الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے قیام کا پس منظر

   
تاریخ : 
۸ دسمبر ۱۹۹۹ء

ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ کوئی ایسا ادارہ ہو جو درس نظامی کے فضلاء کے لیے فکری و ذہنی تربیت گاہ کے ساتھ ساتھ مطالعہ و تحقیق اور تحریر و تقریر کا تربیتی مرکز بنے۔ دینی مدارس کا موجودہ نظام جس بین الاقوامی دباؤ اور اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں کی مداخلت کے خطرہ سے دوچار ہے اس کے پیش نظر دینی مدارس کے منتظمین کے ذہنی تحفظات کی وجہ سمجھ میں آتی ہے، اس لیے ان کے داخلی نظام میں کسی بڑی تبدیلی کی سردست کوئی توقع ہے اور نہ ہی میں خود موجودہ فضا میں اس کے حق میں ہوں۔ البتہ دینی مدارس کے نظام اور نصاب کو چھیڑے بغیر الگ طور پر اس قسم کے تجربے کو مدت سے جی چاہتا ہے کہ درس نظامی کے نصاب کو اس ترتیب کے ساتھ پڑھایا جائے جس سے:

  • ایک طالب علم درس نظامی کی ضروری تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کم از کم گریجویشن تک کی عصری تعلیم بھی مکمل کر لے۔
  • اور اس کے ساتھ ہی درس نظامی کے فضلاء کے لیے ایک یا دو سال کا اضافی کورس ہو جس میں انہیں انگلش بطور زبان، تاریخِ اسلام، تقابلِ ادیان و نظریات اور اسلامی نظامِ حیات کے ضروری مضامین کے علاوہ مطالعہ و تحقیق اور جدید اسلوب میں تحریر و تقریر کی مشق کے ساتھ میٹرک یا ایف اے کی تیاری کرا دی جائے۔

آج سے دس سال قبل گوجرانوالہ میں کچھ دوستوں نے مل کر ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے نام سے ایک بڑا تعلیمی ادارہ بنانے کا پروگرام بنایا تو بے حد خوشی ہوئی کہ اس دیرینہ خواہش کی تکمیل کی کوئی صورت نکل آئے گی۔ چنانچہ ان دوستوں کے ساتھ میں بھی شریک ہوگیا اور ان احباب نے، جن میں شہر کے سرکردہ علمائے کرام، صنعتکار اور پروفیسر حضرات شامل تھے، ایک ٹیم کے طور پر کام کا آغاز کر دیا۔ شاہ ولی اللہ ٹرسٹ قائم ہوا، شاہ ولی اللہ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی تشکیل پائی، اور ٹرسٹ کے نام پر گوجرانوالہ سے لاہور جاتے ہوئے ایمن آباد موڑ سے دو کلومیٹر پہلے ریلوے لائن کے دوسری طرف اٹاوہ کے ساتھ اٹھائیس ایکڑ زمین خریدی گئی جس پر اس وقت تک تین بلاک تعمیر ہو چکے ہیں۔ یونیورسٹی کے مقاصد کم و بیش وہی تھے جن کا پہلے تذکرہ کر چکا ہوں۔ شہر کے دوستوں نے دل کھول کر ہمارے ساتھ تعاون کیا، چنانچہ اب تک تقریباً ایک کروڑ روپے سے زائد رقم لگ چکی ہے جو شہر کے اصحاب خیر سے ہی حاصل ہوئی۔ ہم نے بیرونی ممالک اور سرکاری اداروں سے کوئی رقم نہ لینے کی پالیسی طے کر لی تھی جو ابھی تک قائم چلی آرہی ہے۔ اس لیے ایک آدھ جزوی استثنا کے ساتھ یہ ساری رقم گوجرانوالہ کے احباب ہی کی مہیا کردہ ہے۔

کچھ عرصہ قبل ہم نے تعلیمی سلسلہ کا آغاز کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ کالج شروع کیا جس میں مروجہ نصاب کے ساتھ ساتھ عربی زبان اور دینی تعلیم کا اس طرح اضافہ کیا کہ گریجویشن کرنے والا طالب علم قرآن و حدیث سے براہ راست استفادہ کی استعداد سے بہرہ ور ہو جائے۔ دوسری طرف درس نظامی کے فضلاء کے لیے پنجاب یونیورسٹی کی شرائط کے مطابق بی اے کی کلاس کا اہتمام کیا۔ یہ سلسلہ جیسے تیسے چار سال تک چلتا رہا اور علماء کی دو کلاسیں اور کالج کی ایک کلاس طے کردہ ہدف تک پہنچی۔ مگر ہماری ٹیم میں، جس کا اوپر تذکرہ کر آیا ہوں، باہمی انڈر اسٹینڈنگ قائم نہ رہ سکی اور رفتہ رفتہ ذہنی فاصلے بڑھتے گئے۔ میرا اور میرے بزرگوں کا ذہن اس طرف تھا کہ دینی تعلیم اور مشنری ذوق کو غالب رکھا جائے اور ظاہر بات ہے کہ یہ دو پہلو غالب ہوں گے تو بھاری فیسوں کے ملنے کا امکان نہیں ہوگا جبکہ ہمارے صنعتکار دوستوں کا یہ خیال ہے کہ تعلیمی نظام کو اس طرح مرتب کیا جائے کہ دوسرے تعلیمی اداروں کی طرح فیسیں وصول ہوں اور یونیورسٹی اپنے اخراجات خود پورے کرے۔ میں نے یہ بات سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ جس تعلیم اور مضامین کی سوسائٹی میں اس وقت مانگ ہے ہم اگر وہی پڑھائیں گے تو جو فیس بھی ہم مقرر کر لیں گے ملے گی، لیکن اگر ہم وہ کچھ پڑھائیں گے جو ہم چاہتے ہیں تو پھر ہمیں فیسوں کی توقع چھوڑ کر تعلیمی اخراجات کافی عرصہ تک خود برداشت کرنا پڑیں گے۔ مگر میں یہ بات ان دوستوں کو سمجھانے میں ناکام رہا اور آج سے دو سال قبل تعلیمی کام بالکل بند ہوگیا۔

اس کے بعد سے ہماری میٹنگیں اور مشاورت مسلسل جاری ہے مگر کسی بات پر اتفاق نہیں ہو رہا۔ اب ہمارے دوست وہاں میڈیکل کالج کا پروگرام بنا رہے ہیں، مجھے اس کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں ہے مگر ہمارا اس ادارہ کے قیام میں بنیادی مقصد یہ نہیں تھا اور نہ ہی شہر کے دوستوں نے ہمیں اس عنوان سے پیسے دیے تھے۔ چنانچہ میں نے ان دوستوں سے محاذ آرائی اور قطع تعلقی کا راستہ اختیار کیے بغیر اپنے مذکورہ بالا مشن کے لیے الگ طور پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس کے لیے پیشرفت شروع کر دی ہے۔ گوجرانوالہ شہر میں جی ٹی روڈ پر کنگنی والا میں سیالکوٹ بائی پاس موڑ سے کچھ پہلے سرتاج فین کے عقب میں ہمارے ایک پرانے بزرگ حاجی یوسف علی قریشی مرحوم آف کھیالی کے خاندان نے ایک کنال زمین مسجد و مدرسہ کے لیے وقف کی ہے اور اس کی تولیت و انتظام کے اختیارات تحریری طور پر مجھے تفویض کیے ہیں۔ جہاں تین منزلہ عمارت کے نقشہ کی تیاری کے بعد تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے۔ یہ منصوبہ ’’الشریعہ اکادمی‘‘ کے نام سے ہے جس میں مسجد خدیجۃ الکبریٰ، مدرسۃ البنات، دفاتر، دارالاقامہ، لائبریری، دارالمطالعہ اور فری ڈسپنسری شامل ہیں۔ اس وقت ہم نچلی منزل، جو تہہ خانہ کی صورت میں ہے، کی دیواروں کا کام تقریباً مکمل کر چکے ہیں اور رمضان المبارک کے دوران ان شاء اللہ العزیز اس پر چھت ڈالنے کا پروگرام ہے جو پورے کنال کا ہوگا۔ جبکہ مجوزہ تعلیمی پروگرام میں:

  • درس نظامی جمع گریجویشن،
  • فضلائے درس نظامی کی مذکورہ بالا دو کلاسیں،
  • پرائمری پاس طلبہ و طالبات کے لیے حفظ قرآن کریم اور ترجمہ کے ساتھ میٹرک کا پانچ سالہ کورس،
  • ملازم اور کاروباری طبقہ کے لیے عربی اور ترجمہ قرآن کریم کی کلاس،
  • اور مختلف دینی مضامین کے حوالہ سے معلوماتی خط و کتابت کورسز بھی شامل ہیں۔

ہماری خواہش ہے کہ ضرورت کے مطابق تعمیر ہو جانے کے بعد ابتدائی کلاسیں جلد از جلد شروع کر دی جائیں۔ ہم اس تعلیمی پروگرام کو کاروباری انداز میں نہیں بلکہ خالص مشنری طریقہ سے چلانا چاہتے ہیں اور اس قسم کے کام اصحابِ خیر کے تعاون سے ہی تکمیل پاتے اور جاری رہتے ہیں۔ میرے قریبی احباب اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرا مزاج اندرون ملک یا بیرون ملک کہیں بھی روایتی انداز میں چندہ جمع کرنے کا نہیں ہے ورنہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے معاملات میں بھی شاید گرفت اتنی کمزور نہ رہتی۔ بس بے تکلف دوستوں کی حد تک ایک آدھ بار توجہ دلانے کا معمول ہے اس سے زیادہ کسی سے مالی معاملات میں کچھ کہنا میرے بس میں نہیں ہوتا۔ اس لیے میں ان دوستوں سے جو اس پروگرام سے اتفاق رکھتے ہیں اور تعاون کر سکتے ہیں گزارش کر رہا ہوں کہ وہ اس کار خیر ہمارا ہاتھ بٹائیں۔ کوئی دوست تعمیراتی سامان کی صورت میں تعاون کرنا چاہیں، مسجد کے کسی حصہ کی تعمیر اپنے ذمے لینا چاہیں، کسی بزرگ کے ایصال ثواب کے لیے کمرہ الگ سے مخصوص کرنا چاہیں، یا فری ڈسپنسری کے شعبہ کو تعاون کے لیے ترجیح دینا چاہیں، اس سلسلہ میں تعاون کی رقم ’’الشریعہ‘‘ کے نام سے اکاؤنٹ نمبر ۱۲۶۰ حبیب بینک لمیٹڈ بازار تھانے والا برانچ گوجرانوالہ میں براہ راست بھجوائی جا سکتی ہے اور مزید معلومات کے لیے راقم الحروف سے مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter