تعلیمی سلسلہ کی بحالی اور یکساں نصاب تعلیم

   
تاریخ : 
۲۳ جولائی ۲۰۲۰ء

کرونا بحران سے پیدا شدہ صورتحال پوری قوم بلکہ نسل انسانی کے لیے پریشانی اور بے چینی کا باعث ہے جس سے نظام زندگی مختلف شعبوں میں درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے اور اس پر کنٹرول کی کوئی مؤثر صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ اس دوران لاک ڈاؤن اور پھر سمال لاک ڈاؤن یقیناً قومی اور معاشرتی ضرورت ہے جس کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ و استغفار کے ساتھ اپنی بارگاہ میں جھکنے کی توفیق دیں اور اس ابتلا و وبا سے نجات عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

اس دوران قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں کاروباری زندگی اور معمولات شدید طور پر متاثر ہوئے ہیں چنانچہ بنیادی معاشرتی ضروریات کے لیے لاک ڈاؤن میں نرمی اور زندگی کے معمولات کو مناسب ایس او پیز کے ساتھ جاری رکھنا ہماری شدید ترین ضرورت بن گیا ہے، جس کے لیے مرحلہ وار گنجائش کی حکمت عملی قومی سطح پر اختیار کی جا رہی ہے، جو بہرحال ناگزیر ہے۔ مگر تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش اور تعلیمی نظام کا تعطل بدستور جاری ہے جو عمومی تعلیم اور دینی تعلیم دونوں حوالوں سے شدید قومی اور معاشرتی نقصان کا باعث بن رہا ہے، بالخصوص دینی مدارس کی بندش اس لیے زیادہ محسوس ہو رہی ہے کہ عصری اداروں کا تعطل زیادہ تر سالانہ تعطیلات کو محیط رہا ہے مگر دینی مدارس کی سالانہ تعطیلات کا نظام مختلف ہونے کے باعث ان کے تعلیمی سال کی پوری سہ ماہی اس کی زد میں ہے جس کی تلافی ان کے لیے مشکل ہو سکتی ہے۔

اس لیے متعلقہ اداروں اور وفاقی وزارت تعلیم سے گزارش کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ مجموعی تعلیمی نظام کی بحالی بالخصوص دینی مدارس کے تعلیمی سال کے باقاعدہ آغاز پر خصوصی توجہ دی جائے اور تعلیمی اداروں کی مشاورت کے ساتھ مناسب ایس او پیز کا تعین کر کے عید الاضحٰی کے فورًا بعد تعلیمی سال کے باقاعدہ آغاز کا نظام وضع کیا جائے، اور اس کا نوٹیفکیشن عید الاضحیٰ کی تعطیلات سے قبل جاری کر دیا جائے تاکہ تعلیمی ادارے تعلیمی تسلسل قائم رکھتے ہوئے تعلیمی نقصان کو کم سے کم کرنے کا راستہ اختیار کر سکیں۔

اس سلسلہ میں ملی مجلس شرعی پاکستان نے عوامی رابطہ و آگاہی کے لیے ایک تجویز قومی حلقوں کے سامنے پیش کی ہے جس کے بارے میں مجلس کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز درج ذیل ہے:

’’ملی مجلس شرعی نے، جو سارے دینی مکاتب فکر کے علماء کرام کی مشترکہ علمی مجلس ہے، رواں ہفتہ کے دوران ملک بھر میں ’’ہفتہ بحالیٔ تعلیم‘‘ منانے کا اعلان کیا ہے۔ اس دوران جمعۃ المبارک ۲۴ جولائی کو ’’یوم بحالیٔ تعلیم‘‘ کے طور پر منایا جائے گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔

مجلس نے ملک بھر کے علماء سے اپیل کی ہے کہ وہ اس دوران خطبات جمعہ، اخباری بیانات، سوشل میڈیا، سیمینارز اور دیگر میسر ذرائع سے تعلیمی تعطل کے نقصانات واضح کرتے ہوئے وفاقی وزارت تعلیم سے مطالبہ کریں کہ عید الاضحی کے فوراً بعد ملک بھر کے تعلیمی اداروں بالخصوص دینی مدارس میں مناسب ایس او پیز کے ساتھ تعلیمی سلسلہ بحال کرنے کا اعلان کیا جائے اور اس کا باضابطہ نوٹیفیکیشن عید الاضحی کی تعطیلات سے پہلے جاری کیا جائے۔ نیز علماء کرام حکومت کے اس مجوزہ یکساں قومی نصاب کو رد کرنے کا اعلان کریں جو اسلامی اصول و اقدار کی بجائے ’’ہیومنزم‘‘ اور ’’سیکولرازم‘‘ کی اساس پر بنایا جا رہا ہے۔

مجلس نے دینی مدارس کے وفاقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ رمضان المبارک میں نماز تراویح کی طرح خود باہمی مشاورت کے ساتھ مناسب ایس او پیز تجویز کر کے ان کا اعلان کریں۔ نیز دینی و سیاسی جماعتوں، تاجروں، وکلاء، میڈیا سے متعلق شخصیات، طلبہ و اساتذہ کی تنظیموں سے مجلس نے اپیل کی ہے کہ وہ ہر شہر میں اس کے لیے مشترکہ دستخطوں پر مشتمل عرضداشت مرتب کر کے متعلقہ اداروں اور محکموں تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔

جن علماء کرام نے یہ اپیل کی ہے ان میں مولانا زاہد الراشدی، مولانا ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، مولانا حافظ فضل الرحیم، مولانا عبد المالک، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، حافظ عاکف سعید، مولانا عبد الرؤف فاروقی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، علامہ خلیل الرحمن قادری، مولانا عبد الرؤف ملک، حافظ ڈاکٹر حسن مدنی، حاجی عبد اللطیف چیمہ، مولانا عزیز الرحمن ثانی، مولانا غضنفر عزیز، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا حافظ محمد نعمان، علامہ توقیر حسین نقوی، علامہ شہزاد مجددی، ڈاکٹر علی اکبر الازہری، مولانا عمران طحاوی، مولانا حافظ ظہیر اعظم، علامہ مقصود احمد کیانی اور دیگر شامل ہیں۔‘‘

اس کے ساتھ ہی یکساں قومی نصابِ تعلیم کا مسئلہ بھی قابلِ توجہ ہے جس کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قوم کے تمام طبقات، حلقوں، علاقوں اور سطحوں کے لیے یکساں نصابِ تعلیم ناگزیر قومی ضرورت ہے، مگر حقیقی یکسانیت کے اہتمام کے لیے معروضی حقائق کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ریاستی نظامِ تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کا نظام اور پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں کا سسٹم اپنی اپنی جگہ کام کر رہے ہیں اور ان کے تحت ملک بھر میں ہزاروں تعلیمی ادارے مصروفِ کار ہیں۔ ان سب کے لیے قابلِ عمل یکساں نصابِ تعلیم وہی ہو گا جو ان تینوں دائروں کے ذمہ دار نمائندگان باہمی اشتراک کے ساتھ مل کر مرتب کریں گے، جبکہ کسی ایک دائرے کا اپنے طور پر مرتب کردہ نصابِ تعلیم دوسرے دائروں کے لیے قابلِ عمل نہیں ہوگا۔ چنانچہ اس معاشرتی حقیقت کو نظرانداز کر کے طے کیا جانے والا کوئی بھی نصاب بظاہر قبول کر لیے جانے کے باوجود کامیاب ثابت نہیں ہو گا، ذمہ دار اداروں اور حلقوں کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے ورنہ اس تجربہ کی کامیابی کے امکانات مخدوش ہوں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter