مغرب پر کام کرنے کے مختلف دائرے

   
تاریخ : 
۱۴ جون ۲۰۲۰ء

مغرب پر کام کرنے کی ضرورت کے حوالہ سے گزشتہ دنوں میرا کالم پڑھ کر بہت سے دوستوں نے رابطہ کیا ہے اور بعض سے بالمشافہہ گفتگو ہوئی ہے جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس کی نوعیت اور دائرے کیا ہوں گے؟ مختلف احباب کے سوالات اور ان کے جوابات کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

ایک دوست نے پوچھا کہ وہ کسی مغربی ملک کی یونیورسٹی میں مغرب ہی کے حوالہ سے کسی موضوع پر ڈاکٹریٹ کی تیاری کر رہے ہیں اور موضوع کے انتخاب میں سوچ بچار کے مرحلہ میں ہیں، میں نے ان سے عرض کیا کہ میرے خیال میں کام کے آغاز کے لیے دو تین اہم موضوعات میں کسی ایک پر غور کر لیں۔

ایک یہ کہ مغرب میں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس پر گورباچوف، ہیلری کلنٹن، شہزادہ چارلس اور جان میجر جیسے سنجیدہ راہنما بھی پریشانی کا اظہار کر چکے ہیں، اسے کسی مقالے کا موضوع بنانے کی ضرورت ہے کہ اس کے اسباب کیا ہیں؟ خاندان کیوں سمٹ کر دو چار افراد تک محدود ہو گیا ہے اور خاندانی رشتوں کا تقدس بلکہ وجود تک دکھائی نہیں دے رہا۔ بلکہ مجھے تو مغرب کے خاندانی نظام کا عمومی منظر دیکھ کر سورۃ محمد کی آیت ۲۲ یاد آ جاتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تمہیں اقتدار حاصل ہوا تو تم زمین میں فساد پھیلاؤ گے اور قطع رحمی کا ماحول پیدا کر دو گے۔ یہاں میری طالبعلمانہ رائے میں قطع رحمی کو فساد فی الارض کا سبب بتایا گیا ہے جس کا کھلا منظر مغرب کے خاندانی نظام کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے خاندانی نظام میں سیکولر بنیادوں پر مغرب کی گزشتہ صدی کی اصلاحات کا جائزہ لینا ہو گا، اس کے نتائج کو واضح کرنا ہو گا، مذکورہ بالا اور دیگر مغربی دانشوروں کی تشویش کو سامنے لانا ہو گا، اور پھر آسمانی تعلیمات کی برتری کی بات کرنا ہوگی جو تمام آسمانی مذاہب میں کم و بیش مشترک ہیں اور ان کی ترقی یافتہ اور مکمل تشکیل قرآن کریم نے پیش کی ہے۔

ایک اور موضوع بھی فوری توجہ کا مستحق ہے کہ مغرب نے روحانیات اور وجدانیات سے لاتعلقی اختیار کر رکھی ہے اور اس سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لیے سوسائٹی تین چار حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ بڑا طبقہ اسباب کی فراوانی اور سہولت و تعیش کا ماحول قائم کر کے ذہنی سکون اور قلبی اطمینان تلاش کر کر رہا ہے، ذہانت کی اعلٰی سطح نے عقل و فلسفہ کے مباحث کا سہارا لیا ہوا ہے، درمیانہ طبقہ سائیکالوجی کو وجدانیات کا متبادل سمجھ کر اس کے حصار میں ہے، جبکہ بالکل نچلی سطح منشیات کی دلدل کا شکار ہے۔ یہ ساری صورتیں ذہنی سکون اور قلبی اطمینان کی طلب میں ہیں، مگر وہ اطمینان جو روح و قلب کی گہرائی تک اتر جائے اور جسے قرآن کریم نے ’’تطمئن القلوب‘‘ سے تعبیر کیا ہے، اس کی منزل کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ جبکہ ہمارے ایک فاضل برطانوی نومسلم دوست ڈاکٹر یحیٰی برٹ کے بقول اس وقت مغربی معاشرہ کو سب سے زیادہ اسی کی ضرورت ہے اور ان کا کہنا ہے کہ جو بھی فطری طریقہ سے مغرب کی اس طرف راہنمائی کرے گا وہ مغربی سوسائٹی کی توجہ حاصل کر لے گا۔ یہ تحقیق اور ریسرچ کا ایک اہم اور ضروری دائرہ ہے جس میں کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے مگر اس کے لیے کام کرنے والے کا خود بھی عملی طور پر صوفیانہ ماحول و مزاج سے متعلق ہونا ضروری ہے، اس وضاحت کے ساتھ کہ صوفیانہ ماحول و مزاج سے متصوفانہ ماحول مراد نہیں ہے۔

ایک اور دوست سے میں نے عرض کیا ہے کہ مغرب گلوبلائزیشن کی بات کرتا ہے اور اس عنوان کے تحت دنیا بھر کی اقوام و ممالک کی تہذیب و ثقافت اور آزادی و خودمختاری کو پامال کرتا چلا جا رہا ہے۔ اس نے مغرب کی سیاسی و معاشی بالادستی کو پوری دنیا پر مسلط کرنے اور مغربی تہذیب و ثقافت کو انسانی سوسائٹی کی واحد ثقافت بنانے کو ’’گلوبلائزیشن‘‘ قرار دے لیا ہے۔ کیا فطری گلوبلائزیشن یہی ہے؟ یا اقوام و ممالک کے تہذیبی تنوع، معاشی خودمختاری اور سیاسی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر مسلمہ اور مشترکہ اصولوں کے دائرے میں عالمی یکسانیت کا ماحول قائم کرنا گلوبلائزیشن کا حقیقی تقاضہ ہے؟

یہ بات بھی تفصیلی بحث و تحقیق کا تقاضہ کر رہی ہے کہ مغرب نے یورپ کی تاریک صدیوں یعنی بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کے مشترکہ جبری نظام کے ردعمل پر نئے فلسفہ و فکر کی بنیاد رکھی ہے، وہ پس منظر مغرب کا ضرور ہے مگر پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام پر اس پس منظر اور اس کے ردعمل کو مسلط کرتے چلے جانا کونسی دانشمندی ہے؟ یہ واضح کرنے کا وقت آ گیا ہے کہ یورپ کا مذکورہ سماجی پس منظر عالم اسلام کا ماضی اور پس منظر نہیں ہے اس لیے اس کے ردعمل کے فلسفہ کو مسلم دنیا کو گھسیٹنا کوئی انصاف کی بات نہیں ہے۔

اس قسم کے مختلف موضوعات ذہن میں گھومتے رہتے ہیں مگر اصحاب ذوق کی توجہ اس طرف نہیں ہو رہی۔ چنانچہ اس سال ادارۃ النعمان گوجرانوالہ کے ساتھ اتوار کو ہفتہ وار آن لائن لیکچرز کی ایک ترتیب طے ہوئی ہے جس میں ان موضوعات پر مناسب ترتیب کے ساتھ بشرط صحت کچھ نہ کچھ عرض کرنے کا ارادہ ہے، ان شاء اللہ تعالٰی۔ مزید معلومات 03216439313 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

البتہ ان سب امور سے زیادہ بنیادی ضرورت اس بات کی ہے کہ مغرب سے مرعوبیت اور اس کی عقل و دانش کو بالاتر سمجھنے کے ماحول سے خود کو نکالا جائے، ان کی خوبیوں کو ضرور تسلیم کیا جائے اور استفادہ کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے، مگر ان کی کمزوریوں، کوتاہیوں، مغالطوں اور دجل و فریب کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کر کے خود مغرب سے دوٹوک بات کرنے کا حوصلہ و اعتماد ہماری اصل بنیادی ضرورت ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter