سر سید احمد خان اور قائد اعظم کے کیمپ سے ایک گزارش

   
تاریخ: 
۲۳ نومبر ۲۰۲۲ء

(قائد اعظم ایجوکیشنل کمپلیکس ساہیوال میں اساتذہ کی ایک نشست سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ محترم اساتذہ کرام اور قابل صد احترام شرکائے محفل! سب سے پہلے اس تعلیمی ادارہ کے منتظمین کا شکریہ ادا کروں گا جو قائد اعظم ایجوکیشنل کمپلیکس ساہیوال کے نام سے موسوم ہے کہ مجھے آپ حضرات سے ملاقات اور گفتگو کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمارا مل بیٹھنا قبول فرمائیں اور مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق عطا فرمائیں۔

اس کے بعد دو باتوں پر خوشی کا اظہار کرنا چاہوں گا: ایک تو یہ کہ ایجوکیشن کے ماحول میں بیٹھا ہوں، میرا خود ایجوکیشن سے تعلق ہے، ۱۹۷۰ء سے میں نے استاد کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا تھا، دائرہ مختلف ہے لیکن ایجوکیشن کا دائرہ ہی ہے۔ تب سے الحمدللہ مسلسل پڑھا رہا ہوں۔ آج بھی صبح درس دے کر آیا ہوں۔ آدمی اپنے ماحول اور ساتھیوں میں کھڑا ہو تو خوشی ہوتی ہے۔ دوسرے اس بات پر خوشی کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ یہ تعلیمی ماحول اور نیٹ ورک قائد اعظم مرحوم و مغفور کے نام پر ہے، مجھے اس پر بہت خوشی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے بڑوں کو بھولے نہیں ہیں۔ عام طور پر ہمارا مزاج بھولنے کا بن گیا ہے، بلکہ ہمارا یہ مزاج بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہم اپنے بڑوں کو بھولے نہیں ہیں، اور یہ خوشی کی بات ہے کہ ہم اپنے بڑوں سے نسبت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

قائد اعظم ہمارے قومی لیڈر اور ہمارے محسن تھے، آپ پاکستان کے بانی ہیں، پاکستان کے لیے ان کی خدمات ہیں۔ آج مجھے کہا گیا کہ اس وقت ملتِ اسلامیہ کو جو چیلنجز درپیش ہیں اور مسلم دنیا کو جس صورتحال کا سامنا ہے اس پر بات کروں تو میرا جی چاہ رہا ہے کہ قائد اعظم کے حوالے سے ہی بات کروں۔

قائد اعظم جب انگلستان سے تعلیم حاصل کر کے ہندوستان واپس آئے تو انہیں جن مسائل کا سامنا تھا، کم و بیش ہمیں بھی آج انہی مسائل کا سامنا ہے۔ اور جس طریقے سے انہوں نے ان مسائل کا سامنا کیا تھا، میرا نقطہ نظر ہے کہ آج ہمیں بھی اسی انداز سے ڈیل کرنا چاہیے، اس میں ہمارے لیے رہنمائی موجود ہے۔ میں اگرچہ دوسرے کیمپ کا آدمی سمجھا جاتا ہوں لیکن جس کیمپ کی بات کر رہا ہوں اس نے جس طرح ڈیل کیا تھا ہمیں بھی ویسے ہی ڈیل کرنا چاہیے۔ برصغیر کے برطانوی قبضہ میں آجانے کے بعد پیش آنے والے مسائل کے حوالے سے سر سید احمد خان، جسٹس امیر علی، علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم رحمہم اللہ تعالیٰ کا ایک فکری، نظریاتی اور تہذیبی کیمپ ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آج ہم پھر استعماری قبضے میں ہیں۔ اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضہ میں تھے، آج آئی ایم ایف وغیرہ کے قبضے میں ہیں۔ شاہ عالم ثانی کا وائسرائے ہند کے ساتھ معاہدہ پڑھ لیں جس کے نتیجے میں دہلی کا مالیاتی کنٹرول ایسٹ انڈیا کمپنی نے سنبھال لیا تھا، اور ہمارا آئی ایم ایف سے معاہدہ پڑھ لیں، ان میں بہت تھوڑا ہی فرق ہوگا۔

ان معاملات کو حل کرنے کے لیے ہمارے کیمپ نے تو مقابلہ کیا تھا اور مسلح و غیر مسلح لڑائیاں لڑیں، سڑکوں پر آئے، جلوس نکالے، جیلیں کاٹیں۔ شہدائے بالاکوٹ کی تاریخ کو لے لیں اور تحریکِ خلافت کو لے لیں، دونوں محاذوں پر کھڑے تھے، ہمارا تو مقابلے کا محاذ تھا۔ لیکن دوسری طرف سر سید کا کیمپ تھا۔ میں اسے یوں تعبیر کرتا ہوں کہ ہم تو یہ کہتے تھے کہ ہم سے چھین لیا گیا ہے اس لیے ہم نے واپس چھیننا ہے، جبکہ یہ لوگ کہتے تھے کہ جتنا بچا سکتے ہو بچا لو اور وہ کچھ نہ کچھ بچانے میں کامیاب رہے۔

اس تمہید کے ساتھ ایک بات اور کہہ کر اپنے موضوع کی طرف آؤں گا۔ میں جہاں اس بات پر خوشی کا اظہار کر رہا ہوں کہ قائد اعظم کے نام پر یہ ادارہ کام کر رہا ہے، اور علامہ اقبال کے نام پر بھی بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں، تو میں اساتذہ اور طلباء سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم قائد اعظم، علامہ اقبال، سر سید اور جسٹس امیر علی کے ساتھ صرف تعلق کا اظہار نہ کریں بلکہ ان کو اسٹڈی بھی کرنا چاہیے کہ انہوں نے کیا کیا تھا، کیسے کیا تھا، ان کا رخ کیا تھا، انداز کیا تھا اور ان کی جدوجہد کے نتائج کیا تھے؟

قائد اعظم کی زندگی کے تین بڑے مسائل تھے، آپ حضرات نے ان کی سوانح پڑھی ہوگی:

  1. قائد اعظم جب ہندوستان آئے تو بڑے وکیل کے طور پر آئے تھے۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ہندو مسلم اتحاد سے کیا تھا کہ ہم نے اکٹھے ہونا ہے، اور اتحاد کیا بھی تھا۔ لیکن انہیں اندازہ ہو گیا کہ ہم اکٹھے نہیں چل سکتے، کیونکہ دونوں تہذیبوں میں بہت فرق تھا اور یہ دو الگ الگ تہذیبیں گڈمڈ نہیں ہو سکتی تھیں۔ ان تہذیبوں کو خلط ملط کرنے کی بہت کوشش ہوئی، آج بھی کوشش ہو رہی ہے۔ اکبر بادشاہ کے زمانے میں بھی تہذیبوں کو خلط ملط کرنے کی کوشش ہوئی، پھر انگریزوں نے یہی کوشش کی اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے کہ تہذیبیں گڈمڈ ہو جائیں لیکن نہیں ہو پا رہیں اور نہیں ہو پائیں گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس کا تازہ ترین مظہر یہ ہے کہ قطر کا ورلڈ کپ فٹ بال ٹورنامنٹ اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کہ انہوں نے دنیا کے سب سے مہنگے اور بڑے ٹورنامنٹ کا اہتمام کیا ہے۔ اس ٹورنامنٹ کا آغاز قرآن مجید کی تلاوت سے ہوا ہے اور ان کے چیف منیجر نے کہا ہے کہ ہمارے وطن میں آؤ گے تو ہماری تہذیب اور ثقافت کا احترام کرنا ہوگا۔ چنانچہ یہ حدِ فاصل آج بھی قائم ہے۔
  2. قائد اعظم کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ہم زیادہ دیر اکٹھے نہیں رہ سکتے تو ہندو مسلم اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ آج پھر ہمیں تہذیبوں کے مدغم ہونے اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کا مسئلہ درپیش ہے، تو میں تفصیل میں جائے بغیر اس تگ و دو کا خلاصہ یہ عرض کرتا ہوں کہ قائد اعظم کے کیمپ نے اس میں یہ رخ اختیار کیا تھا کہ ایڈجسٹمنٹ تو ہو سکتی ہے مرجنگ نہیں ہو سکتی۔ مسلمان اپنی تہذیب میں رہیں گے اور وہ اپنی تہذیب میں رہیں گے۔ اس وقت ہمیں ہندو تہذیب کا سامنا تھا اور آج مغربی تہذیب کا سامنا ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ ہمیں اس سولائزیشن وار، تہذیبی کشمکش اور ثقافتی جنگ میں اپنے بڑوں کو دیکھنا چاہیے کہ انہوں نے اس سے کیسے نمٹا تھا، ہم بھی اس طرح نمٹ سکتے ہیں۔ میں نے اس کا صرف حوالہ دیا ہے۔

  3. قائد اعظم کو دوسرا یہ مسئلہ درپیش تھا کہ سترہویں صدی سے یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی موجود تھی، پھر ۱۸۵۷ء سے تاج برطانیہ براہ راست آیا تو ہمارا سارا نظام زیرو پوائنٹ پر چلا گیا تھا۔ ہم نے نئے سرے سے اپنے کام کا آغاز کیا تھا، اس ماحول میں مقابلہ کرنے والے تو اپنی جگہ پر مقابلہ کر رہے تھے لیکن جو اس ماحول میں رہ کر جینا چاہتے تھے انہیں دو مسئلے درپیش تھے۔ ایک یہ کہ یہاں مسلمان بارہ سو سال سے آباد چلے آ رہے ہیں، ان کی مسجدوں اور ان کے اوقاف کی پوزیشن کیا ہوگی؟ اسے انگریز گورنمنٹ طے کرے گی یا ہمارے دینی اصول یہاں کار فرما ہوں گے۔ سر سید احمد خان نے اس کا آغاز کیا تھا، جسٹس امیر علی نے کام کیا، پھر وائسرائے کی پریوی کونسل میں قائد اعظم نے یہ بات کہی تھی کہ ہماری مسجد اور وقف کے مسائل ہماری شریعت کے مطابق ہوں گے، چنانچہ اس اصول کو تسلیم کر لیا گیا۔

    میں نے یہ ایک جگہ یہ بیان کیا تو کسی نے سوال کیا کہ کیا قائد اعظم نے شریعت کی بات کی تھی؟ میں نے کہا کہ قائد اعظم کی پریوی کونسل کی تقریر پڑھ لو۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے وقف کے مسائل شریعت اسلامیہ کے مطابق ہوں گے۔ چنانچہ ہم نے اوقاف کا تحفظ حاصل کیا اور انگریزوں کو یہ بات ماننی پڑی کہ وقف جب دینی جذبے سے کیا ہے تو شریعت کے مطابق ہی اس کے معاملات چلیں گے۔ یہ جنگ قائد اعظم ،جسٹس امیر علی اور سر سید احمد خان نےلڑی۔ تو انگریزوں کو یہ قانون پاس کرنا پڑا کہ مسلمانوں کے اوقاف کے فیصلے مسلمانوں کی شریعت کے مطابق ہوں گے۔ سر سید احمد خان نے شروع سے تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے لڑائی لڑی۔ مسلم تہذیب کی الگ شناخت اور تحفظ کا نعرہ سب سے پہلے سر سید احمد خان نے لگایا جو دو قومی نظریے پر منتج ہوا۔ اقبال نے اس کا جھنڈا اٹھایا اور قائد اعظم لے کر چل پڑے۔ مسلم تہذیب آج پھر سر سید احمد خان، علامہ اقبال اور قائد اعظم کو تلاش کر رہی ہے کیونکہ آج بھی مسلم تہذیب نرغے، حصار اور جکڑ بندی میں ہے۔

  4. اس کے ساتھ یہ بات کہ اس کیمپ نے اردو کی لڑائی بھی لڑی ہے۔ اردو ہماری زبان ہے اور رہے گی۔ اردو کے تحفظ کی بات سب سے پہلے سر سید احمد خان نے کی، پھر علامہ اقبال، مولوی عبد الحق اور علامہ شبلی رحمہم اللہ تعالیٰ نے کی۔ پھر پاکستان بننے کے بعد اسے اس کے نتیجے تک قائد اعظم نے پہنچایا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو کو قرار دینے کا فیصلہ قائد اعظم کا ہے۔ زبانیں تہذیب کی بنیاد ہوتی ہیں۔ میں صرف حوالہ دے رہا ہوں کہ زبان کی جنگ بھی اسی کیمپ نے لڑی ہے۔ جو کسی کا کردار اور کریڈٹ ہوا سے تسلیم کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کی جداگانہ تہذیب کی جنگ، اردو کی جنگ اور مسلم اوقاف کی جنگ اس کیمپ نے لڑی ہے۔

اس کے ساتھ میں دو حوالے اور دوں گا:

  • جب قائد اعظم نے مسلم تہذیب کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرت، اسلام کے نظام اور پاکستان کی بات شروع کی تو گاندھی جی نے قائد اعظم سے سوال کیا تھا کہ اسلام تو پرانا مذہب ہے، آپ کیا کر رہے ہیں؟ اس کے جواب میں قائد اعظم نے خط لکھا کہ نہیں جناب! اسلام زندگی کے تمام شعبوں سیاست، معیشت، تجارت اور تہذیب میں آج بھی اسی طرح قابلِ عمل ہے جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھا۔ میں قائد اعظم کا ویژن بتا رہا ہوں کہ قائد اعظم نے یہ بات بھی کہی تھی۔
  • ایک بات اور شامل کروں گا۔ پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم کی ایک تقریر یاد دلانا چاہتا ہوں جو آپ نے بحیثیت بانی پاکستان کی۔ جب قائد اعظم نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا تو اس موقع کی آپ کی تقریر ریکارڈ پر ہے۔ اس میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ میں پاکستان کی معیشت کو مغربی اصولوں پر نہیں، اسلامی اصولوں پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ اور یہ صرف جذباتی بات نہیں تھی بلکہ قائد اعظم نے اس پر دلیل دی۔ آپ وہ تقریر پڑھیں۔ اس میں انہوں نے کہا تھا کہ مغربی معاشی نظام اور سودی نظام معیشت نے دنیا کو لڑائیوں کے سوا کچھ نہیں دیا، میں وہ نظامِ معیشت پاکستان میں نہیں چاہتا، بلکہ اسلامی اصولوں پر نظامِ معیشت دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ قائد اعظم نے صرف نعرے کی بات نہیں کی بلکہ اس کی لاجک کا ذکر کیا اور صاف کہا تھا کہ میں اپنے معاشی ماہرین سے توقع رکھتا ہوں اور میں انتظار کروں گا کہ پاکستان کے معاشی نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کریں۔

میں نے اختصار کے ساتھ تین چار حوالے دیتے ہوئے یہ عرض کیا ہے کہ اسی قسم کے چیلنجز کا سامنا ہمیں آج بھی ہے۔ آج پھر ہمیں اسلامی تہذیب کی جداگانہ شناخت کا مسئلہ درپیش ہے۔ مغربی و ہندو تہذیبوں کی یلغار میں اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے خاندانی نظام اور اوقاف کے تحفظ کا سامنا ہے۔ اس لیے میری سر سید احمد خان اور قائد اعظم کے کیمپ سے گزارش ہے کہ وہ اپنی قومی شخصیات کو اسٹڈی کریں اور نئی نسل کو ان کی طرف توجہ دلائیں تاکہ ہم ملک و قوم کو صحیح ٹریک پر رکھ سکیں۔

2016ء سے
Flag Counter