ایران کا علاقائی تشخص

   
تاریخ : 
۱۶ مارچ ۲۰۱۵ء

مشرق وسطیٰ میں اس وقت سنی شیعہ کشمکش کے حوالہ سے کیا کچھ ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے، اس کے بارے میں اس کالم میں وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں۔ آج اس کے بارے میں چند تازہ خبریں قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

روزنامہ ’’نئی بات‘‘ لاہور میں ۱۰ مارچ ۲۰۱۵ء کو شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ ’’ایران کی ایک غیر سرکاری خبر رساں ایجنسی ’’ایسنا‘‘ کے مطابق ’’ایرانی تشخص‘‘ کے عنوان سے تہران میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے سابق وزیر علی یونسی نے کہا ہے کہ ایران اور عراق کو جغرافیائی طور پر تقسیم کرنا کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگا۔ ہماری تہذیب و ثقافت، ماضی و حال سب ایک ہیں۔ اس تہذیبی رشتے نے ہمیں ایک دوسرے سے مربوط کر رکھا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے سے کوئی جدا نہیں کر سکتا۔ ہم ایک دوسرے سے لڑیں یا اکٹھے رہیں ہمارے اتحاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پورا مشرق وسطیٰ ایران کا حصہ ہے، ہم خطے کی تمام اقوام کا دفاع کریں گے کیونکہ ہم انہیں ایران ہی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ہم اسلامی انتہا پسندی، تکفیری، الحاد، نئے عثمانیوں، وہابیوں اور مغربی صیہونیوں سے بیک وقت مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے ترکی کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہمارے تاریخی مخالفین میں مشرقی رومیوں کی باقیات اور عثمانی ترک ہیں۔‘‘

روزنامہ پاکستان لاہور نے ۱۱ مارچ ۲۰۱۵ء کو یہ خبر شائع کی ہے کہ ’’یمن میں حکومت کے قیام کے بعد ایران نواز حوثی جماعت نے ملک میں عربی کی بجائے فارسی زبان و ادب کی ترویج کا اعلان کیا ہے۔ ایران کے دورے پر آئے ہوئے حوثی گروپ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ہم جلد ہی صنعاء میں فارسی ادب اور لٹریچر کا کالج قائم کریں گے اور اس کے علاوہ ملک میں ایران کے ثقافتی کلب بھی کھولے جائیں گے۔‘‘

روزنامہ دنیا گوجرانوالہ میں ۱۲ مارچ ۲۰۱۵ء کو شائع ہونے والی یہ خبر ملاحظہ فرمائیے کہ ’’امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ مائیکل ھیڈن نے ایران کے جنگ زدہ عراق میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ایران کے کردار سے مطمئن نہیں ہیں۔ انہوں نے عراقی شہر تکریت میں داعش کے خلاف عراقی فوج اور ایرانی خصوصی دستوں کی کاروائی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کاروائی دراصل اہل تشیع کی سنی آبادی کے شہر پر چڑھائی نظر آرہی ہے۔ مائیکل ھیڈن نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ جب تکریت پر ان فورسز کو دوبارہ قبضہ ہو جائے گا تو وہ مقامی آبادی کے ساتھ کیا کریں گی؟‘‘

روزنامہ دنیا نے اسی روز اس کے ساتھ یہ خبر شائع کی ہے کہ ’’سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر داخلہ شہزادہ محمد بن نائف بن عبد العزیز نے بعض ریاستوں پر سعودی مملکت پر حملوں کے لیے بعض دہشت گرد گروپوں کی مدد و حمایت کا الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے الجزائر میں عرب وزرائے داخلہ کی کونسل کے بتیسویں اجلاس کے موقع پر کہا ہے کہ بعض ریاستوں اور حکومتوں کے ایسے گماشتے دہشت گرد گروپ موجود ہیں جو اپنی توانائیوں کو سعودی عرب کی سلامتی اور استحکام کو تہہ و بالا کرنے کے لیے صرف کر رہے ہیں اور وہ ہمارے وجود کے تسلسل کے منافی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔‘‘

یہ چار خبریں ہیں جو صرف تین روز کے اندر مختلف اخبارات میں شائع ہوئی ہیں لیکن اپنے اندر معانی، سوالات اور خدشات و امکانات کا ایک وسیع جہان سموئے ہوئے ہیں جس کے بہت سے پہلوؤں میں سے ہر ایک مستقل گفتگو اور بحث و تجزیہ کا متقاضی ہے۔ مگر سرِ دست ان کی تفصیلات میں جانے کی بجائے ہم اہل السنۃ والجماعۃ کے علماء کرام، راہ نماؤں اور دانشوروں کی خدمت میں ایک سوال پیش کرنے کی جسارت پر اکتفا کر رہے ہیں کہ کیا ہمارے لیے اس ساری صورت حال میں کچھ سوچنے، سنجیدہ ہونے اور اپنے اپنے لیے کوئی عملی کردار طے کرنے کی کسی درجہ میں کوئی گنجائش باقی ہے یا ہمارا کام صرف گرماگرم تقریریں کرنا اور پر جوش نعرے لگانا ہی رہ گیا ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter