دفاعِ پاکستان اور تحفظِ ختمِ نبوت

   
تاریخ: 
۳ ستمبر ۲۰۲۲ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ۶ ستمبر یومِ دفاعِ پاکستان اور ۷ ستمبر یومِ تحفظِ ختمِ نبوت ہے، ان دونوں کے ساتھ ہماری تاریخ وابستہ ہے اور دینی و ملی روایات وابستہ ہیں، اس موقع پر تقریبات ہوتی ہیں، وطن کے شہداء اور ختم نبوت کے شہداء کو یاد کیا جاتا ہے، جن کی قربانیوں کی بدولت ہمارا ملک بھی محفوظ ہے اور عقیدہ بھی بحمد اللہ محفوظ ہے۔

۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اس کا ہدف لاہور پر قبضہ کرنا تھا۔ پاک فوج کے جوانوں نے بڑی قربانیوں کے ساتھ ملک کا دفاع کیا تھا بی آر بی نہر ہماری دفاعی لائن تھی۔ بڑی ہمت اور جرأت کے ساتھ فوجی جوانوں نے ملک کا دفاع کیا تھا اور پوری قوم ان کی پشت پر کھڑی تھی۔ اس وقت میری عمر ۱۷ سال تھی، میں روزنامہ وفاق کے نامہ نگار کے طور پر اس جنگ کا رپورٹر تھا۔ میں نے اس جنگ میں شہری دفاع کے رضاکار کے طور حصہ لیا اور اسے بطور صحافی رپورٹ بھی کیا۔ وہ مناظر مجھے یاد ہیں۔ چنانچہ اس موقع پر ہم شہدائے وطن کو یاد کر کے ان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، یہ ہمارے عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ جس طرح ہمارے فوجی جوانوں نے وطن کے لیے قربانیاں دی تھیں اور سرحد پر لڑائی کر کے اپنے وطن کا دفاع کیا تھا تو قوم ان کی پشت پر تھی، آئندہ بھی جب ضرورت پڑی اسی طرح پوری قوم متحد ہو کر فوج کی پشت پر کھڑے ہو کر ملک کا دفاع کرے گی۔

جبکہ ۷ ستمبر یوم تحفظ ختم نبوت ہے، اس دن تقریبا ۹۰ سال کی محنت کے بعد ہماری پارلیمنٹ، دستور اور اسٹیبلشمنٹ نے دینی حلقوں کا یہ موقف تسلیم کیا تھا کہ قادیانی نبوت کے دعوے کے ساتھ اور اپنے دیگر دعاوی کے ساتھ دائرہ اسلام سے خارج ہیں، اسلام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، قادیانیوں کو مسلمانوں کے ساتھ شمار نہ کیا جائے بلکہ جس طرح باقی غیر مسلم رہتے ہیں عیسائی، سکھ اور ہندو وغیرہ، ان کو بھی غیر مسلم اقلیتوں کے دائرے میں شمار کیا جائے۔ ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو پارلیمنٹ نے یہ جو فیصلہ کیا اس کے پیچھے بھی شہداء کی قربانیوں کی طویل تاریخ ہے۔

یہ ہماری ملی اور دینی جدوجہد کے دو بڑے دائرے ہیں، اس موقع پر ہم ملک کے دفاع کے لیے اور عقیدے کے تحفظ کے لیے اپنے عزم کی تجدید کرتے ہیں۔ میں ان دونوں حوالوں سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے چند واقعات عرض کرنا چاہوں گا کہ دفاعِ وطن اور دفاعِ عقیدہ کی اہمیت کیا ہے۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو انصارِ مدینہ کے خاندانوں میں ایک خاندان بنو سلمہ تھا۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ اسی خاندان میں سے تھے۔ بنو سلمہ مسجدِ نبوی سے کچھ فاصلے پر رہتے تھے۔ جب مسجد بن گئی تو نماز کیلئے مسجد میں انہیں دور سے آنا پڑتا تھا چنانچہ بنو سلمہ نے فیصلہ کیا کہ چونکہ ہر نماز کے لیے مسجد میں جانا ہوتا ہے اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ اپنے مکانات بیچ کر مسجدِ نبوی کے قریب جگہ خرید کر وہاں مکانات بنا لیتے ہیں اور اپنی آبادی مسجد کے قریب منتقل کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ ہر دیندار مسلمان کا جی چاہتا ہے کہ مسجد کے قریب گھر ہو تاکہ نمازوں کے لیے آسانی ہو اور برکات حاصل ہوں۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو سلمہ کے اس فیصلے کا پتہ چلا تو آپؐ نے انہیں منع فرما دیا کہ جتنی دور سے مسجد میں آتے ہو ثواب بھی اتنا ہی زیادہ ملتا ہے، جہاں سے چل کر آتے ہو، جتنے قدموں کے نشان زیادہ ہوں گے اتنی نیکیاں زیادہ ملیں گی۔ جب آدمی گھر سے وضو کر کے مسجد میں جاتا ہے تو اس کو ہر قدم پر ایک نیکی ملتی ہے، ایک گناہ معاف ہوتا ہے، ایک درجہ بلند ہوتا ہے۔ تو یہ آتے جاتے گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں، کیا یہ اچھی بات نہیں ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دیارکم تکتب آثارکم‘‘ کہ ادھر ہی اپنے گھروں میں رہو تمہارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں۔ اس لیے دور سے آتے جاتے ہوئے جو ثواب ملتا ہے تم کہیں اس ثواب سے محروم نہ ہو جاؤ۔

محدثین نے یہ حدیث بیان کر کے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جو منع فرمایا تھا اس کی ایک حکمت یہ بھی تھی ’’کراہیۃ ان یعروا المدینہ‘‘ کہ مدینہ کا وہ راستہ کہیں خالی نہ ہو جائے۔ بنو سلمہ کا قبیلہ مدینہ منورہ کے راستے پر تھا، یہ مدینہ کا قدرتی دفاع تھا، اگر یہ قبیلہ وہ علاقہ خالی کر کے مسجدِ نبوی کے قریب آ جاتا تو پورا علاقہ خالی ہو جاتا، یہ دفاعی حکمتِ عملی کے خلاف تھا۔ اس لیے حضورؐ نے ان کو منع فرما دیا کہ مدینہ کا وہ راستہ خالی نہ ہو جائے اور دشمن کے لیے حملہ کرنا آسان نہ ہو جائے۔ اس سے اندازہ کریں کہ وطن کے دفاع میں حضورؐ کی نظر کتنی ہمہ گیر تھی اور آپؐ کو کتنے معاملات کا لحاظ تھا، اس دفاعِ وطن کی حکمت کے تحت آنحضرتؐ نے بنو سلمہ کو مکانات بیچنے سے منع فرما دیا۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امام بھی تھے، کمانڈر اور غازی بھی تھے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک دفعہ مدینہ منورہ پر بنو غسان کے حملے کا خوف طاری تھا کہ نہ معلوم وہ کب حملہ کر دیں۔ اس زمانہ میں ابلاغ کے یہ ذرائع تو نہیں تھے جو آج ہیں۔ چنانچہ ایک رات کسی طرف سے شور کی آواز آئی تو لوگوں کو خطرہ ہوا کہ شاید حملہ ہو گیا ہے۔ شور کی آواز سن کر لوگ باہر نکلے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ ہم نے حالات معلوم کرنے کے لیے آپس میں علاقے تقسیم کیے کہ کچھ ساتھی ادھر جائیں اور کچھ دوسرے راستے پر، تاکہ دیکھیں کہ کیا ہوا ہے اور غسانی کدھر سے حملہ آور ہو رہے ہیں۔ ابھی ہم تیاری کر رہے تھے اور گروپ بندی ہو رہی تھی کہ سامنے سے جناب نبی کریمؐ گھوڑے کی ننگی پشت پر سوار چکر لگا کر واپس تشریف لا رہے تھے، آپؐ نے فرمایا کہ کوئی خطرہ نہیں ہے، میں ہر طرف دیکھ کر آیا ہوں۔ یہ دفاعِ وطن ہے۔ اس لیے وطن کے دفاع کا لحاظ کرنا وطن کا تقاضہ تو ہے ہی، دین کا تقاضہ بھی ہے اور جناب نبی کریمؐ کی سنتِ مبارکہ ہے۔

عقیدے کی حفاظت اور دفاع بھی ضروری ہے۔ اس پر حضورؐ کے دو واقعات عرض کرتا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر آپؐ تشریف فرما تھے کہ دو آدمی آئے اور کہا کہ ہم مسیلمہ کی طرف سے نمائندے ہیں۔ مسیلمہ یمامہ کے علاقے کا تھا، بنو حنیفہ کا سردار اور نبوت کا مدعی تھا، بڑا سردار تھا۔ اس کا مسلمانوں سے جو پہلا مقابلہ ہوا تو اس میں مسیلمہ کا لشکر ۸۰ ہزار بتایا جاتا ہے۔ مسیلمہ کا دعوی تھا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور میں بھی اللہ کا رسول ہوں۔ وہ حضور کے مقابلے پر نبوت کا دعویدار نہیں تھا بلکہ شراکت کا دعویدار تھا۔ اس کے دو نمائندے اس کا خط لے کر حضورؐ کی خدمت میں آئے۔ بخاری شریف میں خط کا متن موجود ہے۔ خط کا عنوان یہ تھا ’’من مسیلمۃ رسول اللہ الی محمد رسول اللہ‘‘ یعنی مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام۔ گویا وہ حضورؐ کو رسول مان کر اپنی رسالت کا مدعی تھا۔ اس نے خط میں لکھا ’’اشرکت معک فی الامر‘‘ کہ مجھے بھی نبوت میں آپ کے ساتھ شریک کیا گیا ہے لیکن قریشی نبوت پر کسی دوسرے کا حق تسلیم نہیں کرتے۔

مسیلمہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیشکش کی کہ مجھے اپنے بعد اپنا جانشین نامزد کر دیں یا علاقے تقسیم کر دیں کہ ’’لنا وبر ولک مدر‘‘ کچی اینٹیں ہماری اور پکی اینٹیں آپ کی، یعنی آپ شہری نبی اور میں دیہاتی نبی ہوں گا۔ حضورؐ نے اس کے نمائندوں سے پوچھا ’’اتشھدان انی رسول اللہ‘‘ مجھے اللہ کا رسول مانتے ہو؟ انہوں نے کہا ’’نشہد انک رسول اللہ‘‘ ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے ہیں۔ پھر آپؐ نے پوچھا ’’اتشھدان ان مسیلمۃ رسول اللہ‘‘ مسیلمہ کو بھی رسول مانتے ہو؟ انہوں نے کہا اسے بھی رسول مانتے ہیں اس پر حضور نے فرمایا ’’لو لا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما‘‘ تم مجھے بھی رسول مانتے ہو اور مسیلمہ کو بھی رسول مانتے ہو اس کی سزا موت ہے، لیکن چونکہ تم سفیر ہوں اور سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا اس لیے میں تمہیں چھوڑتا ہوں، ورنہ میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔ سفارتی آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے آپؐ نے ان کو چھوڑ دیا، البتہ ان کی بات کا سختی سے جواب دیا کہ ختم نبوت کا معاملہ اتنا کمزور نہیں ہے۔

دوسرا واقعہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ہی مروی ہے۔ امام بیہقیؒ نے السنن الکبری میں یہ روایت ذکر کی ہے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کوفہ کے قاضی تھے۔ ایک دن کوفہ کے بازار میں جا رہے تھے کہ ایک آدمی پر نظر پڑی، اسے بلا کر پوچھا کہ تمہیں کہیں دیکھا ہے اور کہا کہ مجھے شک ہے کہ وہ جو دو آدمی مسیلمہ کا خط لے کر حضورؐ کے پاس آئے تھے ان میں سے ایک تم بھی تھے۔ اس نے کہا آپ نے ٹھیک پہچانا ہے میں وہی ہوں۔ حضرت ابن مسعودؓ نے اس سے پوچھا کہ اب بھی تمہارا عقیدہ وہی ہے؟ اس نے کہا وہی ہے۔ حضرت محمدؐ کو اللہ کا رسول مانتے ہو؟ اس نے کہا مانتا ہوں۔ مسیلمہ کو بھی اللہ کا رسول مانتے ہو؟ اس نے کہا مانتا ہوں۔ آپؓ نے اس سے پوچھا کہ اب سفیر تو نہیں ہو؟ اس نے کہا نہیں! حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اسے گرفتار کر کے اس کی رپورٹ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفانؓ کی خدمت میں بھیجی کہ مسیلمہ کے ساتھیوں میں سے ایک آدمی چھپا ہوا تھا وہ ملا ہے، اس کو گرفتار کیا ہے، اس کا کیا کرنا ہے؟ حضرت عثمان بن عفانؓ نے جواب دیا کہ جو مرتد کے ساتھ کیا جاتا ہے، وہی کرنا ہے۔ مرتد کے احکام میں سے یہ ہے کہ اسے مہلت دو، موقع دو۔ اگر سمجھانے بجھانے کے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد بھی اسلام کو نہ مانے تو اسے موت کے گھاٹ اتار دو۔ چنانچہ حضرت ابن مسعودؓ نے بھی ایسے ہی کیا، اسے مہلت دی، سمجھایا بجھایا، اور اس کے نہ ماننے پر قتل کروا دیا۔ یہ عقیدے کے دفاع پر حضرت عثمانؓ کے دور کا واقعہ ہے کہ عقیدے کا دفاع بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا وطن کا دفاع، بلکہ وطن کے دفاع سے کئی گنا زیادہ عقیدے اور دین کا دفاع ضروری ہے۔

اسی حوالے سے دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک موقع پر مسیلمہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ میں ایک بڑا جرگہ لے کر آیا۔ حضورؐ سے ملاقات کے لیے پیغام بھیجا، آپؐ تشریف لائے۔ یہ بھی سیرت کا ایک بڑا اہم پہلو ہے۔ مسیلمہ کا کمال یہ تھا کہ وہ بہت بڑا خطیب تھا، اسی لیے تو ۸۰ ہزار کا لشکر لڑنے کے لیے تیار کر لیا تھا۔ اس سے مذاکرات کے لیے حضورؐ اپنے خطیب ثابت بن قیسؓ کو ساتھ لے کر گئے۔ یہ حضورؐ کی ڈپلومیسی اور حکمت ہے کہ خطیب کے مقابلے میں خطیب کو ساتھ لے کر گئے۔ حضرت ثابت بن قیسؓ خطیب الاسلام اور خطیب الانصار تھے۔ صحابہؓ میں سب سے بڑے خطیب تھے، انہیں خطیبِ رسول اللہ کہا جاتا تھا۔ حضورؐ نے مسیلمہ سے ملاقات کی اور کھڑے کھڑے اس سے پوچھا کیسے آنا ہوا؟ اس نے کہا آپ سے ملاقات کرنے اور بات کرنے کے لیے آیا ہوں۔ آپ بھی نبی ہیں، میں بھی نبی ہوں، میرے ساتھ معاملات طے کریں، یعنی میں ’’بارگیننگ‘‘ کے لیے آیا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھ سے جانشینی اور نبوت کا حصہ مانگ رہے ہو۔ آپؐ نے زمین سے ایک خشک لکڑی اٹھائی اور فرمایا کہ اگر تم مجھ سے یہ خشک لکڑی بھی مانگو گے تو نہیں دوں گا۔ اور اس سے فرمایا کہ تم اپنے دائرے میں رہو ’’لا تعدو قدرک‘‘ اپنی اوقات میں رہو اگر تم حد سے بڑھے تو اللہ تمہاری ٹانگیں کاٹ دے گا۔ جاؤ میرے پاس تمہارے لیے کچھ نہیں ہے۔ باقی باتیں میرے خطیب سے کرو، میں جا رہا ہوں۔ میں نے تمہیں دو ٹوک جواب دے دیا ہے۔ چنانچہ آپؐ نے مسیلمہ کے پاس ثابت بن قیسؓ کو چھوڑا کہ باقی باتیں تم سے یہ کریں گے اور یہ کہہ کر آپؐ واپس تشریف لے گئے۔

وہ دفاعِ وطن تھا اور یہ دفاعِ عقیدہ تھا۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کا لحاظ رکھا ہے اور دونوں کے بارے میں آپؐ کی سنت مبارکہ یہ ہے۔ اللہ تعالی ہمیں حضورؐ کی سنتِ مبارکہ اور صحابہ کرامؓ کی سنت پر چلتے ہوئے وطن کے دفاع میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائیں اور عقیدے کے دفاع میں بھی حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائیں۔ وطن کا دفاع ضروری ہے اور عقیدہ کا دفاع اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ اللہ تعالی ہمیں استقامت نصیب فرمائیں اور کامیابیاں عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter