دینی جدوجہد کے چند ضروری دائرے

   
تاریخ: 
۱۷ مئی ۲۰۲۱ء

(۱۷ مئی ۲۰۲۱ء کو جھاوریاں ضلع سرگودھا کے علماء کرام کے علاقائی اجتماع سے آن لائن خطاب)

بعد الحمد والصلوٰة ۔ مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ سرگودھا کے مختلف حلقوں کے دوست اور علماء کرام آج ایک جگہ جمع ہیں، یہ بڑی اچھی بات ہے، علماء کرام اور ہم خیال دوستوں کو وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی عنوان پر اور کسی نہ کسی بہانے اکٹھے بیٹھتے رہنا چاہئے، اس سے ایک تو لوگوں کو سہارا ہوتا ہے کہ علماء میں وحدت ہے، جبکہ آپس میں تبادلۂ خیالات، ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ بھی ہو جاتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کا یہ اجتماع قبول فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

  1. علماء کرام کی سب سے بڑی ذمہ داری جو فقہ کے دائرہ میں بیان کی جاتی ہے اور ہم تخصص فی الفقہ میں پڑھایا کرتے ہیں، یہ ہے کہ علماء کا اپنے زمانے کے ماحول اور حالات سے واقف ہونا بہت ضروری ہے، جس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ ’’من لم یعرف اھل زمانہ فھو جاھل‘‘ یعنی جو اپنے زمانے کے لوگوں اور ماحول کو نہیں جانتا وہ عالم نہیں ہے۔ میں اس پس منظر میں علماء کی ایک بڑی ذمہ داری یہ سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے ماحول سے واقفیت حاصل کریں۔ جبکہ ماحول اب مقامی نہیں رہا بلکہ عالمی اور گلوبل ہو گیا ہے، سب ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، خبریں، تاثرات اور جذبات آناً فاناً مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق تک پہنچ جاتے ہیں، ایک منٹ کہیں تو وہ بھی شاید دیر شمار ہو گا بلکہ ایک منٹ سے پہلے ہی بات اِدھر سے اُدھر پہنچ جاتی ہے۔ اس لیے اسلام، امت مسلمہ، اہلِ دین اور دینی طبقات کو جو مسائل درپیش ہیں اس حوالہ سے گلوبل ماحول سے واقف ہونا میرے نزدیک علماء کرام کی بہت بڑی ذمہ داری ہے تاکہ وہ اس کے مطابق اپنا طرز عمل اور ایجنڈا طے کر سکیں۔
  2. دوسری گزارش یہ ہے کہ یہ مسائل کے ہجوم کا دور ہے، ایک مسئلہ نمٹتا نہیں کہ دوسرا کھڑا ہو جاتا ہے، ایک بحران کو ہم سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ دوسرے بحران سے پالا پڑ جاتا ہے، اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آتا ہے کہ ایک دور میں فتنے ایسے کھڑے ہوں گے جیسے تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے اور ایک ایک کر کے دانے زمین پر گرنا شروع ہو جائیں، اسی طرح آج ہمیں ایک پر ایک، ہر تیسرے اور چوتھے دن کوئی نیا فتنہ، کوئی نئی آزمائش اور کوئی نیا مسئلہ مسلسل درپیش رہتا ہے۔ لہٰذا اس حوالہ سے ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ماحول میں جو دینی جدوجہد کے اہم تقاضے اور عنوانات ہیں ان کے پیش نظر گہری نگاہ رکھیں، ہر اٹھنے والے فتنے پر ہماری نظر ہو اور ہم اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
  3. تیسری گزارش یہ ہے کہ ان فتنوں کے دور میں ہمارے لیے ملجا و ماویٰ ہمیشہ قرآن و سنت، امت کا اجماعی تعامل اور اکابر و اسلاف کا طرز عمل رہا ہے، یہ ہماری ہمیشہ سے پناہ گاہ ہے، آج بھی پناہ گاہ یہی ہے کہ ہمارے بزرگ چودہ سو سال سے اجتماعی طور پر کیا کرتے آرہے ہیں۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ تلقین فرمایا کرتے تھے کہ جمہور اہل علم، یعنی اہل علم کی اکثریت ہر دور میں کچھ تقاضوں پر اور کچھ مسائل میں اکٹھے چلے آرہے ہیں، جمہور اہل علم کا دائرہ نہیں توڑنا، کیونکہ قرآن و سنت اور امت کے جمہور علماء کا تعامل ہی ہماری پناہ گاہ ہے۔
  4. چوتھے نمبر پر فتنوں کے مقابلہ کے حوالہ سے بات کرنا چاہوں گا، اس بابت ایک فارمولا عرض کیا کرتا ہوں، آپ کے بھی گوش گزار کر دیتا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ جو بھی فتنہ پیدا ہو اور جب بھی کوئی مسئلہ کھڑا ہو تو
    • اس کا پہلا دائرہ سوچنے کا ہوتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے اور اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے کیا ہونا چاہئے؟ لہٰذا ہمیں اپنے ذہن میں پہلا دائرہ یہی واضح کرنا چاہئے کہ ضرورت یہ ہے اور یہ ہونا چاہئے۔
    • دوسرا دائرہ یہ ہوتا ہے کہ کیا ہو سکتا ہے؟ ایک تو یہ ہے کہ کیا ہونا چاہئے، یہ الگ دائرہ ہے، درپیش حالات میں عملاً کیا ہو سکتا ہے، یہ دائرہ مختلف ہے، ہمیں یہ دائرہ بھی ذہن میں واضح کرنا چاہئے کہ عملًا ہو کیا سکتا ہے؟
    • اس کے بعد تیسرا دائرہ ہے کہ میں اس سلسلہ میں کیا کر سکتا ہوں؟ ضروری نہیں کہ جو ہونا چاہئے وہ ہو بھی سکتا ہو، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جو ہو سکتا ہے وہ میں بھی کر سکتا ہوں۔

    اس لیے ان دائروں کو ذہن میں واضح طور پر قائم کرنا چاہئے کہ کیا ہونا چاہئے، کیا ہو سکتا ہے، اپنی حدود میں رہتے ہوئے میں کیا کر سکتا ہوں، اور پھر جو میں کر سکتا ہوں اس سے مجھے گریز ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔

میں دینی تحریکات کے حوالہ سے ایک بات یہ بھی عرض کیا کرتا ہوں، آج پھر دُہرا دیتا ہوں کہ

  1. کسی بھی عالم دین کے لیے دینی جدوجہد سے لا تعلق رہنا گناہِ کبیرہ سے بھی اگر کوئی بڑی چیز ہو تو میرے نزدیک وہ ہے۔ بندہ بالکل ہی لا تعلق ہو جائے کہ ٹھیک ہے جو کچھ ہو رہا ہے ہوتا رہے، نہیں، دینی جدوجہد کے کسی نہ کسی شعبے سے ضرور متعلق ہونا چاہئے، خواہ دعوت کا شعبہ ہو، تحریک کا عمل ہو، ختم نبوت کا میدان ہو، دفاع صحابہؓ کی بات ہو، غرضیکہ کسی نہ کسی شعبے سے وابستہ ہونا از حد ضروری ہے، لا تعلق رہنے والوں کیلئے میرے نزدیک گناہِ کبیرہ بھی ہلکا لفظ ہے، دینی جدوجہد کے کسی نہ کسی پہلو سے تعلق ضرور ہونا چاہئے۔
  2. دوسری بات یہ کہ آدمی کا جہاں ذوق ہو کام وہیں کرنا چاہئے لیکن کسی دوسرے دینی کام کی نفی نہیں کرنی چاہئے۔ ظاہر بات ہے کہ کسی کا ذوق قادیانیوں کے مقابلے کا ہے، کسی کا دفاع صحابہؓ کا ہے، کسی کا نفاذ اسلام کی جدوجہد کا ہے، اور کسی کا دعوت و تبلیغ کا ہے، لہٰذا ہر ایک اپنے دائرے میں کام کرے اور جو جس مزاج کا ہے وہی کام کرے۔ ہم کام تب بگاڑ لیتے ہیں کہ جب ہم اپنے کام کو تو کام سمجھتے ہیں لیکن دوسرے کاموں پر طنز کرتے ہیں، ہماری مجلسوں میں ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور استہزا کیا جاتا ہے۔ دینی کے کسی کام کی نفی، تحقیر، استہزا اور طنز نہ کریں، اُس کام کو بھی دین کا کام سمجھیں اور احترام کی نگاہ سے دیکھیں۔ اس کے بعد کا مرحلہ یہ ہے کہ اگر کسی دوسرے شعبے میں کام کرنے والے سے ہم تعاون کر سکتے ہیں تو کرنا چاہئے، اگر نہیں کر سکتے تو خاموشی اختیار کرنی چاہئے۔

میں اس تناظر میں علماء کرام سے کرنٹ ایشوز (حالات حاضرہ) کے بارہ میں بات کرنا چاہوں گا:

  1. اس وقت ہمیں جو سب سے بڑا مرحلہ درپیش ہے وہ مسجد اقصیٰ کے حوالہ سے ہے، مسجد اقصٰی اور فلسطینیوں بھائیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ایک صدی سے ہوتی آرہی ہے، لیکن یہ نیا راؤنڈ اور نیا دور انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اس میں تکلیف دہ ہونے کا سب سے بڑا پہلو ہمارے مسلم حکمرانوں کی بے حسی ہے، سوائے ترک صدر طیب اردگان کے کوئی بھی مضبوطی سے بات نہیں کر پایا، اس پر بہت تکلیف ہوتی ہے، فلسطینیوں کی مظلومیت پر بھی تکلیف ہوتی ہے اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی اور بے پرواہی پر تو اس سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ ہمیں اس پر کم از کم آواز ضرور اٹھانی چاہئے، اپنی بات کہنی چاہئے، جذبات کا اظہار کرنا چاہئے، لوگوں کو آگاہ کرنا چاہئے اور اپنے فلسطینی مظلوم بھائیوں کے ساتھ ان کی مظلومیت میں اور مسجد اقصٰی کی حرمت و تقدس کے لیے جہاں تک آواز پہنچ سکتی ہے ہمیں اپنی آواز پہنچانی چاہئے۔
  2. اس کے بعد ہمیں فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں کے حوالہ سے ناموس رسالت کے تحفظ کا مسئلہ درپیش ہے، یہ فرانسیسی خاکوں اور یورپی یونین کی قرارداد کے حوالہ سے ہے، یہ مسئلہ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں ہے کہ یہ ہمارے ایمان اور عقیدے کا مسئلہ ہے۔ ناموس رسالت کے تحفظ کا مسئلہ ہو یا ختم نبوت کے تحفظ کی بات ہو، عالمی ادارے، لابیاں اور سیکولر عالمی اور قومی حلقے جس منظم طریقہ سے ان کے خلاف کام کر رہے ہیں ہمیں ان کے ادراک و احساس کی ضرورت ہے اور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
  3. اس کے ساتھ ہمیں اپنے ملک میں ایک اور مسئلہ درپیش ہے، یہ ان سے کم سنگین نہیں ہے کہ اوقاف کے نئے قوانین کے تحت، مسجد، مدرسہ اور اوقاف کی آزادی سلب کر لی گئی ہے۔ یعنی مسجد، مدرسہ اور اوقاف کو IMF اور FATF کی نگرانی میں دے دیا گیا ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی نئی شکل ہے۔ یہ انتہائی سنگین بات ہے، ہمیں اس پر مضبوط اسٹینڈ لینا ہو گا، ہم ملک کے کسی معاملہ میں غیر ملکی مداخلت کو قبول نہیں کر سکتے، خواہ وہ اسٹیٹ بینک کا مسئلہ ہو یا ملکی معیشت کی بات ہو، مذہبی آزادی پر اور مسجد اور مدرسے کی خود مختاری پر غیر ملکی اداروں کا کنٹرول تو ہمارے ایمان اور غیرت کا مسئلہ بھی ہے بلکہ یہ ہماری جان سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔

میں علماء کرام سے گزارش کروں گا کہ ان مسائل پر پہلے مرحلے میں اپنی آگاہی مکمل کریں، دوسرے مرحلے میں اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھیں اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں، یہ صرف علماء کے مسائل نہیں ہیں۔ میں کل سیالکوٹ میں تھا، وہاں بھی علماء سے یہی عرض کیا ہے کہ ہماری ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ ہم ہر مسئلے کو اپنے کھاتے میں ڈال لیتے ہیں کہ یہ صرف ہمارا کام ہے، بھئی! ہمارا کام تو ہے ہی، کیا تاجروں، وکیلوں اور صحافیوں کا کام نہیں ہے؟ ختم نبوت کا مسئلہ، مسجد کی آزادی کا مسئلہ، ناموس رسالت کا مسئلہ، فلسطین کا مسئلہ، کیا یہ صرف علماء کے مسائل ہیں؟ ہم نے ہر بات پر ایک تکنیک اختیار کر لی ہے کہ یہ علماء کرام کا مسئلہ ہے، نہیں! یہ صرف علماء کرام کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ باقی طبقات کو اپنے ساتھ شریک کرنا اور شریک رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔

آپ اگر تحریک نظام مصطفیؐ کے ماحول سے واقف بزرگوں سے پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفی جیسی تحریکات میں تمام طبقات شریک تھے، وکلاء، تاجر، صحافی، عام آدمی، علماء کرام، تمام مکاتب فکر کے لوگ اور تمام طبقات جس جدوجہد میں شریک ہوں گے وہی قومی جدوجہد کہلائے گی۔ یہ ہماری قومی ضروریات اور قومی تقاضے ہیں، میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ ان لائنوں پر اپنے علاقے میں جدوجہد کو منظم کریں، آگے اسی جدوجہد کا مرحلہ آرہا ہے اور میرے نزدیک تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفی طرز کی قومی جدوجہد کے بغیر غیر ملکی مداخلت، آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف کی غلامی اور یورپی یونین کی ہٹ دھرمی کا راستہ نہیں روکا جا سکتا، یہ ہماری ذمہ داری ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ جون ۲۰۲۱ء)
2016ء سے
Flag Counter