دعوتِ دین کے تقاضے اور داعی کی صفات

   
حوالہ: 
تاریخ: 
۷ ستمبر ۲۰۲۲ء

میسج ٹی وی پر نشر کی جانے والی ایک گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

میسج ٹی وی کا شکرگزار ہوں کہ ایک اہم موضوع پر، جو وقت کی ضرورت ہے، گفتگو کرنے کا موقع فراہم کیا۔ داعی کی صفات کیا ہونی چاہئیں اور دعوت کے تقاضے کیا ہیں؟ اس پر بات کرنے سے پہلے بطور تمہید عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک طرف دعوت ہے اور ایک طرف دفاع ہے۔ دعوت کا اپنا دائرہ ہے، دفاع کا اپنا دائرہ ہے۔ دعوت کے تقاضے اور طریقہ کار مختلف ہوتا ہے اور دفاع کے تقاضے اور طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے ان کو خلط ملط نہیں ہونا چاہیے۔ جیسے کسی بھی ملک کا ایک سفارتی دائرہ ہوتا ہے جو دوسرے ملکوں سے تعلقات بنانے کا اور اپنا پیغام پہنچانے کا دائرہ ہوتا ہے، اسی طرح ایک دفاع کا دائرہ ہوتا ہے ملک کے لیے لڑنے کا اور ملک کی حفاظت کرنے کا۔ سفارت بھی ملک کی ضرورت ہے اور دفاع بھی ملک کی ضرورت ہے۔ سفیر کی زبان و لہجہ اور ہوتے ہیں جرنیل کی زبان و لہجہ اور ہوتے ہیں۔ سفیر کی سرگرمیاں جرنیل کی سرگرمیوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن دونوں ملک کی ضرورت ہیں۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اگر سفیر جرنیل کا لہجہ اختیار کرے گا تو سفارت کی میز پر ہار جائے گا، اور اگر جرنیل سفیر کا لہجہ اختیار کرے گا تو میدان کی جنگ ہار جائے گا۔ ہر ایک کے اپنے تقاضے ہیں۔

اسی طرح ایک ہے دین کی دعوت، دین کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا، اس کو آپ سفارتکاری سمجھ لیجئے، اور دوسری چیز ہے دین کا دفاع کہ جہاں جہاں سے دین کو خطرہ ہے وہاں دین کے دفاع کی صورت اختیار کرنا۔ یہ دونوں دین کی ضروریات ہیں، داعی بھی دین کی ضرورت ہے اور دفاع کرنے والا بھی دین کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ ایک دوسرے کے تقاضوں کو سمجھا جائے، خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ داعی سے یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ جرنیل کا لہجہ اختیار کرے، اور جرنیل سے یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ داعی کا دائرہ اختیار کرے۔ دونوں کے اپنے اپنے کام ہیں۔ البتہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہونا چاہیے، اصل میں ہم یہاں گڑبڑ کر جاتے ہیں کہ دعوت اور دفاع کے تقاضوں کو خلط ملط کر دیتے ہیں اور ایک دوسرے پر اعتراضات شروع کر دیتے ہیں۔

اس تمہید کے بعد یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ دعوت کے تقاضے کیا ہیں اور داعی کی صفات کیا ہونی چاہییں؟ اس پر قرآن کریم کی مختلف آیات اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث ہیں۔ میں قرآن کریم میں سے دو مقامات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔ قرآن کریم نے ایک آیتِ مبارکہ میں دعوت کے تقاضے بیان کیے ہیں اور ایک مقام پر داعی کی صفات بیان کی ہیں، ان دونوں کا حوالہ دینا چاہوں گا۔

اللہ رب العزت نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا: ’’ادع الٰی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتی ھی احسن ان ربک ھو اعلم بمن ضل عن سبیلہ وھو اعلم بالمھتدین‘‘۔ اس آیت کریمہ میں دعوت کے چار تقاضے قرآن کریم نے بیان کیے ہیں۔

  1. پہلے دعوت دینے کا حکم دیا ہے ’’ادع الیٰ سبیل ربک‘‘۔ پھر دعوت کے تقاضوں میں پہلی چیز ذکر کی ’’بالحکمۃ‘‘ کہ حکمت کے ساتھ دعوت دو۔ حکمت سے مراد ہے کہ موقع محل کے مطابق دیکھنا کہ کس طرح کی گفتگو کی ضرورت ہے، حکمت کسی متعین چیز کا نام نہیں ہے بلکہ موقع محل اور ماحول کو دیکھ کر فیصلہ کرنا کہ اس ماحول میں مجھے کس انداز میں بات کرنی چاہیے۔ داعی کے لیے دعوت کے ماحول کو سمجھنا، ماحول کے تقاضوں کا ادراک کرنا، اور اسے سامنے رکھ کر اپنی گفتگو کا لہجہ اختیار کرنا ’’حکمت‘‘ ہے۔ موقع محل کے مطابق طریقہ کار اختیار کرنا حکمت ہے۔ تو پہلی بات یہ کہ دعوت ماحول کو دیکھ کر دی جائے کہ یہاں کس لہجے میں بات کرنی چاہیے، اس کو اختیار کیا جائے۔ اگر آپ تاجروں میں بات کر رہے ہیں تو اور لہجے میں بات کریں گے، وکیلوں سے بات کر رہے ہیں تو اور لہجے میں بات کریں گے، طلبہ سے بات کر رہے ہیں تو اور لہجے میں بات کریں گے، اساتذہ میں بات کر رہے ہیں تو اور لہجے میں بات کریں گے، اور اگر سیاستدانوں میں بات کر رہے ہیں تو اور لہجے میں بات کریں گے۔

    اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قریش کے سرداروں نے، جن میں ابوجہل بھی تھا، پوچھا کہ آپؐ جو کہہ رہے ہیں وہ کیا ہے؟ یعنی آپؐ سے دین کے بارے میں دریافت کیا۔ تو چونکہ یہ چودھری قسم کے لوگ تھے ، ابوجہل سردار تھا، ان کی نفسیات دیکھ کر حضورؐ نے اسے جواب دیا کہ جو کلمہ میں تمہیں بتا رہا ہوں اگر تم اسے قبول کر لو گے تو عرب کی بادشاہت تمہاری ہوگی اور عجمی بھی تمہارے تابع ہوں گے۔ اب بظاہر دین کی دعوت سے عرب کی بادشاہت کا کیا تعلق ہے اور عجم کے تابع ہونے کا کیا تعلق ہے؟ لیکن آپؐ نے مخاطب کی نفسیات دیکھیں کہ وہ چوہدری ہے، سردار ہے، بڑا آدمی ہے، اس کو یہی زبان سمجھ آئے گی۔ ایک چوہدری اور سیاستدان کو حضورؐ دین کی دعوت دے رہے ہیں تو اس کی نفسیات اور اس کی سائیکالوجی کے مطابق بات فرما رہے ہیں۔ اسی کا نام حکمت ہے کہ جس کو دعوت دے رہے ہیں اس کی نفسیات کو سمجھیں، اس کے ماحول کو سمجھیں اور موقع محل دیکھیں کہ میں نے کیسے بات کرنی ہے؟ تو دعوت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ دین کی دعوت حکمت کے ساتھ دی جائے۔ آج کی زبان میں اسے فریکوینسی سیٹ کرنا کہا جاتا ہے، پیغام اور میسج ڈیلیور کرنے کے لیے فریکوینسی سیٹ ہونی چاہیے، داعی جہاں بھی جائے اسے وہاں کے تقاضوں اور ماحول کا لحاظ رکھنا ہوگا اور ماحول کے تقاضوں کے مطابق بات کرنا ہوگی۔ ماحول سے لڑ کر کیسے اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے؟ داعی اس ماحول کو سمجھے گا اور اس کے تقاضوں کے مطابق بات کرے گا، حکمت اسی کا نام ہے کہ داعی ماحول کو دیکھے اور غور کرے کہ میری بات کس لہجے میں اور کیسے مخاطب کو سمجھ میں آئے گی، یہ داعی کی اپنی حکمت ہے کہ وہ موقع محل دیکھے اور جس بات کی ضرورت ہو، اس کے مطابق بات کرے، اس کو عقل و دانش استعمال کرتے ہوئے موقع محل کا صحیح ادراک کر کے بات کرنی چاہیے۔

  2. دوسری بات یہ ارشاد فرمائی ’’الموعظۃ الحسنۃ‘‘ کہ دعوت دیتے وقت لہجہ وعظ و نصیحت کا ہو، لڑائی جھگڑے کا نہ ہو، آپ نے دعوت دینی ہے تو نصیحت اور خیر خواہی کے لہجے میں دیں۔ ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اس کی تلقین کیا کرتے تھے اور بات یوں سمجھاتے تھے کہ جس سے آپ بات کر رہے ہیں اگر اسے اندازہ ہو کہ یہ میری خیرخواہی میں بات کر رہا ہے تو وہ تمہاری سخت بات بھی سنے گا کہ یہ میرا ہمدرد ہے اور خیرخواہی کر رہا ہے۔ لیکن اگر اس کو یہ اندازہ ہو جائے کہ یہ میرا مقابلہ کر رہا ہے اور میری کسی بات کا رد کر رہا ہے تو وہ اچھی بات بھی نہیں سنے گا۔ ’’الموعظ الحسنۃ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ جسے آپ دعوت دے رہے ہیں اس کو یہ اندازہ ہو جائے کہ یہ میرا ہمدرد ہے اور میری خیرخواہی کر رہا ہے۔ یہ دعوت کا دوسرا تقاضا ہے۔ حکمت کے ساتھ دعوت دی جائے اور خیر خواہی کے لہجے کے ساتھ دعوت دی جائے۔
  3. تیسری بات قرآن کریم نے یہ ذکر کی ’’جادلھم بالتی ھی احسن‘‘۔ گفتگو میں کبھی بحث بھی ہو جاتی ہے، دعوت میں کبھی سوال ہو گا اور اشکال ہوگا۔ کسی سوال کا جواب دینے، اشکال کا حل پیش کرنے، الجھن یا کنفیوژن دور کرنے کے لیے احسن طریقہ اختیار کیا جائے اور مکالمہ و مجادلہ بہترین طریقے سے کیا جائے، یہ تیسرا دائرہ بیان کیا کہ اگر مجادلہ کی ضرورت پیش آئے تو احسن طریقے سے اور خوبصورت لہجے میں مخاطب کے اشکال کا جواب دو اور اسے سمجھاؤ۔
  4. چوتھی بات یہ ارشاد فرمائی ‘‘ان ربک ھو اعلم بمن ضل عن سبیلہ وھو اعلم بالمھتدین‘‘۔ اس میں اشارہ کیا کہ ہدایت دینا تمہارا کام نہیں بلکہ اللہ کا کام ہے۔ ’’انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہدایت دینا میرا کام ہے تمہارا کام البلاغ ہے۔ قرآن کریم نے داعی کے ذمے دو باتیں لگائی ہیں: البلاغ اور المبین۔ البلاغ کا معنی ہے بات کا پہنچا دینا اور المبین کا معنی ہے سمجھا دینا۔ داعی کے ذمے یہ دو ہی کام ہیں کہ بات صحیح طریقے سے پوری پوری پہنچا دے، بات ادھوری اور نامکمل نہ ہو۔ اور المبین یعنی بات سمجھا دینا کہ مخاطب کے ذہن میں بات اتر جائے، ہدایت دینا داعی کے ذمے نہیں ہے۔جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’افانت تکرہ الناس حتیٰ یکونوا مومنین‘‘ کیا آپ لوگوں کو مومن بنانے کے لیے جبر کریں گے؟ نہیں! جبر کا لہجہ نہیں ہونا چاہیے، افہام تفہیم کا لہجہ ہونا چاہیے۔

دعوت کے یہ چار تقاضے قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں بیان کیے ہیں، ایک یہ کہ حکمت سے دعوت دیں، دوسرا خیرخواہی کے لہجے میں بات کریں، تیسرا اگر مجادلہ اور مکالمہ کی ضرورت ہو تو اچھے لہجے میں گفتگو کریں، اور چوتھا یہ کہ جبر نہ کریں۔

داعی کی صفات کیا ہونی چاہئیں؟ سورۃ الغاشیۃ کے آخر میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ’’افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت۔ والی الاسماء کیف رفعت۔ والی الجبال کیف نصبت۔ والی الارض کیف سطحت۔ فذکر انما انت مذکر‘‘۔ یہاں ایک علمی سوال ہے کہ اللہ رب العزت فرما رہے ہیں کہ کیا وہ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کیا گیا ہے؟ اور آسمان کی طرف نہیں دیکھتے کہ کتنا بلند ہے؟ اور پہاڑ کیسے گاڑ دیے گئے ہیں؟ اور زمین کیسے بچھا دی گئی ہے؟ تو تم نصیحت کرو، تم تو نصیحت کرنے والے ہی ہو۔ ’’فذکر‘‘ کی ف تعقیب اور نتیجے کے لیے ہے، گویا فرمایا گیا کہ ان چیزوں کو دیکھیں پھر لوگوں کو دعوت دیں اور نصیحت کریں، آپ تو بس داعی ہیں۔

یہاں حافظ ابن کثیرؒ نے بڑی خوبصورت بات کی ہے کہ ان چار باتوں کے بعد ’’فذکر‘‘ کا کیا تعلق ہے کہ یہ چار چیزیں دیکھو اور نصیحت کرو۔ وہ فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے ان چار چیزوں کا حوالہ دے کر داعی کی صفات بیان کی ہیں کہ داعی میں کیا خوبیاں ہونی چاہئیں۔ یہ چار چیزیں ذکر کر کے داعی کو بتایا کہ تمہارے اندر یہ خوبیاں ہونی چاہئیں۔

  1. پہلی چیز یہ فرمائی ’’افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت‘‘ کہ اونٹ کو دیکھو، وہ بڑا صابر جانور ہے، تین چار دن تک بھوکا رہ لیتا ہے، مسلسل چل سکتا ہے، اور کئی کئی دن پیاس برداشت کر سکتا ہے۔ اونٹ سب سے زیادہ صابر اور مشقت والا جانور ہے، داعی کو اونٹ کی طرح صابر اور حوصلے والا ہونا چاہیے۔
  2. اس کے بعد فرمایا ’’و الی السماء کیف رفعت‘‘ آسمان کی طرف دیکھو، داعی کا عزم آسمان کی طرح بلند ہونا چاہیے، داعی کا عزم کسی دائرے اور کسی سطح پر محدود نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اسلام پوری نسل انسانی کے لیے ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب پوری نسلِ انسانی کو ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا‘‘۔ داعی کے عزم میں آسمان جیسی بلندی ہونی چاہیے کہ پوری نسل داعی کا ہدف ہو۔ کسی طبقے، کسی گروہ، کسی فرقے اور کسی ایک نسل کو سامنے رکھ کر نہیں بلکہ پوری نسل انسانی کو سامنے رکھ کر دعوت دے۔ اسے حافظ ابن کثیرؒ تعبیر کرتے ہیں کہ داعی اپنا عزم آسمان کی طرح بلند رکھے۔
  3. تیسری بات یہ ذکر فرمائی ’’و الی الجبال کیف نصبت‘‘ داعی میں پہاڑ کی طرح مضبوطی ہونی چاہیے، اپنی جگہ سے ہلنا نہیں چاہیے، آندھیاں آتی ہیں، طوفان آتے ہیں، سیلاب آتے ہیں لیکن پہاڑ اپنی جگہ پر رہتا ہے۔ اسی طرح داعی کو اپنے مشن، اپنے پروگرام اور اپنے ایجنڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، اسے پہاڑ کی طرح جما رہنا چاہیے۔
  4. چوتھی چیز یہ ذکر فرمائی ’’و الی الارض کیف سطحت‘‘ کہ داعی میں زمین کی طرح عاجزی اور خضوع ہونا چاہیے، دیکھیں ہم زمین کے ساتھ کیا کچھ نہیں کرتے، اس کے باوجود زمین ہمیں کیا کچھ نہیں دیتی؟ ذرا اس بات پر غور کریں کہ ہم زمین کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں لیکن زمین سے زیادہ کوئی عاجز نہیں ہے کہ جو ہمیں پانی بھی دیتی ہے، خوراک بھی دیتی ہے، اپنے اوپر بھی جگہ دیتی ہے، اپنے اندر بھی جگہ دیتی ہے، معدنیات بھی دیتی ہے، اس نے ہمارے لیے خزانے چھپا کر رکھے ہوئے ہیں۔ زمین سے زیادہ خدمت گزار اور زمین سے زیادہ عاجز کوئی مخلوق ہے؟ تو جیسے زمین بچھی ہوئی ہے اسی طرح داعی کو بھی خدمت گزار ہونا چاہیے۔

اللہ رب العزت نے ان آیات میں داعی کی صفات بیان کی ہیں کہ داعی کو اونٹ کی طرف صابر ہونا چاہیے، آسمان کی طرح بلند عزم والا ہونا چاہیے، پہاڑ کی طرح مستقل مزاج ہونا چاہیے، اور زمین کی طرح عاجز اور خدمت گزار ہونا چاہیے۔ آخری بات یہ کہ اگر داعی سے کہیں کوئی خطا ہو جائے تو اسے توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے، محاذ آرائی اور مورچہ بندی کی نہیں کہ وہ دعوت کے تقاضوں کے بالکل منافی ہے۔

آخر میں سوشل میڈیا سے متعلق ایک بات کرنا چاہوں گا کہ اگر کوئی اچھا ذریعہ ہاتھ میں آجائے تو اسے ضرورت کے مطابق صحیح طریقے سے استعمال کرنا چاہیے، میرے ہاتھ میں کوئی چیز آ گئی ہے تو یہ نہیں کہ میں جہاں چاہوں، جیسے چاہوں اس کو استعمال کروں، بلکہ حد بندی، توازن، اعتدال رکھنا چاہیے اور اس کے اثرات بھی دیکھنے چاہئیں کہ میں جو بات کہنے لگا ہوں اس کا اثر کیا ہوگا؟ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہوا، اللہ تعالیٰ نے خواب میں بتا دیا کہ یہ ہوا ہے۔ حضورؐ بتائے ہوئے مقام پر تشریف لے گئے اور سارا کچھ واضح ہو گیا، بال بھی پکڑے گئے، کنگھی بھی پکڑی گئی، ملزم بھی متعین ہو گیا۔ حضرت عائشہؓ نے سوال کیا یا رسول اللہ! وہ بال اور کنگھی کدھر ہیں جو آپ نے برآمد کی ہے؟ آپؐ نے فرمایا وہ دفن کر آیا ہوں، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللّٰہ! ’’افلا نشرت‘‘ آپ نے اس کو نشر کیوں نہیں کیا؟ لوگوں کو دکھایا کیوں نہیں؟ حضورؐ نے فرمایا عائشہؓ! اللہ تعالیٰ نے مجھے بچا لیا ہے تو میں لوگوں میں شر کیوں پھیلاؤں؟ میرے ساتھ معاملہ ہوا تھا، اللہ تعالیٰ نے مجھے مطلع کر کے مجھے اس سے بچا لیا تو میں اسے عام کر کے لوگوں میں شر نہیں پھیلاؤں گا۔

سوشل میڈیا کا یہ مطلب نہیں کہ جو بات ہم چاہیں جب چاہیں جیسے چاہیں پھیلا دیں بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اس خبر کا ردعمل کیا ہوگا، اس کے اثرات کیا ہوں گے؟، خبر میں دو اصولی باتیں یاد رکھنی چاہئیں: ایک یہ تحقیق کی جائے کہ خبر ٹھیک ہے یا نہیں ’’فتبینوا ان تصیبوا قوما بجھالۃ‘‘۔ دوسرا یہ کہ خبر ٹھیک ہونے کے باوجود یہ دیکھنا کہ اس کا ری ایکشن منفی تو نہیں ہو گا، اس سے معاشرے میں شر تو نہیں پیدا ہوگا۔ خبر ٹھیک ہے لیکن ردعمل منفی ہوگا تو حضورؐ نے فرمایا میں اسے نشر نہیں کروں گا۔ چنانچہ یہ دونوں باتیں سامنے رکھ کر ہمیں میڈیا پر بات کرنی چاہیے، خواہ مخواہ غلط استعمال کر کے ہمیں اپنے گناہوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔

2016ء سے
Flag Counter