فکری ومسلکی تربیت کے چند ضروری پہلو

   
تاریخ: 
۵ دسمبر ۲۰۰۳ء

(۵ دسمبر ۲۰۰۳ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اساتذہ کے دو روزہ مشاورتی اجتماع کی چوتھی نشست سے خطاب)

بعد الحمد والصلوۃ۔ کل سے مختلف مسائل پر گفتگو چل رہی ہے۔ ہم نے صبح کی نشست میں نصاب اور اساتذہ کی تدریسی اور تربیتی مشکلات کے حوالے سے بات کی، جس کے نتیجے میں تفصیلی تجاویز سامنے آئی ہیں۔

اس نشست میں میری گفتگو کا عنوان ہے ’’فکری ومسلکی تربیت کے چند ضروری پہلو‘‘۔ فکری تربیت سے مراد یہ ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ جب ایک خاص نصاب کی تعلیم پاکر سوسائٹی میں جاتے ہیں اور انہیں آج کے مسائل اور حالات سے سابقہ پیش آتا ہے تو ان کی فکر اور سوچ کیا ہو؟ ان کا نصب العین اور زندگی کا مقصد کیا ہو؟ ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی فکری نصب العین بن جاتا ہے جس کے ارد گرد اس کی زندگی کی ساری تگ ودو گھومتی ہے۔ طالب علمی کے دوران میں اس کے ذہن میں کوئی نہ کوئی ترجیح قائم ہو جاتی ہے کہ میں نے تو یہ کام کرنا ہے، اور پھر وہ ساری زندگی اسی میں لگا رہتا ہے۔ یہ مرحلہ یعنی کسی طالب علم کی فکری تربیت کے رخ کا تعین، ہم نے اسے آزاد چھوڑا ہوا ہے اور طالب علم اپنی مرضی سے اس کا تعین کر رہے ہیں۔ اس کا تعلق بھی اس بات سے ہے جو اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے ہماری مشاورت میں زیر غور آئی، یعنی چونکہ ہمارے ہاں اساتذہ کی تربیت کا کوئی نظم موجود نہیں، اس لیے ہوتا یہ ہے کہ مدارس میں اساتذہ میں سے جس استاد کے ساتھ طالب علم زیادہ مانوس ہو جاتا ہے، تو جو ذہنی سوچ اس کی ہوتی ہے، وہی طالب علم کی بھی بن جاتی ہے۔ ایک مدرسے میں اساتذہ کے ذہنی رجحانات مختلف ہیں تو دو دو، چار چار طالب علم ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مانوس ہو جاتے ہیں۔ اس طرح فکری تربیت تو ہوتی ہے لیکن یہ فکر کوئی اجتماعی فکر نہیں ہوتی۔ ہر طالب علم اپنے ذوق کے مطابق کسی استاد کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے اور اسی کے مطابق اس کی ذہنی وفکری تربیت ہوتی ہے اور وہ اسی سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ میں اس کو خون کے گروپ سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔ ہمارے ہاں خون کے مختلف گروپ کام کر رہے ہیں۔ سپاہ صحابہ کا خون گروپ ہے، جہادی خون گروپ ہے، جمعیت علماء اسلام کا خون گروپ ہے۔ اسی طرح تبلیغی جماعت، اشاعت التوحید اور خدام اہل سنت کے خون گروپ موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ گروپ آپس میں ملتے ہیں اور کچھ نہیں ملتے۔ اور لطیفے کی بات یہ ہے کہ اتفاق سے میرا خون کا گروپ سب سے مل جاتا ہے۔ میرا خون سب کو لگ جاتا ہے اور سارے خون اس کو لگ جاتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ طالب علم کو مجموعی فکر ہم نے کیا دی ہے؟ میں وفاق والوں سے اکثر عرض کیا کرتا ہوں کہ آپ اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کریں تاکہ وہ طلبہ کا کوئی اجتماعی ذہن تو بنائیں اور انہیں کوئی بنیادی سوچ تو دیں۔ یہ تو انہیں بتائیں کہ ملک وملت کے تقاضے کیا ہیں، عالمی صورت حال کے تقاضے کیا ہیں، اور آپ کے مسلک کے بنیادی تقاضے کیا ہیں۔ انہیں کوئی اجتماعی سوچ دیں، اس کے ساتھ ساتھ ضمنی ترجیحات کا دائرہ بھی موجود رہے۔

آپ تقریباً اتفاق کریں گے کہ صورت حال ایسی ہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ ہے کہ اساتذہ، جنہوں نے سوچ دینی ہے اور فکری تربیت کرنی ہے، خود ان کی اپنی اجتماعی فکر کا کوئی اہتمام نہیں۔ عصر ی تعلیم میں ہر سطح کے استاذ کے لیے اس سطح کا تربیتی کورس کرنا ضروری ہے لیکن ہمارے ہاں اس کا کوئی نظم نہیں۔

آج صورت حال یہ ہے کہ فکری طور پر ہم خلفشار کا شکار ہیں۔ ہم پر مغرب کی فکری اور تہذیبی یلغار ہے۔ اس کی صحیح تعبیر وہ ہے جو ہمارے شیخ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے کی ہے کہ ’’ردۃ ولا ابابکر لہا‘‘۔ یہ فکری ارتداد کا زمانہ ہے۔ آپ ذرا محدود حلقے میں ہیں، اللہ آپ کے ایمان کو سلامت رکھے، لیکن اگر آپ جدید حلقے میں چلے جائیں، کسی کے ذہن کو ٹٹولیں تو احتراماً اور عقیدتاً یا فتوے کے ڈر سے تو وہ شاید کوئی بات نہ کہے لیکن جب آپ اس کی فکر کا تجزیہ کریں گے تو کہیں نہ کہیں ارتداد، ارتیاب اور شک کا کوئی نہ کوئی پہلو موجود ہوگا۔ کسی نہ کسی حوالے سے وہ آج کی فکری ارتداد کی لہر سے متاثر ہوگا۔

ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کشمکش کو سرے سے سمجھ ہی نہیں رہے۔ ہم پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، ہمارے گرد حصار تنگ ہوتا جا رہا ہے اور ہم بالکل ایک دائرے میں محصور ہوتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک جدید تعلیم یافتہ نوجوان آپ سے گفتگو کرتا ہے۔ اس کے ذہن میں نکاح وطلاق یا دوسرے مسائل کے بارے میں شریعت کے احکام کے بارے میں شک ہے۔ اس نے جدید لٹریچر پڑھا ہوا ہے۔ ہم اس کے شک اور اس کی وجہ کو سمجھ کر شک کا کانٹا نکالنے کے بجائے اس کے ساتھ طعنے اور فتوے کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ وہ ہمارے سامنے تو احتراماً خاموش ہو جاتا ہے لیکن اس کا شک پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے کہ کوئی بات ضرور ہے، اس لیے یہ جواب نہیں دے سکے اور مجھے ڈانٹ رہے ہیں۔ ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اس کو شک کیا ہوا ہے، اس لیے کہ خود ہمیں معلوم نہیں ہے کہ اس کے پس منظر میں کون سا فکری الجھاؤ کارفرما ہے۔

بات سمجھانے کے لیے ایک حوالہ دوں گا۔ میں ایک عرصے سے مدارس کے منتظمین سے گزارش کر رہا ہوں کہ آج کا بین الاقوامی قانون جو رائج الوقت ہے، جس کی بنیاد پر ہم پر اعتراضات ہوتے ہیں اور الزام لگایا جاتا ہے، وہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر ہے۔ اس کی تیس دفعات ہیں۔ ہم نے اس کو تسلیم کر رکھا ہے اور اس پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اس وقت عالمی کشمکش میں ایک جھگڑا یہ ہے کہ مغربی اقوام کا موقف یہ ہے کہ جب آپ نے اس چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں، اس کے نظام میں شریک ہیں، اس سے فائدے اٹھاتے ہیں، یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کے آپ رکن ہیں، آپ نے یہ عہد کیا ہے کہ اس میں لکھی ہوئی باتوں کی اپنے دستور میں پابندی کریں گے، تو آپ اس کے خلاف اقدامات کیوں کر رہے ہیں؟ یہ موقف اس حوالے سے درست ہے کہ جب ہم نے باقاعدہ معاہدہ کر رکھا ہے تو یا تو اس پر عمل کریں اور یا اس سے پیچھے ہٹ جائیں۔

دوسری طرف ہماری صورت حال یہ ہے کہ اگر اس چارٹر کو اور اس کی ان تشریحات کو قبول کر لیا جائے جو اقوام متحدہ کے باضابطہ ادارے مثلاً جنیوا انسانی حقوق کنونشن، یونیسکو اور یونیسف وغیرہ کرتے ہیں، تو ہمیں احکام شرعیہ میں سے کم از کم ۸۰ فیصد سے دستبردار ہونا ہوگا۔ مثلاً اس میں لکھا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان مساوات کو یقینی بنایا جائے اور جنس کی بنیاد پر کوئی امتیازی قانون نہ بنایا جائے۔ مرد اور عورت کے مابین تمام معاملات میں مساوات ضروری ہے۔ اب آپ اپنے قوانین کو دیکھ لیں کہ مرد اور عورت کے لیے قوانین میں کہاں کہاں فرق نہیں ہے۔ نماز سے شروع ہو جائیں۔ عائلی قوانین کو دیکھ لیں۔ آپ مرد کو طلاق کا حق دیتے ہیں، عورت کو نہیں دیتے۔ یہ امتیازی قانون ہے۔ وراثت میں آپ مرد کو حصہ زیادہ دیتے ہیں، عورت کو کم دیتے ہیں۔ یہ امتیازی قانون ہے۔ شہادت میں آپ بعض معاملات میں عورتوں کی گواہی قبول نہیں کرتے۔ یہ امتیاز کا قانون ہے۔ عورت کو آپ صدر اور وزیر اعظم بننے کا حق نہیں دیتے۔ یہ امتیاز کا قانون ہے۔ اس طرح آپ کی فقہ میں بہت سے ایسے احکام نکلیں گے جہاں آپ امتیاز کے قانون پر عمل کر رہے ہیں جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہے اور اس پر فوراً کہا جائے گا کہ آپ اس کو منسوخ کریں۔

ایک دوسری مثال لیں۔ عالمی قانون میں آزادی رائے اور تبدیلی مذہب کا حق ہر شخص کو حاصل ہے۔ ہر شخص کو کوئی بھی مذہب چھوڑنے یا اختیار کرنے کا اور کسی بھی قسم کی رائے ظاہر کرنے کا حق ہے۔ لیکن ہم نے توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون نافذ کر رکھا ہے جو رائے کی آزادی کے خلاف ہے۔ ہم نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے، ان کو مسجدیں نہیں بنانے دیتے، ان کو اسلامی اصطلاحات استعمال نہیں کرنے دیتے جو مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔

یا مثلاً بین الاقوامی قانون میں غلامی کی تمام صورتیں ممنوع ہیں۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ غلامی اسلام کی مطلوبہ چیزوں میں سے نہیں، اس لیے بین الاقوامی معاہدے کے تحت یہ ممنوع سہی، لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب ممنوع ہے اور آپ مانتے ہیں کہ غلامی درست نہیں تو پھر پڑھاتے کیوں ہیں؟ تعلیمی نصاب سے خارج کیوں نہیں کرتے؟ قرآن پاک سے وہ آیات اور حدیث وفقہ سے وہ ابواب خارج کیوں نہیں کرتے ؟

اسی طرح اس میں ایک دفعہ ہے کہ کوئی سزا ایسی نافذ نہیں کی جائے گی جس میں جسمانی تشدد یا ذہنی اذیت ہو یا جس میں توہین وتذلیل ہو۔ یعنی سزا کو تین چیزوں، جسمانی تشدد، ذہنی اذیت اور توہین وتذلیل سے خالی ہونا چاہیے۔ اب آپ کی کون سی سزا اس سے خالی ہے؟ آپ کی ساری حدود میں تشدد ہے، ہاتھ پاؤں کاٹنا، سنگسار کرنا، کوڑے مارنا، کھلے بندوں سزا دینا ہے جس میں توہین اور تذلیل ہے۔

گویا حدود کا نظام لے لیں، خاندانی نظام لے لیں، وراثت کا نظام لے لیں، نکاح وطلاق کا مسئلہ لے لیں، ہمارا کوئی بھی مسئلہ نہیں بچتا جس پر اعتراض نہ ہو۔ تو میرے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی ان تیس دفعات کو ہمارے ہاں نصاب میں پڑھایا جانا چاہیے، اس حوالے سے کہ آج کا مروجہ بین الاقوامی قانون کیا ہے، ہمارے قوانین کیا ہیں، ٹکراؤ کہاں ہے، ان کا موقف کیا ہے اور ہمارا موقف کیا ہے؟ ہمارے عالم دین کو پتہ تو ہونا چاہیے۔ جب کوئی اعتراض سامنے آئے تو وہ سمجھ تو سکے کہ اعتراض کیوں ہے؟ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ہم نے ان کی کون سی بات قبول کرنی ہے اور کون سی نہیں، لیکن کم ازکم ہمارے علما کو اس جھگڑے سے واقف تو ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں سرے سے اس کا کوئی پتہ نہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب بحث کو اپنے دائرے میں محدود رکھتے ہیں تو اپنے لوگوں کو تو مطمئن کر لیں گے لیکن جب بات جدید تعلیم یافتہ ماحول میں کریں گے تو ہماری بات سنی نہیں جائے گی کیونکہ ہماری بات ادھوری اور بے علمی پر مبنی ہوگی۔

تو فکری تربیت سے مراد یہ ہے کہ ہمارے علما کو یہ پتہ ہو کہ آج کا عالمی ماحول کیا ہے، ہماری کشمکش کس سے ہے، لڑائی کس سے ہے، اس کے مقابلے میں ہم نے کیا تیاری کی ہے؟ اس انداز سے ہم قرآن مجید کا مطالعہ کریں، احادیث کا مطالعہ کریں۔ سارا ذخیرہ موجود ہے۔ قرآن پاک میں ہر چیز موجود ہے، احادیث کے ذخیرے میں ہر بات کا جواب موجود ہے، البتہ فقہی کتابوں میں اس کی نئی تعبیرات کرنے کی ضرورت ہے، لیکن چونکہ ہماری اپنی اس انداز سے مطالعہ کرنے کی تربیت نہیں ہے، اس لیے آج کی اس فکری کشمکش میں ہم موثر طور پر حصہ لینے اور کوئی عملی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بھی پہلے بات اساتذہ کی آئے گی۔ استاد کو پتہ ہوگا تو وہ شاگرد کو بتائے گا۔ اگر اسے خود پتہ نہیں ہوگا تو شاگردوں کو کیا بتائے گا؟ میں نے وفاق والوں سے گزارش کی تھی کہ آج کے مغربی فلسفہ، عالمی کشمکش اور تہذیبی جنگ پر اساتذہ کے لیے بریفنگ کورس کا اہتمام کریں اور نصاب میں بھی ایسی چیزیں شامل کریں، خواہ وہ محاضرات کی شکل میں ہوں یا کسی کتاب کی صورت میں۔ ہمارے ہاں اس موضوع پر کام نہیں ہو رہا لیکن عرب دنیا میں کافی کام ہو رہا ہے۔ اس میں سے اچھا مواد مل جائے گا۔

اس کے بعد دوسرا مسئلہ ہے مسلکی تربیت کا۔ ہمارا مسلک کیا ہے اور دیوبندیت کیا ہے؟ یہاں میں تھوڑی سی گستاخی کروں گا جس کے لیے مجھے معاف کر دیں۔ میری عادت یہ ہے کہ جو بات سمجھ میں آتی ہے، کہہ دیا کرتا ہوں۔ اگر ناراض نہ ہوں تو ایک کہاوت عرض کرتا ہوں۔ کہتے کہ چار پانچ نابینا کہیں اکٹھے ہو گئے اور آپس میں باتیں کرنے لگے کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ طے یہ ہوا کہ اس کا فیصلہ ’مشاہدہ‘ کرنے کے بعد کیا جائے۔ اب وہ گئے اور جا کر ہاتھی کو ٹٹولنے لگے۔ دیکھا تو تھا نہیں، تو کسی کے ہاتھ کان پر آ گئے، کسی کے سونڈ پر اور کسی کے سینگ پر۔ اب وہ تبصرہ کر رہے ہیں کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے؟ ایک نے کہا کہ ہاتھی لمبا سا ہڈی کا سینگ ہوتا ہے۔ دوسرے نے کہا کہ نہیں وہ تو چھاج کی طرح لمبا اور چوڑا سا ہوتا ہے۔ تیسرے نے کہا کہ پانی کا ایک نل ہے جس کو ہاتھی کہتے ہیں۔ چوتھے نے کہا کہ چمڑے کے ایک بڑے سے ستون کو ہاتھی کہا جاتا ہے۔

ہمارا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہم میں سے جس شخص کو جس ماحول میں جس سے واسطہ پڑ جاتا ہے، ہماری دیوبندیت اسی تک محدود ہو جاتی ہے۔ ایک ماحول میں شیعہ سے واسطہ ہے تو دیوبندیت یہی ہے کہ ان کا مقابلہ کیا جائے۔ ہماری دیوبندیت اس دائرے میں بند ہو جاتی ہے۔ کہیں اہل حدیث سے سابقہ پیش آ جائے تو وہاں دیوبندیت صرف حنفیت کے دفاع میں محصور ہو جاتی ہے، باقی سارے تقاضے ختم ہو جاتے ہیں۔ کہیں بریلویوں سے لڑائی آ گئی ہے تو دیوبندیت اس دائرے میں بند ہو جاتی ہے۔ میں ان مسائل سے انکار نہیں کر رہا۔ یہ تمام شعبے ہیں۔ مجھے نہ حنفیت کے دفاع کی اہمیت سے انکار ہے، نہ بریلویت کے مقابلے سے اور نہ انکار حدیث اور شیعہ کا جواب دینے سے، لیکن یہ تمام جزوی شعبے ہیں۔ ہم ان الگ الگ شعبوں کی بات تو کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اہل السنت والجماعت کا جو اجتماعی دھارا چلا آ رہا ہے، اس کی بات ہم میں سے کوئی نہیں کرتا۔

قیام دیوبند کا اصل مقصد کیا تھا؟ جب انگریز یہاں آیا تھا اور اس کے ہاتھوں دین مٹ رہا تھا تو کچھ اللہ والوں نے اس تحریک کی بنیاد رکھی کہ دین کو جس حد تک ممکن ہو، بچا لیا جائے۔ مجموعی دین کو، ا س کے اجتماعی حصے کو اور سب شعبوں کو بھی۔ میرے نزدیک دیوبندیت تین چیزوں کا نام ہے۔ اگر دیوبندیت میں کسی کو معیار سمجھا جائے تو میرے نزدیک سب سے بڑا معیار شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں جن کو بطور نمونہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان میں وہ تینوں باتیں تھیں: علم بھی بدرجہ اتم، روحانیت بھی بدرجہ اتم، اور جہاد بھی بدرجہ اتم۔ گویا دیوبندیت یہ ہے کہ علم میں بھی کمال ہو، روحانیت میں بھی کمال ہو اور ملی غیرت اور جہاد کے جذبے میں بھی کمال ہو۔

دیوبندی مسلک کوئی نیا مسلک نہیں ہے۔ ہم عقائد کے لحاظ سے اہل سنت ہیں اور فقہی اعتبار سے حنفی ہیں۔ کوئی نیا تشخص ہم نے قائم نہیں کیا۔ ایک مدرسے کے ساتھ ہماری نسبت ہے، جس کے اجتماعی مقاصد کے حوالے سے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارے اکابر نے ضمنی طور پر سارے کام کیے۔ حضرت شیخ الہند کو لے لیں۔ کیا انہوں نے حنفیت کا دفاع نہیں کیا؟ ان کے اس پر رسالے موجود ہیں، لیکن اس حد تک جتنی ضرورت پڑی۔ حضرت مدنی رحمہ اللہ نے ’الشہاب الثاقب‘ لکھی، لیکن یہ کام ضرورت کی حد تک محدود رہا۔ ان کا اصل مقصد ملی وجود اور ملی مقاصد تھے۔ جہاں ضرورت پڑی، ضمنی اور فروعی مسائل سے بھی تعرض کیا، لیکن اس کے لیے اپنے آپ کو وقف نہیں کر دیا۔ میں بھی یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دیوبندیت سے مراد اگر ہم نے الگ الگ شعبے لے رکھے ہیں تو میں اس کو دیوبندیت نہیں سمجھتا۔ دیوبندیت نام ہے ملت کے اجتماعی دینی کام کا۔ جہاں کسی ضمنی کام کی ضرورت پڑتی ہے، وہاں وہ ضرور کیا جائے لیکن ہمارا اجتماعی اور مین دھارا یہ ہے کہ اس ملک میں، اس معاشرے میں دین کی اجتماعی حفاظت کی جائے اور نئی نسل تک دین صحیح حالت میں منتقل ہو۔ اجتماعی مقاصد اور ملی مقاصد کے حوالے سے ہم طلبہ کی تربیت کریں۔

ہمیں اس پہلو کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ فکری تربیت، ملکی مقاصد اور مسلک کے اصل اہداف کے حوالے سے ہمیں تھوڑا سا ماضی کی طرف پلٹ کر اپنے بزرگوں کو دیکھیں اور اس کے مطابق علمی کمال، روحانیت اور ملی غیرت وحمیت کی خصوصیات اپنے طلبہ میں پیدا کر کے اجتماعی مقاصد اور ضروریات کے لیے ان کو تیار کریں۔

باتیں تو میں اور بھی بہت سی کہنا چاہتا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وقت اس کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر کبھی موقع ملا تو ان شاء اللہ ان پر تفصیل سے بات ہوگی۔ اس وقت میں چاہوں گا کہ مولانا محمد بشیر صاحب سیالکوٹی آپ حضرات کے ساتھ عربی زبان کی تعلیم وتدریس کے جدید اسلوب اور اس کی اہمیت کے موضوع پر تفصیل کے ساتھ گفتگو فرمائیں، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter