دینی اقدار و روایات اور تشکیک کی مہم

   
جنوری ۱۹۹۸ء

گزشتہ دنوں لاہور کے اخبارات میں ایک شادی کی تفصیلی خبر بڑے اہتمام کے ساتھ شائع ہوئی ہے جو ہوٹل میں منعقد ہوئی اور کسی ستم ظریف نے ہیجڑے سے شادی رچا کر اس کی تشہیر کا اہتمام کیا ہے۔ عام طور پر اسے کسی من چلے کا مذاق سمجھا جائے گا، مگر اس شادی کے بعد بعض اخبارات نے ہیجڑے کے ساتھ شادی کے جواز یا عدمِ جواز کا مسئلہ کھڑا کر کے جس طرح اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کا اہتمام کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ میں دینی اقدار و روایات کو کمزور کرنے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی اہمیت کم کرنے کی اسی عالمی مہم کا حصہ ہے جو ثقافتی کشمکش کے پس منظر میں این جی اوز اور ذرائع ابلاغ کی وساطت سے ایک عرصہ سے جاری ہے۔

ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو توڑنے اور اسے مغربی ثقافت کے سانچے میں فٹ کرنے کے لیے مغربی لابیاں ایک مدت سے سرگرم عمل ہیں۔ اور حال ہی میں امریکہ کی خاتون اول ہیلری کلنٹن کی طرف سے نکاح و طلاق اور وراثت کے اسلامی قوانین پر نکتہ چینی بھی عالمی پریس کے ذریعے سامنے آ چکی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی گزشتہ دنوں حکومتِ پاکستان کے قائم کردہ خواتین حقوق کمیشن کی سفارشات میں نکاح و طلاق اور وراثت کے شرعی قوانین میں ترامیم کی تجویز کو بھی سامنے رکھا جائے تو اس مہم کے پس منظر اور مقاصد کو سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہ جاتا۔

اس سلسلہ میں سب سے زیادہ افسوسناک کردار ہمارے قومی اخبارات کا ہے جو دینی مسائل اور معاشرتی اقدار کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور چھوٹی چھوٹی خبروں کو موضوع بحث بنا کر ایسے مذاکروں اور فیچروں کا بازار گرم کر دیتے ہیں جن کا مقصد تشکیک پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ملک کے دینی مراکز، جماعتوں اور دین کا شعور اور درد رکھنے والے اصحابِ دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی معاشرت کے خلاف مغربی ثقافت کی اس یلغار کا نوٹس لیں اور شرعی قوانین و روایات کے تحفظ میں مؤثر کردار ادا کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter