بھارت میں خاتون مفتیوں کے پینل کا قیام

   
تاریخ : 
نومبر ۲۰۰۳ء

’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے ۵ اکتوبر ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں حیدرآباد دکن کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہاں کے ایک دینی ادارے ’’جامعۃ المومنات‘‘ نے تین عالمہ خواتین کو افتا کا کورس کرانے کے بعد فتویٰ نویسی کی تربیت دی ہے اور ان پر مشتمل خواتین مفتیوں کا ایک پینل بنا دیا ہے جو خواتین سے متعلقہ مسائل کو براہ راست سنتی اور ان کے بارے میں شرعی اصولوں کی روشنی میں فتویٰ جاری کرتی ہیں۔ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ یہ جنوبی ایشیا میں پہلی مثال ہے کہ خواتین سے متعلقہ مسائل پر خواتین کو فتویٰ جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگرچہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی اہلیہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہؓ خواتین کے مسائل کے حوالے سے فتویٰ دیتی رہی ہیں اور بعد میں بھی امت مسلمہ میں عورتوں کے دینی امور میں رائے دینے کی روایت موجود رہی ہے، لیکن یہ معاملہ غیر رسمی رہا ہے۔ اب ہندوستان میں اس نئی روایت کا آغاز کیا گیا ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

’’جامعۃ المومنات‘‘ حیدرآباد دکن کے بارے میں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس میں دو ہزار کے لگ بھگ طالبات دینی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور اس کے دار الافتاء کے سربراہ مولانا مفتی حسن الدین نے اپنی نگرانی میں بائیس سالہ عالمہ مفتیہ ناظمہ عزیز اور ان کی دو ساتھیوں کو فتویٰ نویسی کے لیے تیار کیا ہے اور اب خواتین ان سے براہ راست رجوع کر کے اپنے مسائل کے بارے میں رہنمائی حاصل کرتی ہیں۔ رپورٹ میں اس پینل کے بعض فتاویٰ کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں میک اپ سے متعلقہ مسائل اور عورت کو طلاق ہو جانے کی صورت میں اس کے بچے کی پرورش کی ذمہ داری کے بارے میں سوالات شامل ہیں۔

حیدر آباد دکن کے اس دینی ادارے کے قائم کردہ خواتین مفتیوں کے اس پینل کے بارے میں مزید معلومات تو براہ راست رابطہ کے بعد ہی حاصل ہو سکیں گی، البتہ جتنی بات کا ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے اپنے مخصوص انداز میں ذکر کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’جامعۃ المومنات‘‘ کے اس اقدام کو عالمی سطح پر ایک بڑی تبدیلی کے طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ ایک اہم اور انقلابی پیش رفت ہے لیکن جہاں تک عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے اور دینی امور میں رائے دینے کا تعلق ہے، ہمارا ماضی اس سلسلے میں شاندار روایات کا حامل ہے اور اب سے ایک ہزار سال قبل تک ہمارے ہاں عورتوں کا علمی معیار اس قدر بلند رہا ہے کہ مغرب عورتوں کو آزادی اور مساوات کی منزل سے ہم کنار کرنے کے بلند بانگ دعووں کے باوجود اس کی ہم سری نہیں کر سکتا۔

خلفاے راشدینؓ کے دور میں جناب نبی اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ کی روایت کے حوالے سے جن سات صحابہ کرام کو حدیث نبوی کے سب سے بڑے راوی شمار کیا جاتا ہے، ان میں ایک ام المومنین حضرت عائشہ بھی ہیں جن سے دو ہزار سے زائد احادیث مروی ہیں اور ان سے براہ راست حدیث نبوی ﷺ روایت کرنے والے مرد وخواتین کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے۔ وہ صرف روایت ہی نہیں کرتی تھیں بلکہ قرآن وسنت سے مسائل کا استنباط کرتی تھیں، فتویٰ بھی جاری کرتی تھیں، اپنے معاصر مفتیوں کے فتووں سے اختلاف کرتی تھیں اور ان کے فتووں کا تعلق صرف عورتوں کے مسائل سے نہیں ہوتا تھا بلکہ عقائد کی تشریح، عبادات، امت کے اجتماعی معاملات اور دیگر امور بھی ان کے فتاویٰ کا حصہ ہوتے تھے۔ ان سے خلفاے راشدین خود بھی رہنمائی حاصل کرتے تھے اور ان کے فتاویٰ عملاً نافذ ہوا کرتے تھے۔ امام جلال الدین سیوطیؒ نے ایک مستقل کتابچہ میں ان فتاویٰ کا ذکر کیا ہے جن میں ام المومنین حضرت عائشہؓ نے اپنے معاصر مفتیوں اور مجتہدین سے اختلاف کیا ہے اور ان سے مختلف فتاویٰ جاری کیے ہیں۔ ان کے بارے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ ہم صحابہ کرام کبھی کسی ایسی مشکل میں نہیں پھنسے جس کے بارے میں ام المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس ہم نے علم اور رہنمائی نہ پائی ہو۔ حضرت عروہ بن زبیر کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے زمانے میں قرآن وسنت کی تشریح، شعر وادب، تاریخ قبائل عرب، فرائض ومیراث اور طب میں حضرت عائشہؓ سے بڑا کوئی عالم نہیں دیکھا۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ کے علوم کی سب سے بڑی وارث بھی ایک خاتون تھیں جن کا نام عروہ بنت عبد الرحمن ہے۔ یہ مشہور صحابی حضرت اسعد بن زرارہؓ کی پوتی ہیں، بہت ذہین وفطین خاتون تھیں، حضرت عائشہ کے ہاں رہتی تھیں اور ان کی مایہ ناز شاگرد ہونے کے علاوہ ان کے بیشتر معاملات وامور کی ذمہ دار ہوتی تھیں۔ صحابہ کرام کے آخری دور میں جب اس بات کاخطرہ نظر آنے لگا کہ جناب نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا براہ راست مشاہدہ کرنے والے اور ان کے ارشادات براہ راست سننے والے حضرات کے دنیا سے رخصت ہوتے چلے جانے کے باعث کہیں سنت واحادیث کا بہت بڑا ذخیرہ ان کے ساتھ ہی نہ چلا جائے تو امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے سرکاری طور پر اس کا اہتمام کیا کہ جناب نبی اکرم ﷺ کی احادیث وسنت کو جمع کر کے محفوظ کیا جائے اور باقاعدہ تحریر میں لاکر ان کی حفاظت کی جائے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے بہت سے حضرات کی ڈیوٹی لگائی جن میں مدینہ منورہ کے قاضی ابوبکر بن قاسم بھی تھے جو حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن کے بھتیجے تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے انہیں اس بات کی بطور خاص ہدایت کی کہ وہ اپنی پھوپھی کے علوم وروایات کو جمع اور محفوظ کرنے کا خصوصی اہتمام کریں کیونکہ وہ ام المومنین حضرت عائشہ کے علوم کی وارث بلکہ حافظہ ہیں۔ ابن حجر عسقلانی کے نزدیک مدینہ منورہ میں اس کام کے لیے قاضی ابوبکر بن قاسم کو مقرر کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ وہ حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن کے علوم وروایات کو منضبط کرنے کا کام زیادہ آسانی سے کر سکتے تھے۔ حافظ ابن حجر کا کہنا ہے کہ عمرہ بنت عبد الرحمن صرف احادیث روایت ہی نہیں کرتی تھیں بلکہ لوگ ان سے مسائل بھی دریافت کرتے تھے۔ وہ اپنے قاضی بھتیجے کے عدالتی فیصلوں کی نگرانی کیا کرتی تھیں اور بسا اوقات ان کو ٹوک بھی دیا کرتی تھیں۔

احادیث نبوی کی روایت میں خواتین کا کیا حصہ رہا ہے؟ اس کے بارے میں ہمارے دوست مولانا محمد اکرم ندوی نے، جو آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز میں تحقیق اور ریسرچ کا کام کر رہے ہیں اور امت کی ان محدثات کے حالات جمع کرنے میں مصروف ہیں جنہوں نے احادیث نبوی باقاعدہ طور پر پڑھی اور پھر پڑھائی ہیں، گزشتہ سال شعبان میں مجھے بتایا کہ وہ اب تک چھ ہزار محدثات کے حالات جمع کر چکے ہیں جو ان کے اندازے کے مطابق دس ضخیم جلدوں میں شائع ہوں گے۔ اسی طرح فقہ وافتا میں بھی متعدد خواتین بلند ترین مقامات تک پہنچی ہیں۔ اس سلسلے میں بطور مثال چھٹی صدی ہجری کی ایک خاتون فقیہہ اور مفتیہ کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا جو فاطمہ فقیہہ کے نام سے معروف ہیں اور فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’بدائع الصنائع‘‘ کے مصنف امام ابوبکر کاسانی کی اہلیہ محترمہ ہیں۔ یہ اپنے والد اور خاوند کے ساتھ افتا کے کام میں شریک ہوتی تھیں اور خود بھی فتویٰ دیا کرتی تھیں حتیٰ کہ اس دور کے اہم مسائل پر جو فتاویٰ جاری ہوتے تھے، ان پر ان تینوں کے دستخط ہوا کرتے تھے۔

بعض روایات کے مطابق فاطمہ فقیہہ کی شادی کا واقعہ بھی دلچسپی کا حامل ہے جس کا مختصر تذکرہ علامہ شامی نے کیا ہے اور حضرت مولانا قاری محمد طیب نے اپنے ایک خطبہ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو ان کے مطبوعہ ’’خطبات حکیم الاسلام‘‘ میں موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فاطمہ فقیہہ خود بھی بڑی عالمہ تھیں اور ان کے والد بھی اپنے دور کے بہت بڑے عالم وفقیہ تھے۔ فاطمہ انتہائی خوب صورت خاتون تھیں اس لیے ان کے لیے بڑے بڑے خاندانوں کے رشتے آتے تھے لیکن کسی رشتے پر باپ بیٹی کا اتفاق نہیں ہوتا تھا۔ بالآخر فاطمہ فقیہہ نے خود ہی تجویز پیش کی کہ ان سے شادی کے خواہش مند حضرات موجودہ حالات کی روشنی میں فقہ حنفی پر کتاب لکھیں، وہ سب کتابوں کا مطالعہ کریں گی اور جس مصنف کی کتاب انہیں پسند آئے گی، اس سے شادی کر لیں گی۔ حضرت مولانا قاری محمد طیب کے ارشاد کے مطابق اس ’’مقابلہ‘‘ میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں، جن میں سے ’’بدائع الصنائع‘‘ کو محترمہ نے پسند کیا اور اس کے مصنف امام ابوبکر کاسانی سے شادی کر لی۔

اس لیے بھارت کے ایک دینی ادارے نے اگر تین عالم خواتین کو افتا کی باقاعدہ تربیت دے کر ان پر مشتمل خاتون مفتیوں کا مستقل پینل بنایا ہے اور خواتین سے اپنے مسائل کے لیے ان سے براہ راست رجوع کرنے کو کہا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی مسلمانوں میں کسی نئی روایت کا اضافہ ہے بلکہ یہ اقدام اپنے شاندار ماضی کی طرف واپس پلٹنے کا عمل ہے جو انتہائی خوش آئند اور اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے دینی حلقوں نے اپنے ماضی کی تاریخ اور اسلاف کی روایات سے آگاہی حاصل کرنے اور ان کی طرف واپس پلٹنے کی ضرورت محسوس کر لی ہے۔ اس موقع پر ہم یہ گزارش کرنے کی ضرورت بھی محسوس کر رہے ہیں کہ ’’عورت‘‘ کے حوالے سے ہماری موجودہ اور مروجہ روایات واقدار کا ایک بڑا حصہ ہمارے علاقائی کلچر سے تعلق رکھتا ہے جسے دین قرار دے کر ان کی ہر حالت میں حفاظت کا تکلف روا رکھا جا رہا ہے۔ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم دینی تعلیمات واقدار اور علاقائی کلچر وثقافت کی روایات واقدار کے درمیان فرق کو محسوس کریں اور اس حقیقت کا ادراک حاصل کریں کہ ہر حالت میں تحفظ صرف دینی تعلیمات واقدار کا حق ہے جبکہ کلچر اور ثقافت، حالات اور ضروریات کے تغیر کے ساتھ ساتھ بدلتی رہنے والی چیزیں ہیں۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ہم ان دونوں کے درمیان فرق نہیں کر رہے جس سے علاقائی اور عالمی سطح پر بہت سے غیر ضروری مسائل اور ناواجب پیچیدگیاں جنم لے رہی ہیں۔

ان گزارشات کے ساتھ ہم ’’جامعۃ المومنات‘‘ حیدرآباد بھارت کے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس کے منتظمین کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کے دیگر دینی اداروں سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس اچھی اور ضروری روایت کو آگے بڑھانے میں مثبت اور موثر کردار ادا کریں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter