش کریں تاکہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکہ کی پالیسیوں میں توازن کی کوئی صورت نکل آئے، اور وہ علاقہ میں اسرائیل کے ساتھ اپنے معاملات کو بیلنس کر سکیں۔ چنانچہ صدر ناصر مرحوم کے آخری دور میں اس رخ پر کام شروع ہو گیا تھا جسے ان کے جانشین انور سادات مرحوم نے تکمیل تک پہنچایا اور عربوں نے ’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ سمجھوتے کی صورت میں اپنا مستقبل امریکہ کے ساتھ وابستہ کر لیا۔
  • یاسر عرفات اس کشمکش میں اس کیمپ کے آدمی تھے جو روس کے ساتھ وابستگی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی پس منظر میں قوم پرستی کی بنیاد پر فلسطین کی آزادی کی تحریک کو آگے بڑھایا تھا۔ انہوں نے ایک عرصہ تک آزادی فلسطین کے لیے مسلح جنگ لڑی اور گوریلا کاروائیوں کی قیادت کی، اسی وجہ سے امریکہ کو بہت دیر تک اس میں تامل رہا کہ وہ یاسر عرفات کو فلسطینیوں کے لیڈر کے طور پر قبول کرے۔ یاسر عرفات پر امریکہ کے دروازے بند تھے اور ایک موقع ایسا بھی آیا کہ یاسر عرفات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کی نمائندگی کے لیے آنا تھا مگر امریکہ نے انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔

    یاسر عرفات کو امریکی کیمپ میں جانے کے لیے عسکری سرگرمیوں سے دستبردار ہونا پڑا، روسی کیمپ سے تعلقات منقطع کرنا پڑے، بلکہ خدا جانے کون کون سی یقین دہانیوں سے گزرنا پڑا، تب جا کر یاسر عرفات کو امریکی کیمپ میں قدم رکھنے کی اجازت ملی۔ مگر اس کے بعد امریکہ کی طرف سے ایک نئی شرط سامنے آئی کہ یاسر عرفات خود تو عسکری سرگرمیوں اور جہادی عمل سے دست کش ہو گئے ہیں اور گوریلا جنگ کی بجائے سیاسی مذاکرات کی میز پر آ بیٹھے ہیں، مگر فلسطینی عوام میں عسکری کارروائیوں کے رجحان کو مکمل طور پر ختم کرنے اور جہادی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری بھی یاسر عرفات کو قبول کرنا ہو گی، ورنہ انہیں جہادی سرگرمیوں سے دستبرداری کے موقف میں سنجیدہ تصور نہیں کیا جائے گا۔

    ان شرائط اور یقین دہانیوں کے بعد فلسطین کی ایک ادھوری اور غیر رسمی سی برائے نام حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا صدر یاسر عرفات کو منتخب کیا گیا۔ اور انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ فلسطین میں عسکریت پسندی کے رجحانات کو مکمل طور پر ختم کریں اور جہادی گروپوں کو عسکری سرگرمیوں سے باز کریں، ورنہ بصورت دیگر انہیں پوری طرح کچل دینے میں اسرائیل کے ساتھ شریک ہوں۔ یاسر عرفات اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور اپنی بساط کی حد تک ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود حماس اور دیگر جہادی گروپوں کی عسکری سرگرمیاں نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان سے اسرائیل کے مظالم اور وحشیانہ کاروائیوں کے خلاف مزید شدت پیدا ہو رہی ہے، اور ان فلسطینیوں کے خودکش حملوں نے اس خطہ میں اسرائیل کی عسکری بالادستی کے خواب کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔

اس پس منظر میں امریکہ کی یکطرفہ اور جارحانہ پالیسیوں کے ردعمل میں روس اور یورپی یونین کے بعض ممالک کے درمیان نئے رابطوں کی یہ خبر خوش آئند ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی ضمیر بالکل ہی موت کے گھاٹ نہیں اتر گیا بلکہ اس میں زندگی کی کچھ رمق باقی ہے۔ خدا کرے کہ روس، یورپی یونین اور اسلامی ممالک کے یہ رابطے جلد کسی نتیجے تک پہنچیں کیونکہ عالم اسباب میں اسرائیل اور امریکہ کے وحشیانہ مظالم اور سنگدلانہ طرز عمل سے رہی سہی فلسطینی قوم کو کسی حد تک بچا لینے کی اب یہی صورت باقی رہ گئی ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ بات بھی پریشان کر رہی ہے کہ بالکل یہی صورتحال کشمیر میں پیش آنے والی ہے بلکہ اس کی شروعات ہو گئی ہیں۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں جس نے بھی یاسر عرفات بننا ہے اس غریب کو جہادی سرگرمیوں کو مکمل طور پر کچلنے کی صورت میں جب امریکی غیظ و غضب کا نشانہ بننا ہو گا تو اسے کون سہارا دے گا؟ یاسر عرفات تو ماضی میں روسی کیمپ میں رہے ہیں اس لیے پرانے تعلقات ہمدردیاں بروئے کار لانے کا کوئی امکان نظر آ رہا ہے۔ ہم تو شروع سے ہی امریکی کیمپ سے وابستہ ہیں اور اس حد تک وابستہ ہیں کہ سوویت یونین کے خاتمہ اور اس کے بعد افغانستان میں مجاہدین کی حکومت کے خاتمہ میں بھی خود ہمارا خون شامل ہے، جس کی وجہ سے ہماری تباہی میں روس امریکہ سے بھی دو قدم آگے ہے۔ اس لیے جو بزرگ بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یاسر عرفات بننے جا رہے ہیں ان سے ہماری گزارش ہے کہ اس وقت کے لیے کوئی نہ کوئی پناہ گاہ ضرور سوچ رکھیں جب امریکہ بہادر آدھا کام نکل جانے اور باقی آدھے کام کا ان ہاتھوں پورا ہونے کا امکان باقی نہ رہنے پر بڑی بے نیازی کے ساتھ یہ فرما دے گا کہ ’’گیٹ آؤٹ! اب تمھاری ضرورت باقی نہیں رہی‘‘۔

   
2016ء سے
Flag Counter