مسئلہ ختمِ نبوت میں عالمی اداروں کی دلچسپی

   
تاریخ: 
۱۴ دسمبر ۲۰۲۲ء

(جامع مسجد امن باغبانپورہ لاہور میں ۱۳، ۱۴ دسمبر ۲۰۲۲ء کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام منعقدہ دو روزہ ختمِ نبوت کورس کی آخری نشست سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت اور محترم بھائی مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کا شکر گزار ہوں کہ عالمی مجلس آج کی ضرورت کے مطابق ختم نبوت کے عنوان پر ملک کے مختلف حصوں میں اجتماعات اور کورسز منعقد کر رہی ہے، اور اس حوالے سے بھی کہ آج کی اس مجلس میں مجھے کچھ گفتگو کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ یہ سعی و جدوجہد قبول فرمائیں، کچھ مقصد کی باتیں کہنے سننے کی، اور حق کی جو بات علم اور سمجھ میں آئے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

اس وقت دین کے حوالے سے جدوجہد کے جتنے بھی دفاعی محاذ ہیں، ان میں سب سے بڑا محاذ ختم نبوت کا ہے۔ یہ سب سے بڑا محاذ کیوں ہے؟ یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ باقی محاذوں اور مسائل پر ہمارا سامنا آپس کے داخلی گروپوں سے ہوتا ہے۔ کوئی بھی مسئلہ ہو وہ امتِ مسلمہ کے داخلی گروپوں کا ہوگا، یا اپنے آپ کو امتِ مُسلمہ میں شمار کرنے والوں کا ہوگا۔ لیکن ختمِ نبوت کے مسئلے پر ہمارا محاذ اور مورچہ داخلی نہیں بلکہ خارجی ہے، اور علاقائی نہیں بلکہ عالمی ہے۔ اس مسئلے پر ہم سے مطالبات، دباؤ، اور ہمارا حصار عالمی ادارے اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، آئی ایم ایف، جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن، اور امریکہ کی وزارتِ خارجہ کا جنوبی ایشیا ڈیسک وغیرہ کر رہے ہیں۔ اس محاذ پر ہمیں عالمی اداروں کا سامنا ہے، اس لیے یہ سب سے بڑا مورچہ ہے کہ ہماری لڑائی مقامی نہیں ہے بلکہ عالمی ہے، علاقائی نہیں ہے بلکہ انٹرنیشنل ہے، اور سارا دباؤ عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی اداروں کا ہے کہ یہ کرو اور یوں نہ کرو۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالمی قوتوں، امریکہ، یورپی یونین، جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کو اس سے کیا دلچسپی ہے کہ وہ سب اس مسئلے پر یکجا ہیں کہ پاکستان میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا قانون واپس لیا جائے۔ ان کی اس سے غرض کیا ہے؟ باقی مسئلوں پر بات ہو جاتی ہے لیکن اس مسئلے پر یورپی یونین، جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور بین الاقوامی ادارے، ان سب کا ہم سے ایک ہی مطالبہ بلکہ دباؤ اور مداخلت ہے کہ تم قادیانیوں کو کافر کیوں کہتے ہو، یہ قانون واپس لو۔ ان کو یہ دلچسپی کیوں ہے، یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔

مغرب کا اصل مقابلہ قرآن کریم کے قوانین اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام سے ہے، جس کو ہم قرآن و سنت، شریعت اور اسلامی نظام کہتے ہیں۔ یہ نظام چودہ سو سال سے چلا آ رہا ہے، قرآن کریم محفوظ چلا آ رہا ہے اور شریعت اور فقہ کا تسلسل چلا آ رہا ہے۔ مسلمان اس سے دستبردار ہونے کو کبھی تیار نہیں ہوئے، حکومتیں جو مرضی کر لیں لیکن عام مسلمان قرآن کریم کے احکام اور سنت و شریعت کے احکام سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں اور نہ آئندہ کبھی ہوں گے، انشاء اللہ تعالیٰ۔ چودہ سو سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، بہت سے گروہ پینترے بدل کر آئے، بڑی قوت کے ساتھ آئے، لیکن قرآن کریم، سنتِ رسولؐ اور شریعت کے احکام کے ساتھ مسلمانوں کی کمٹمنٹ کو توڑنے میں کوئی کامیاب نہیں ہوا۔ فطری بات ہے کہ قرآن کریم کے احکام، سنتِ رسولؐ اور شریعت کو کوئی منسوخ نہیں کر سکتا۔ اس کو منسوخ کرنے والی اتھارٹی ایک ہی ہو سکتی ہے کہ نبی کے فیصلے کو نبی ہی منسوخ کر سکتا ہے، نبی سے کم درجے کی کوئی اتھارٹی نبی کے احکام کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ اس لیے سوچ سمجھ کر بیرونی دنیا نے یہ پلاننگ کی کہ نبی کے نام سے کوئی گروپ کھڑا کیا جائے تاکہ قرآن اور سنت کی منسوخی کا راستہ ہموار ہو۔ یہ پس منظر ذہن میں رکھیں کہ نبی کے فیصلے کو نبی ہی منسوخ کر سکتا ہے، نبی کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ یہی بات علامہ محمد اقبالؒ نے کہی تھی کہ قادیانی اس لیے کافر ہیں کہ انہوں نے نئی اتھارٹی کھڑی کر دی ہے، اور نئے نبی اور وحی کے عنوان سے مذہب تبدیل کر لیا ہے۔

برصغیر میں پہلے بھی اس کی کوشش ہوئی تھی، مغل بادشاہ اکبر نے اجتہاد کے نام پر بہت سے احکام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے قرآن کریم کے کچھ احکام اور شریعت کے احکام بدل دیے اور نام ’’دین الٰہی‘‘ رکھا، ٹائٹل مسلمان کا ہی رکھا، بعض چیزیں جائز اور بعض حرام قرار دے دیں۔ لیکن اس کا دعویٰ چونکہ اجتہاد کے نام سے تھا اس لیے اس کی بات نہیں چلی کہ شریعت کے احکام کو نبی کے ٹائٹل کے علاوہ منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ اور اب چونکہ نبی کوئی آنا نہیں ہے تو مغرب کا اصل ایجنڈا یہ ہے کہ مسلمانوں کو قرآن کریم اور شریعت کے احکام میں تبدیلی پر آمادہ کیا جائے اور نبی کے نام سے کوئی اتھارٹی ان سے منوا لی جائے جو کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے اور میں نے فلاں حکم منسوخ کر دیا ہے۔

یہ مغرب کی دلچسپی کی وجہ ہے کہ اسلام میں ردوبدل کی کوئی ایسی اتھارٹی جس کو مسلمان تسلیم کریں، کھڑی کی جائے، اس کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کو کھڑا کیا گیا تھا اور آج بھی ان کا سب سے بڑا پشت پناہ مغرب ہے۔ اس لیے میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ ختم نبوت ہمارا سب سے بڑا مورچہ ہے، جس میں ہمیں عالمی قوتوں سے واسطہ ہے اور ان کا اصل ایجنڈا شریعت کو تبدیل کرنا ہے۔ شریعت کو تبدیل کرنے کے لیے انہوں نے نبوت کے نام پر اتھارٹی کھڑی کی جس کو پوری دنیائے اسلام کے مسلمان نہیں مان رہے۔ یہ ہمارا اور مغرب کا اصل جھگڑا ہے۔ مغرب اسی لیے قادیانیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے، پیسے خرچ کر رہا ہے، ہم پر دباؤ اور پریشر ڈال رہا اور مجبور کر رہا ہے کہ کوئی ایسی اتھارٹی تسلیم کرو جو قرآن و شریعت کے احکام میں ردوبدل کر سکے، لیکن ایسے نہ ہوا ہے اور نہ ان شاء اللہ آئندہ کبھی ہوگا۔

ختم نبوت کی جدوجہد پر جتنی جماعتیں اور گروہ کام کر رہے ہیں، سب اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت اور اپنا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ لیکن اس جدوجہد کے دائرے مختلف ہیں۔ اس محاذ پر محنت کرنے والوں کیلئے محنت کے چار بڑے دائرے ہیں، میں وہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

پہلا درجہ خبردار کرنے کا ہے کہ جاگتے رہنا۔ ختم نبوت کی جدوجہد کا پہلا دائرہ یہ ہے کہ عام آدمی کو بیدار رکھا جائے، لوگوں کو متوجہ کرتے رہنا کہ یہ ہمارا عقیدہ ہے اس پر پکا رہنا ہے اور اس کے خلاف کوئی بات قبول نہیں کرنی۔ سب سے بڑا مورچہ عوامی سطح پر لوگوں کو بیدار اور آگاہ رکھنے کا ہے اور مختلف جماعتیں یہ کام کر رہی ہیں۔ اسی غرض سے اجتماعات ہو رہے ہیں، جلسے، دروس، کورسز اور تربیتی کیمپ سب کی یہی غرض ہے کہ عام مسلمان اپنے عقیدے کے حوالے سے چوکنا اور باخبر رہے۔

ختم نبوت کے حوالے سے کام کرنے والوں کے لیے کام کا دوسرا دائرہ یہ ہے کہ ہماری جو پڑھی لکھی کلاس ہے جس کو مقامی اور بین الاقوامی میڈیا، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا، لابیوں اور این جی اوز سے واسطہ پڑتا ہے اور جن کے ذہنوں میں مسلسل شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے رہے ہیں، کیے جا رہے ہیں اور پیدا کیے جاتے رہیں گے۔ یہ کالجز، یونیورسٹیز اور سوشل میڈیا اور اس سطح کا ماحول ہے جہاں بین الاقوامی ابلاغ کے ذرائع میڈیا، این جی اوز اور عالمی ادارے مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طریقے سے نوجوان نسل روایتی دین اور عقیدے میں لچک پیدا کرے اور ہماری نئی باتیں قبول کرے۔ یہ دوسرا بڑا مورچہ ہے۔ یہ آمنے سامنے بات کرنے کا، سلیقے سے بات کہنے کا، بات پہنچانے کا اور شکوک و شبہات کے جواب دینے کا مورچہ ہے۔ اس مورچے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ شبہات تو پیدا ہو رہے ہیں، جس کی جیب میں موبائل ہے اس کے ذہن میں شکوک و شبہات کا جنگل ہے۔ جو بین الاقوامی رابطہ رکھتا ہے اس کے گرد شکوک و شبہات کا پورا حصار ہے۔ اس لیے ان تک رسائی حاصل کرنا، ان تک بات پہنچانا، ان کی بات سننا، ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا، ان کے اعتراضات کا جواب دینا اور مقابلہ کرنا یہ ہماری جدوجہد کا دوسرا دائرہ ہے۔

تیسرا دائرہ یہ ہے کہ قادیانی ملک کے مختلف محکموں میں گھسے ہوئے ہیں اور کسی نہ کسی بہانے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ ہدایات اور طریقہ کار باہر سے آتا ہے اور یہ یہاں بیٹھے کام کرتے ہیں۔ وہ بیوروکریسی میں بیٹھ کر چالیں چلتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی مختلف گھاتوں میں بیٹھے ہوئے کبھی کوئی کام کر لیا، کبھی اسمبلی والوں کو ورغلا لیا، کبھی فوج کے جرنیل اور کبھی کسی حکمران کو ورغلا لیا۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکمران طبقے کے اندر بیٹھ کر یہ جو سازشوں کا دائرہ ہے، جس کے ذریعے کوئی نہ کوئی شرارت ہو جاتی ہے، کئی شرارتیں ہمارے سامنے ہوئی ہیں اور کئی چالیں چلی گئی ہیں۔ دینی جماعتیں اور قومی و ملی سوچ رکھنے والے چوکنا رہتے ہیں، آواز اٹھاتے ہیں اور بات ختم ہو جاتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ وردی والی ہو یا بغیر وردی، ان کے اندر بیٹھ کر جو لوگ سازشیں کر رہے ہیں ان سازشوں کو سمجھنا، ان کا جواب دینا اور ان سازشوں کو ناکام بنانا ہمارا تیسرا مستقل مورچہ ہے۔

میں ختم نبوت کی جدوجہد کے دائرے بیان کر رہا ہوں، اس کا چوتھا محاذ بین الاقوامی ہے جہاں پلاننگ اور منصوبہ بندی ہوتی ہے، جہاں سے ہدایات اور ڈکٹیشن آتی ہے۔ یہ ہمارا سب سے بڑا محاذ ہے۔ لیکن میں اب تک کے تجربات کی بنیاد پر یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ ہماری اس محاذ پر اس حد تک توجہ نہیں ہے جس حد تک ہونی چاہیے۔ میں ماضی کے دو تجربے آپ کے سامنے عرض کرنا چاہوں گا۔

ایک تجربہ جنوبی افریقہ کا ہے۔ جنوبی افریقہ کی سپریم کورٹ میں ختمِ نبوت کا مسئلہ زیر بحث آیا تھا۔ اس پر ہمارے حکمرانوں اور ہماری جماعتوں نے توجہ کی، وہاں خود جا کر کیس لڑا۔ جنوبی افریقہ کی سپریم کورٹ میں قادیانیوں کے حوالے سے کہ ان کو مسلمانوں میں شمار کیا جائے یا نہیں، یہ کیس حضرت مولانا جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ اور ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ نے جا کر لڑا تھا اور ہماری علمی قیادت نے وہاں سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ جیتا بھی تھا۔ جہاں اوریجنل لوگ، محاذ کے اصل لوگ پہنچے ہیں، انہوں نے مقدمہ جیتا ہے۔ لیکن جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن میں ہمارے اوریجنل بندے نہیں گئے تھے اس لیے ہم ہار گئے تھے۔

میں آپ سے طریقہ واردات عرض کرتا ہوں کہ ۱۹۸۴ء میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس آیا تھا کہ قادیانی اسلام کا نام استعمال نہیں کر سکتے، مسلمان کا ٹائٹل اختیار نہیں کر سکتے، تو مرزا طاہر احمد نے ۱۹۸۵ء میں لندن جا کر مورچہ بنایا اور جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن میں جا کر کیس دائر کیا کہ ہمیں شہری حقوق، انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے اور ہمارے سیاسی حقوق پامال کر دیے گئے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن کا طریقہ کار اور پراسیس یہ ہے کہ جس ملک کے قانون کے خلاف درخواست آتی ہے، اس ملک کا سفیر ملک کا دفاع کرتا ہے۔ پاکستانی قانون کے خلاف درخواست دی گئی تو پاکستان کا دفاع سفیر نے کرنا تھا، جبکہ اس وقت سفیر منصور احمد قادیانی تھا۔ مدعی بھی قادیانی اور مدعا علیہ بھی قادیانی۔

ہمارے علم میں یہ بات آگئی تھی۔ اس وقت راجا ظفر الحق صاحب وفاقی وزیر تھے، ہمارے دوست سید ریاض الحسن گیلانی ایڈووکیٹ اس وقت ڈپٹی اٹارنی جنرل تھے، جو ختم نبوت کے بڑے وکیلوں میں سے ہیں۔ وہ، میں اور مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اسلام آباد گئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے کہ دعویٰ مرزا طاہر کی طرف سے ہے اور جواب منصور احمد نے دینا ہے۔ ہم ابھی سوچ رہے تھے کہ وفد بھیجنا چاہیے کہ ادھر سے ہمارے خلاف فیصلہ ہوگیا۔ جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن کا فیصلہ ہمارے خلاف ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کے حقوق پامال کیے گئے ہیں اور دنیا میں ہر جگہ وہی فیصلہ ہمارے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ادارہ بات کرتا ہے تو قادیانی چپکے سے جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن کا فیصلہ اس کے سامنے رکھتے ہیں کہ عالمی ادارے کا فیصلہ ہے اور وہ فیصلہ ہمارے خلاف استعمال ہوتا ہے۔

یہ میں نے دو تجربے عرض کیے ہیں۔ بین الاقوامی فورموں کا تجربہ یہ ہے کہ جہاں ہم نے خود جا کر کیس لڑا ہے وہاں ہم جیتے ہیں، اور جہاں ہم نے سفارتی ذرائع پر اعتماد کیا ہے وہاں ہارے ہیں، اور آئندہ بھی ایسے ہی ہوگا۔ جب فیصلہ بین الاقوامی سطح پر یورپی یونین، جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن اور اقوام متحدہ کی کسی کمیٹی نے کرنا ہے تو ہمیں کیس خود لڑنا ہوگا۔ مثلاً ہائی کورٹ میں میرے خلاف کیس ہے اگرچہ غلط ہے لیکن مجھے کیس لڑنا تو ہو گا خواہ کیسا بھی ہے۔

میں نے ختمِ نبوت کی جدوجہد کے چار دائرے ذکر کیے ہے۔ اس وقت ہم ان چار محاذوں پر سامنا کر رہے ہیں، کہیں اچھے طریقے سے اور کہیں نرم طریقے سے، اس جدوجہد میں ہماری ضروریات کیا ہیں؟ اس پر میں دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔

پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی جدوجہد اس جذبے سے کرنی چاہیے کہ اگر ہم ڈھیلے پڑ گئے تو سب کچھ ڈھیلا پڑ جائے گا۔ اس وقت بھی ہم سے مطالبہ اور دباؤ ہے کہ قادیانیوں کے بارے میں قوانین ختم کرو۔ اس کےمقابلے میں عوامی دباؤ کی ضرورت ہے۔ پبلک پریشر میں سب سے بڑی بات تمام مکاتبِ فکر کی وحدت ہے۔ یہ ہماری ضرورت ہے کہ تمام مکاتبِ فکر وقتاً فوقتاً اپنی وحدت کا اظہار کرتے رہیں کہ ختمِ نبوت کے مسئلے پر ہم ایک ہیں اور ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جس دن ہم نے اس وحدت میں دراڑ برداشت کر لی تو یہ کیس ہارنے والی بات ہو گی۔ یہ بات نوٹ کر لیں کہ امت کہلانے والے سارے اکٹھے ہیں، ہمیں وقتاً فوقتاً یہ شو کرنا پڑے گا، اکٹھے تو ہیں لیکن اس کا اظہار بھی کرتے رہنا ہوگا۔

دوسری بات یہ کہ ہم اس کیس کو آج کی زبان میں لڑیں۔ ہائی کورٹ میں جمعہ کی تقریر نہیں چلتی، وکیل کے دلائل چلتے ہیں۔ سیشن کورٹ میں فجر کے بعد والا درس نہیں چلتا، وہاں وکیل کی بحث چلتی ہے۔ اس لیے ہمیں بین الاقوامی اداروں میں جانا ہوگا، جنوبی افریقہ کی سپریم کورٹ کی طرح جانا ہوگا، اور اس لیول پر اسی زبان میں جنگ لڑنا ہوگی۔ اپنی وحدت کا اظہار اور مسلسل آواز بلند کرتے رہنا، اور جہاں کیس لڑا جا رہا ہے وہاں جا کر اس ماحول کے مطابق اس لیول پر کیس لڑنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دیں اور ہمیں یہ ذوق عطا فرمائیں کہ ہم ہر مورچے اور ہر میدان میں اپنے اور اپنی نئی نسل کے ایمان و عقیدہ کا تحفظ کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter