دعوت دین کے عصری مسائل، تقاضے اور اہداف

   
تاریخ: 
۲۶ اکتوبر ۲۰۱۳ء

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ نے ۲۱ اکتوبر سے ۲۶ اکتوبر ۲۰۱۳ء تک ’’تدریس علوم اسلامیہ اور عصری تقاضے‘‘ کے عنوان پر کالجز کے علوم اسلامیہ کے اساتذہ کے لیے چھ روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ اس سیمینار کی مختلف نشستوں میں (۱) مستشرقین اور مطالعہ قرآن (۲) مطالعہ اسلامیات کے مقاصد اور تقاضے (۳) تدریس قرآن کریم کے تقاضے اور اہداف (۴) تدریس علوم اسلامیہ اور عصری تقاضے (۵) گلوبلائزیشن اور اس کے اثرات و نتائج (۶) مطالعہ اقتصادیات اور عصری تقاضے (۷) علوم اسلامیہ کی تدریس و اشاعت میں جدید ذرائع (۸) دعوت دین کے عصری مسائل، تقاضے اور اہداف (۹) عصری فقہی مسائل (۱۰) مکالمہ بین المذاہب، نئی جہات (۱۱) تدریس فقہ کے جدید رجحانات اور مناہج (۱۲) حدیث و سنت کی تعبیرات: عصری رجحانات جیسے اہم عنوانات پر ممتاز ارباب علم و دانش نے اظہار خیال کیا جن میں پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر (صدر شعبہ)، پروفیسر ڈاکٹر سفیر اختر، ڈاکٹر محمد عبد اللہ، ڈاکٹر غلام علی خان، پروفیسر ڈاکٹر شوکت جمیلہ، پروفیسر سلیم منصور خالد، پروفیسر حافظ محمد یوسف خان، پروفیسر حافظ محمد عظمت، پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ بشارت، پروفیسر ڈاکٹر محمد سعد صدیقی اور ڈاکٹر حافظہ شاہدہ پروین بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کی سرپرستی اور شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ ڈاکٹر حافظ محمود اختر کی نگرانی میں مسلسل چھ روز تک جاری رہنے والی یہ ورکشاپ یونیورسٹی کے ماحول میں انتہائی مؤثر اور مفید رہی اور اس سے مختلف کالجوں کے اساتذہ نے استفادہ کیا۔ راقم الحروف کو ورکشاپ کی آخری نشست میں محترم ڈاکٹر علی اصغر چشتی صاحب کے ساتھ اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ محترم ڈاکٹر صاحب علوم حدیث و سنت کے متخصصین میں سے ہیں، انہوں نے حدیث و سنت کی تعبیرات میں عصری رجحانات پر تفصیلی گفتگو فرمائی جبکہ مجھے ’’دعوت دین کے عصری مسائل، تقاضے اور اہداف‘‘ کے موضوع پر گزارشات پیش کرنے کے لیے کہا گیا۔ اس موقع پر پیش کی جانے والی معروضات کا خلاصہ نذر قارئین ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مجھے گفتگو کے لیے ’’دعوت دین کے عصری مسائل، تقاضے اور اہداف‘‘ کے عنوان سے جو موضوع دیا گیا ہے وہ اپنے دامن میں بہت سے موضوعات کو سمیٹے ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر عنوان مستقل گفتگو کا متقاضی ہے جبکہ وقت کا دامن اپنے اندر اتنی وسعت نہیں رکھتا اس لیے میں ان میں سے چند پہلوؤں پر مختصرً ا گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔

دعوت دین کے تقاضوں پر بات کرنے سے قبل یہ عرض ضروری سمجھتا ہوں کہ دعوت دین بذات خود ایک اہم دینی تقاضہ ہے اور ہر مسلمان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس لیے کہ اسلام نہ تو کسی علاقے کا دین ہے اور نہ کسی نسل یا زمانے تک محدود ہے۔ اسلام کی دعوت تمام انسانوں کے لیے ہے، ہر علاقے کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ جبکہ آج کے حالات میں اس کا عمومی تناظر یہ ہے کہ اس وقت سات ارب انسانوں سے زیادہ افراد پر مشتمل انسانی سوسائٹی میں پوری انسانی نسل کو اپنے مذہب کے دائرہ میں لانے کی کوشش اور دعوت کے حوالہ سے عالمی سطح پر صرف دو مذہب یعنی اسلام اور مسیحیت میدان میں ہیں۔ اور ان دونوں کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ پوری نسل انسانی کے لیے ہیں اور دونوں کی کوشش یہ ہے کہ سب کے سب انسان ان کے مذہب کے دائرہ میں داخل ہو جائیں۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں جاتا کہ مسیحیت صرف بنی اسرائیل کا دین تھا یا پوری نسل انسانیت کے لیے ہے۔ ہمارا اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ مسیحیت صرف بنی اسرائیل کا دین تھا جو اپنے وقت میں حق مذہب تھا لیکن ایک محدود زمانے تک کے لیے تھا۔ جبکہ اسلام اس کے بعد پوری نسل انسانی کا دین ہے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ اس بحث میں پڑے بغیر موجودہ معروضی صورت حال یہ ہے کہ مسیحیت خود کو پوری نسل انسانی کا دین کہتی ہے، اپنا زمانہ قیامت تک قرار دیتی ہے اور مسیحی مذہب کے ہزاروں مشنری ادارے دنیا بھر میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو دعوت دے کر مسیحیت قبول کرنے کی مسلسل ترغیب دے رہے ہیں۔

اسلام اور مسیحیت کے علاوہ باقی مذاہب دعوت کے دین نہیں ہیں، ہندو مذہب ایک وطنی مذہب ہے جو خود کو ارض ہند تک محدود سمجھتا ہے، یہودیت خود کو بنی اسرائیل کا مذہب قرار دیتی ہے اور نسلی تفاخر کے ماحول میں خود کو اس میں محدود سمجھتی ہے، جبکہ باقی مذاہب کا بھی عالمی سطح پر دعوت اور توسیع کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔

دعوت و تبلیغ کے حوالہ سے اسلام اور مسیحیت کے عالمی سطح پر اس تقابل کا ایک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران مسیحیت نے عالم اسلام کے دو علاقوں ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان میں دعوت و تبلیغ کے ذریعہ اپنی اکثریت کا ماحول قائم کر کے دو نئی مسیحی ریاستیں قائم کر لی ہیں جبکہ دنیا بھر کے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے مسیحی مشنریوں کی طرز پر مسلمانوں کا کوئی منظم نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔ حالانکہ سات ارب کی انسانی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد پونے دو ارب بیان کی جاتی ہے اور سوا پانچ ارب انسان اس بات کے انتظار میں ہیں کہ انہیں کوئی اسلام کی دعوت دے، انہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعارف کرائے اور ان تک قرآن کریم کی تعلیمات پہنچانے کا اہتمام کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری بہرحال ہم پونے دو ارب مسلمانوں کی ہی بنتی ہے، اس کے لیے آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے۔ اس لیے پہلی بات میں نے یہ عرض کی ہے کہ دعوت دین خود ایک بہت بڑا تقاضہ ہے جو امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور اپنے اپنے درجہ میں ہم سب مسلمانوں کے دینی فرائض میں شامل ہے۔

دوسری بات دعوت دین کے تقاضوں کے بارے میں گزارش کرنا چاہوں گا کہ سب سے پہلے تو ہم اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں اور پھر اس بات کے شعور و ادراک سے بہرہ ور ہوں کہ غیر مسلموں کو ہم نے دین کی دعوت کس اسلوب میں اور کن ترجیحات کے ساتھ دینی ہے، کیونکہ خود ہمیں دین کی بنیادی تعلیمات سے آگاہی ہوگی تو ہم دوسروں کو بھی دعوت دے سکیں گے۔ اور اگر ہم خود دین کی بنیادی باتوں سے بے خبر ہوں گے یا ہمارے ذہنوں مین دعوت دین کی منطقی اور فطری ترجیحات موجود نہیں ہوں گی تو دوسروں کو دین کی دعوت دینا ہمارے لیے بے حد مشکل کام ہوگا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جن لوگوں تک ہم اسلام کی دعوت پہنچانا چاہتے ہیں ان کی زبان، نفسیات اور ذہنی رجحانات سے ہم باخبر ہوں۔ کیونکہ کسی عقیدہ کی دعوت متعلقہ شخص کو اس کی اپنی زبان میں اور اس کے نفسیاتی ماحول کے دائرہ میں ملے تو وہ اثر انداز ہوتی ہے ورنہ اس دعوت کے منفی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ارباب فہم و دانش یہ فرماتے ہیں کہ عالمی سطح پر دین کی تعلیم و دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے بین الاقوامی زبانوں، مختلف قوموں کی نفسیات اور عالمی حالات سے آگاہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔

تیسری بات عالمی سطح پر دعوتِ اسلام کے لیے ایک اہم تقاضے کے طور پر ذکر کرنا چاہوں گا جو ہمارے بہت سے نو مسلم دوستوں بالخصوص امریکہ کی پروفیسر ڈاکٹر ماریہ کے ہرمینسن اور برطانیہ کے ڈاکٹر یحییٰ برٹ نے زور دے کر کہی ہے کہ مغرب کے پاس مادی وسائل اور نظم و ڈسپلن کی کمی نہیں ہے، اس کا خلا روحانی سکون کا ہے اور اس کی زبان دلیل و منطق کی ہے۔ اس لیے عالمی ماحول بالخصوص مغربی دنیا میں اسلام کی دعوت دینے کے لیے ہمیں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی طرز اپنانا ہوگی جس کی بنیاد لاجک اور روحانیت کے اصولوں پر ہے۔ ہمیں اسلام کی بات دلیل و منطق کے ساتھ اور روحانی تسکین کے ماحول میں کرنی ہوگی۔ اسی ضمن میں ایک بات اور عرض کروں گا کہ دنیا میں بسنے والی سینکڑوں اقوام کو دین کی دعوت دینے اور اس سلسلہ میں اپنا فریضہ ادا کرنے کے لیے ہمیں ان تک رسائی کی صورتیں اختیار کرنا ہوں گی اور دعوت کا ماحول بھی پیدا کرنا ہوگا، کیونکہ ان لوگوں تک رسائی، ان کی زبان و نفسیات سے واقفیت اور دعوت کے لیے مانوس ماحول پیدا کیے بغیر ہم پوری نسل انسانی تک دعوت اسلام پہنچانے کا فرض صحیح طور پر ادا نہیں کر پائیں گے۔

دعوت اسلام کے مسائل اور تقاضوں میں سے ایک بات کا اپنے داخلی ماحول کے حوالہ سے تذکرہ کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں عمومی طور پر صورت حال یہ ہے کہ کوئی ہندو یا عیسائی یا کوئی بھی غیر مسلم اسلام قبول کر لیتا ہے تو وہ اپنے ماحول، سوسائٹی، خاندان اور پس منظر سے کٹ جاتا ہے، لیکن اسے اپنے پہلے ماحول سے بہتر ماحول ہمارے ہاں نہیں ملتا، اسے معاشرتی وقار اور تحفظ کا ماحول میسر نہیں آتا۔ جن نو مسلموں کو اچھے مسلمان دوست اور معاون میسر آجاتے ہیں وہ تو ٹھیک رہتے ہیں لیکن ان کا تناسب بہت کم ہے، جبکہ زیادہ لوگ وہ ہوتے ہیں جو اسلام قبول کرنے کے بعد معاشرتی تحفظ اور وقار سے محروم ہو جاتے ہیں، انہیں معاشرتی عزت نہیں ملتی، ان کے بچوں کو رشتے نہیں ملتے اور وہ معاشرتی تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جبکہ ہم کچھ لوگوں کی مالی طور پر مدد کر کے خود کو اپنی ذمہ داری سے سبکدوش سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ مالی تعاون اور روزگار کی فراہمی بہت ضروری ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ ضرورت معاشرتی تحفظ اور وقار کی ہے جو عام طور پر نو مسلموں کو میسر نہیں آتا۔ اور یہ بات بھی دعوت اسلام کی بڑی رکاوٹوں میں سے ہے۔ یہ چند باتیں میں نے موضوع کی مناسبت سے عرض کر دی ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس حوالہ سے اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر پورا کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۴ نومبر ۲۰۱۳ء)
2016ء سے
Flag Counter