امام کعبہ الشیخ عبد الرحمان السدیس کے ساتھ ایک نشست

   
تاریخ : 
۹ جون ۲۰۰۷ء

امام حرم مکہ الشیخ عبد الرحمان السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ کی پاکستان تشریف آوری پر زندہ دلان پاکستان نے عقیدت و محبت کا جو اظہار کیا ہے وہ اسلام اور اسلامی شعائر کے ساتھ ان کی گہری وابستگی کی علامت ہے۔ مقامات مقدسہ کے حوالے سے اہل پاکستان نے ہمیشہ محبت و عقیدت اور جوش و جذبے کا اظہار کیا ہے۔ الشیخ السدیس مسجد حرام کے امام و خطیب ہیں اور نہ صرف یہ کہ نماز میں ان کی قراءت لاکھوں نمازیوں کے لیے اطمینان و مسرت کا باعث ہوتی ہے بلکہ ان کا جمعۃ المبارک کا خطبہ بھی موجودہ عالمی تناظر میں مسلمانوں کے لیے علمی و فکری رہنمائی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ وہ ممتاز حافظ و قاری ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی شریعت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں اور سرکردہ سعودی علماء اور دانشوروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

راقم الحروف کو متعدد بار حرم مکہ میں ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے مگر جب ان کی لاہور تشریف آوری کا علم ہوا تو دل چاہا کہ سرزمین پاکستان میں بھی ان کی امامت میں نماز پڑھنے کا شرف مل جائے۔ جامعہ اشرفیہ میں فجر کی نماز کے وقت گوجرانوالہ سے حاضر ہونا مشکل نظر آ رہا تھا اس لیے اپنے طور پر ارادہ کر لیا کہ نماز مغرب بادشاہی مسجد میں ان کے پیچھے پڑھ لی جائے مگر اس میں بھی بے پناہ رش کی توقع تھی جو میرے جیسے پیدل شخص کے لیے بہرحال سوچنے کا مرحلہ تھا۔ اتنے میں پنجاب قرآن بورڈ کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہو گیا کہ بورڈ کے سرپرست اعلیٰ اور پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے امام حرم کے ساتھ پنجاب قرآن بورڈ کی ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا ہے جس میں بورڈ کے رکن کے طور پر مجھے بھی شریک ہونا ہے۔ چنانچہ میں نے اسے امام حرم کی زیارت اور ان کے ساتھ ملاقات کا محفوظ طریقہ سمجھ کر اس میں شرکت کا پروگرام بنا لیا۔

پنجاب قرآن بورڈ کی طرف سے امام حرم کے لیے استقبالیہ کے عنوان سے یہ تقریب سیون کلب روڈ پر واقع وزیر اعلیٰ ہاؤس میں تھی۔ وہاں پہنچا تو علماء کرام، سرکاری افسران، ممتاز دانشوروں اور عوامی نمائندگان کا ایک ہجوم تھا جو فضیلۃ الشیخ عبد الرحمان السدیس کے لیے چشم براہ تھا۔ مجھے اسٹیج کی دائیں جانب جگہ اس طرح مل گئی کہ مولانا حافظ عبد الرحمان مدنی اپنے بیٹوں سمیت اس طرف بیٹھے تھے، ان کے ساتھ ایک نشست کی گنجائش تھی انہوں نے آواز دے کر مجھے اپنے پاس بلا لیا ورنہ اسٹیج سے اس قدر قریب جگہ حاصل نہ کر پاتا۔ منتظمین میں صوبائی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ سید سعید الرحمان شاہ، پنجاب قرآن بورڈ کے چیئرمین مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، اور ڈائریکٹر مذہبی امور ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نمایاں تھے اور وہی کارروائی کو چلا رہے تھے۔ اسٹیج کے سامنے پہلی صف میں محترم جناب مجیب الرحمان شامی، چیف سیکرٹری جناب سلمان صدیقی اور آئی جی پنجاب پولیس چودھری احمد نسیم نمایاں تھے اور پنڈال میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام اور سرکاری افسران کے پہلو میں مختلف شہروں کے ناظم حضرات اور بعض صوبائی وزراء بھی موجود تھے۔

امام حرم کو پنجاب قرآن بورڈ کے مقصد قیام اور اس کی دو سالہ کارکردگی کے اہم پہلوؤں سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے مسرت کا اظہار کیا اور قرآن کریم کے حقوق پر پرمغز گفتگو فرمائی۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم صرف تلاوت اور برکت کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد اسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ قرآن کریم کا یہ حق ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اس سے رہنمائی حاصل کریں اور اپنی زندگیوں کو قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھالیں۔ امام حرم مکہ نے قرآن بورڈ کی سرگرمیوں اور کارکردگی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کے ساتھ ان سرگرمیوں کے دائرے میں سنت نبویؐ کی ترویج و اشاعت کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ قرآن و سنت دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ اس پر امام حرم مکہ کو بتایا گیا کہ پنجاب قرآن بورڈ کے زیراہتمام ایک بڑا علمی مرکز جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالہ سے قائم کیا جا رہا ہے جس کے ذریعے قرآن کریم اور سیرت نبویؐ کے سلسلہ میں علمی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے گا اور تحقیق و ریسرچ کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔

اسٹیج کے دائیں جانب پہلی صف میں بیٹھ کر امام حرم کی زیارت تو بخوبی ہو رہی تھی اور ان کی گفتگو سے بھی استفادہ ہو رہا تھا مگر مصافحہ کو بھی جی چاہتا تھا جو اس ہجوم میں مشکل دکھائی دیتا تھا۔ خدا بھلا کرے مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کا کہ انہوں نے بطور خاص اسٹیج پر بلا کر اس کا موقع فراہم کر دیا اور ہم اس تقریب سے شادکام لوٹے۔ دو روز بعد اللہ تعالیٰ نے الشیخ عبد الرحمان السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ چند لمحات گزارنے کا ایک اور موقع دے دیا، وہ اس طرح کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ساتھ اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں امام حرم کی ایک نشست ۳۰ مئی کو مغرب کی نماز کے موقع پر طے ہو گئی اور وفاق المدارس العربیہ کی مجلس عاملہ کے رکن کے طور پر مجھے بھی شرکت کا اعزاز بخشا گیا۔ مغرب کی نماز ہم نے پنجاب ہاؤس اسلام آباد کے ایک ہال میں امام حرم کی اقتدا میں ادا کی اور اس کے بعد وفاق المدارس کی نشست میں ان کے ساتھ کم و بیش اڑھائی گھنٹے گزارنے کا شرف حاصل ہوا۔ وفاق المدارس ملک بھر کے دیوبندی مکتب فکر کے ہزاروں مدارس کی نمائندگی اور قیادت کرتا ہے اور اس اجتماع میں ملک بھر سے سرکردہ علماء کرام سینکڑوں کی تعداد میں شریک تھے۔ وفاق کی مرکزی قیادت میں سے مولانا سلیم اللہ خان، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا فضل الرحیم، مولانا انوار الحق حقانی اور مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نمایاں تھے۔ جبکہ وفاقی وزراء میں سے جناب اعجاز الحق، ڈاکٹر عامر لیاقت اور دوسرے بعض وزراء بھی موجود تھے۔ جمعیۃ علماء اسلام کی نمائندگی مولانا عطاء الرحمان ایم این اے اور سینیٹر مولانا گل نصیب خان نے کی۔ تبلیغی جماعت کے معروف مبلغ مولانا محمد طارق جمیل بھی اسٹیج پر تھے بلکہ انہوں نے اپنی مسجّع اور مقفٰی عربی گفتگو میں جس طرح امام حرم کا خیرمقدم کیا اس نے محفل میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کر دیا۔ مولانا طارق جمیل کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ صرف ایک داعی اور مبلغ ہی نہیں بلکہ دینی تعلیم کے ممتاز ماہرین میں شمار ہوتے ہیں، کئی تعلیمی ادارے کامیابی سے چلا رہے ہیں اور انہوں نے دینی علوم کی تعلیم و تدریس کی روایت کو ایک نیا رخ دیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ اردو کی طرح عربی زبان کے بھی قادر الکلام خطیب ہیں۔

اس موقع پر امام حرم کو بتایا گیا کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ساتھ اس وقت گیارہ ہزار کے لگ بھگ دینی مدارس ملحق ہیں، پچاس ہزار سے زائد طلباء حافظ قرآن کریم ہو چکے ہیں، چھیالیس ہزار کے لگ بھگ افراد نے دینی تعلیم مکمل کر کے فائنل کی ڈگری حاصل کی ہے، اور تیس ہزار کے قریب طالبات نے فاضلات کا درجہ حاصل کر لیا ہے جبکہ مجموعی طور پر سترہ لاکھ طلباء ان مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق نے شرکاء محفل کو بتایا کہ ہم پوری دنیا میں بڑے فخر کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں اتنی بڑی تعداد کو تعلیم اور قیام و طعام کی سہولت فراہم کرنے والا اور کوئی ادارہ نہیں ہے اور یہ مدارس دنیا کی سب سے بڑی تعلیمی اور رفاہی این جی او ہیں۔

امام حرم مکہ نے ان اعداد و شمار پر مسرت اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اپنے خطاب میں ان کا بطور خاص ذکر کیا اور کہا کہ علماء کی ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ وہ ہر دور میں دین کی تبلیغ اور تعلیم کے ذریعے حجت قائم کرتے ہیں۔ سماحۃ الشیخ عبد الرحمان السدیس نے اپنے پرمغز خطاب میں علماء کرام کی ذمہ داریوں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی اور بہت سے اہم امور کی طرف انہیں توجہ دلائی۔ انہوں نے بطور خاص اس بات پر زور دیا کہ فقہی اور فروعی اختلافات میں تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ایک دوسرے کا احترام کیا جائے اور پوری طرح متحد ہو کر کفر کا مقابلہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کفر کی ہمہ گیر یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے علماء کرام کا اتحاد اولین ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ علماء کرام کو اپنے عمل اور کردار کے حوالہ سے دوسروں کے لیے اسوہ اور قدوہ ہونا چاہیے اور مسلمانوں کی عملی راہنمائی کے لیے خود نمونہ بننا چاہیے۔ امام حرم مکہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ علماء کرام لوگوں کے سامنے قرآن و سنت کی تعلیمات کو اصلی اور صحیح حالت میں پیش کریں لیکن اس کے لیے وقت کے اسلوب اور طریق کار کا بھی لحاظ رکھیں اور آج کے ہتھیاروں کو پہچانیں۔

امام حرم ان سطور کی اشاعت تک حرم میں واپس پہنچ چکے ہوں گے مگر ان کی تشریف آوری سے دلوں کو جو ایمانی حرارت ملی ہے اس کی یاد مدتوں دلوں کو گرماتی رہے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter