چند منفرد نوعیت کے دینی اجتماعات میں حاضری

   
تاریخ : 
۱۹ فروری ۲۰۲۳ء

رجب اور شعبان میں عام طور پر دینی مدارس کے سالانہ امتحانات اور تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے اور مختلف محافل میں شرکت کی سعادت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس سال بھی بحمد اللہ تعالیٰ بیسیوں اجتماعات میں حاضری کا موقع ملا ہے اور اس دوران روایتی ماحول اور دائرہ سے ہٹ کر کچھ منفرد نوعیت کے پروگراموں میں بھی شمولیت ہوئی ہے جن کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

(۱) فیصل آباد میں مولانا طارق جمیل کے ادارہ جامعۃ الحسنین کا تعلیمی و تربیتی ماحول روایتی دائرہ سے کچھ مختلف ہے جو ایک تجربہ کے طور پر مجھے بھی اچھا لگا ہے اور اس کی کامیابی کے لیے دعاگو رہتا ہوں۔ گزشتہ دنوں جامعۃ الحسنین کے تقاضے پر دو تین نشستوں میں دورۂ حدیث شریف کے طلبہ سے چند فکری موضوعات پر گفتگو ہوئی تو طلبہ اور اساتذہ کا ذوق اور طلب دیکھ کر خوشی ہوئی جس کے باعث میں نے ان کی یہ فرمائش قبول کر لی ہے کہ ہر ماہ کم از کم ایک بار ضرور حاضری دوں جس میں کسی علمی و فکری عنوان پر گفتگو ہو جائے گی۔ چنانچہ اگلی نشست کے لیے ۲۸ فروری مغرب کا وقت طے ہو گیا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

(۲) اسلام آباد کے ایک مدرسہ کا ذکر پہلے بھی کر چکا ہوں، مسجد حمزہ ایف ٹین ٹو کے خطیب مولانا محمد ادریس شام کے اوقات میں درسِ نظامی کی تعلیم کا سلسلہ کافی عرصہ سے جاری رکھے ہوئے ہیں، سرکاری ملازمین اور کاروباری لوگ جو دن میں وقت نہیں نکال سکتے، مغرب کے بعد دو تین گھنٹے اس مدرسہ میں تعلیم حاصل کر کے درسِ نظامی کا نصاب مکمل کرتے ہیں اور وفاق المدارس العربیۃ پاکستان کے نصاب کے مطابق باقاعدہ امتحان دے کر سند حاصل کرتے ہیں۔ میں اس مدرسہ کی متعدد تقریبات میں شرکت کر چکا ہوں، آغاز میں مجھے تردد تھا کہ سارا دن دفاتر اور مارکیٹوں میں مصروف رہنے والے حضرات شام کے دو تین گھنٹوں میں کیسے اس نصاب کو مکمل کر سکیں گے؟ مگر کام کے تسلسل اور پیشرفت کو دیکھ کر اب ذہن میں یہ آ رہا ہے کہ دوسرے شہروں کے احباب کو بھی توجہ دلائی جائے کہ وہ اس تجربہ سے استفادہ کریں۔

۱۱ فروری کو اس مدرسہ کی سالانہ تقریب میں بخاری شریف کا آخری سبق پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی تو مولانا محمد ادریس نے بتایا کہ یہ آٹھویں کلاس ہے جو وفاق المدارس کے نصاب کے مطابق تعلیم مکمل کر کے دورہ حدیث سے فراغت حاصل کر رہی ہے۔ ایک دلچسپ اور حوصلہ افزا بات انہوں نے یہ بھی بتائی کہ ایک نوجوان اپنی شادی کے بعد بھی مدرسہ میں مغرب کی تین گھنٹے کی کلاس میں پابندی کے ساتھ حاضری دیتے رہے ہیں اور آج وہ آخری حدیث کا سبق پڑھ رہے ہیں۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں، سرکاری ملازمین اور کاروباری حضرات میں دینی تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ اور طلب کس حد تک موجود ہے، فالحمد للہ تعالیٰ ذٰلک۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی کی مصروفیات اور مجبوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے مناسب انداز میں تعلیمی پروگرام منظم کیے جائیں تو قرآن و سنت اور دینی علوم کی تعلیم کا دائرہ قوم کے تمام طبقات تک پھیلایا جا سکتا ہے۔

(۳) اسی طرح فیصل آباد کے ایک ادارہ میں حاضری ہوئی جس کا تعلیمی انداز منفرد اور قابلِ تقلید ہے۔ چنیوٹ کے معروف عالم دین مولانا قاری محمد یامین گوہر ہمارے پرانے ساتھی ہیں، سرگرم عالم دن ہیں اور قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کا خصوصی ذوق رکھتے ہیں۔ بالخصوص تجارت و ملازمت پیشہ حضرات اور دیگر طبقات کے حضرات کو صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیم دینے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا طریق کار یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کی طرح کسی علاقہ کو منتخب کر کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں اور انہیں اس بات کے لیے آمادہ کرتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی صحیح تلاوت کے لیے اپنا تلفظ صحیح کریں اور اس کا باقاعدہ کورس کر کے اپنی قراءت و تلفظ کی اصلاح کریں۔ جس کے لیے انہوں نے طویل تجربات کے نتیجے میں ایک کورس ترتیب دے رکھا ہے اور مختلف دورانیوں کی کلاسوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے فیصل آباد میں بھی کام کر رہے ہیں اور چند تجرباتی کلاسوں کے بعد اب انہوں نے سرگودھا روڈ پر شفیق کالونی میں ایک باقاعدہ مرکز قائم کیا ہے جس میں فیصل آباد کے چند سرکردہ کاروباری حضرات ان کے معاون و شریک کار ہیں۔ ۱۴ فروری کو اس مرکز کی افتتاحی تقریب تھی جس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔

(۴) اسی دوران ۱۵ فروری کو گلشن راوی لاہور میں جامعہ صدیقیہ کے سالانہ اجلاس میں حاضری ہوئی اور دو باتیں انتہائی خوشی کا باعث بنیں۔ ایک یہ کہ وقت کی پابندی کا بطور خاص اہتمام کیا گیا، مغرب کی نماز کے بعد ساڑھے چھ بجے کے لگ بھگ جلسہ کا آغاز ہوا اور آٹھ بجے حضرت مولانا عبد القیوم نیازی کی دعا پر اختتام پذیر ہو گیا۔ خدا کرے کہ وقت کی پابندی اور اس کی قدر و قیمت کو پہچاننے کا یہ ذوق ہمارے ہاں عام ہو جائے، آمین۔

دوسری یہ بات میرے لیے انتہائی مسرت کا باعث ہوئی کہ بزرگ قاری محترم قاری محمد عارف صاحب نے فطری اور سنجیدہ لہجے میں قرآن کریم کی تلاوت کی تو میرا ذہن نصف صدی قبل کے اس ماحول میں جا پہنچا جب لاہور کی بڑی دینی مجالس میں حضرت مولانا قاری اظہار الحق تھانویؒ اور حضرت مولانا قاری محمد حسن شاہؒ کی تلاوت سن کر ہم حسنِ قراءت کا حظ اٹھایا کرتے تھے۔ میں نے قاری صاحب محترم سے عرض کیا کہ آپ کی تلاوت سن کر میرے دل میں ان بزرگوں کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ پھر جامعہ صدیقیہ کے دو چھوٹے طلبہ نے اسی سادگی اور بے تکلفی کے لہجہ میں نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھی تو ایمان تازہ ہو گیا۔

میں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہم نے عمومی ماحول میں تلاوتِ کلامِ پاک اور نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کو تکلفات کے تہہ در تہہ غلافوں میں لپیٹ کر جس طرح ’’فاسٹ فوڈ‘‘ کی شکل دے رکھی ہے اس ماحول میں تلاوت اور نعت کو فطری اور بے تکلفانہ لہجے میں سن کر مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے جس پر اس مدرسہ کے منتظمین، اساتذہ اور طلبہ مبارک کے مستحق ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter