قوم پرست جماعتیں اور پاکستان کی دستوری اسلامی حیثیت

   
تاریخ : 
مئی ۱۹۹۹ء

قوم پرست جماعتوں کے متحدہ محاذ ’’پونم‘‘ نے ایک حالیہ اجتماع میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے دستور پر نظرثانی کی جائے، جس کے لیے پونم کی طرف سے آئینی ترامیم کا پیکیج پیش کیا گیا ہے۔ اس پیکج میں مکمل صوبائی خودمختاری کے ساتھ ساتھ قومیتوں کی بنیاد پر نئے صوبوں کے قیام اور ملک کا نام تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اور پاکستان کے نئے مجوزہ نام میں لسانی قومیتوں کے اظہار کے علاوہ ’’اسلامی‘‘ کا لفظ حذف کر دینے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔

پاکستان کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ۱۹۵۶ء کے دستور میں تجویز کیا گیا تھا مگر صدر محمد ایوب خان مرحوم نے ۱۹۶۲ء کا دستور نافذ کیا تو اسلامی کا لفظ حذف کر کے ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ نام رکھ دیا تھا۔ جس پر ملک بھر میں شدید احتجاج ہوا اور صدر محمد ایوب خان نے عوامی مطالبہ پر ملک کا نام دوبارہ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ رکھ دیا۔

اس کے بعد ۱۹۷۳ء کے دستور میں نہ صرف ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا نام برقرار رکھا گیا، بلکہ اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دے کر دستور میں اس بات کی ضمانت دی گئی کہ ملک کے تمام قوانین کو اسلامی احکام کے سانچے میں ڈھال دیا جائے گا۔ اس پر اگرچہ ابھی تک ربع صدی گزر جانے کے باوجود عمل نہیں ہوا، مگر دستور میں یہ ضمانت بدستور موجود ہے اور اس پر عملدرآمد کے لیے دینی حلقوں کی جدوجہد مسلسل جاری ہے۔

پاکستان کی یہ دستوری نظریاتی حیثیت بہت سے بین الاقوامی اور اندرونی حلقوں کو شروع سے کھٹک رہی ہے، اور اسے تبدیل کر کے ملک کی برائے نام اسلامی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ ہمارے نزدیک پونم کا یہ مطالبہ انہی کوششوں کا حصہ ہے، اور لسانی و علاقائی قومیتوں کی بنیاد پر ملک کی تقسیم، اور ملک کے نام سے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ خارج کرنے کی تجویز اسی لیے ہے کہ اسلامی اثرات کے امکانات کو کم سے کم کر دیا جائے، تاکہ عالمی استعمار کی خواہش کے مطابق پاکستان کو ایک سیکولر ریاست کی حیثیت دی جا سکے۔

پونم کے مذکورہ اجتماع میں بعض قوم پرست لیڈروں نے فاتح سندھ محمد بن قاسمؒ کو ڈاکو اور لٹیرا قرار دے کر راجہ داہر کو قومی ہیرو کے طور پر بھی پیش کیا ہے، جس سے ان قوم پرست لیڈروں اور جماعتوں کے ذہنی رجحانات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بات ہمارے لیے ایک حد تک اطمینان کا باعث بنی ہے کہ پونم میں شامل ایک اہم جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے ذمہ دار راہنماؤں نے اس رجحان کو علی الاعلان مسترد کر دیا ہے۔ چنانچہ اے این پی کے سربراہ سینیٹر محمد اجمل خٹک نے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ محمد بن قاسمؒ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے عظیم محسن تھے اور وہ انہیں لٹیرا قرار دینے کی مذمت کرتے ہیں۔

اسی طرح اے این پی کے ایک اور لیڈر قاضی محمد انور نے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت پاکستان کے نام سے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ حذف کرنے کی حمایت نہیں کرے گی، اور وہ دستور پاکستان میں پونم کی طرف سے تجویز کردہ اور بھی بہت سی ترامیم کے حق میں نہیں ہے، بلکہ اے این پی دستور میں ترامیم کے لیے اپنا الگ پیکیج تیار کر رہی ہے۔

اس پس منظر میں ہم اے این پی کے راہنماؤں کے ان بیانات کا خیرمقدم کرتے ہوئے ملک کی دینی و سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پونم کے آئینی پیکیج کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دستوری اسلامی حیثیت کے تحفظ کے لیے مؤثر کردار ادا کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter