اسرائیلی وزیراعظم کا منصوبہ اور امریکی صدر کی منظوری

   
تاریخ : 
۲۱ اپریل ۲۰۰۴ء

امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے گزشتہ روز اسرائیلی وزیر اعظم شیرون کے ساتھ ملاقات کے بعد ان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں دریائے اردن کے مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر، اور اسرائیل کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے ایک بڑے حصے پر اسرائیلی قبضے کے بارے میں اسرائیل کے موقف کی جس حمایت کا اعلان کیا ہے، وہ اگرچہ غیر متوقع نہیں لیکن اس سے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ایک نئی ہلچل ضرور پیدا ہوئی ہے اور عرب راہنماؤں کی طرف سے اس پر سخت ردعمل کا اظہار ہو رہا ہے۔

  • اخباری اطلاعات کے مطابق صدر بش نے پالیسی میں بڑی تبدیلی لاتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون کے غزہ کی پٹی کے یکطرفہ انخلا کے متنازعہ پلان کی حمایت کر دی ہے، جس کے تحت اسرائیل آدھے فلسطینی علاقوں پر مستقل قبضہ کر کے باقی علاقے چھوڑ دے گا، اور فلسطینی مہاجرین کا اسرائیل میں واپسی کا حق بھی اس پلان میں ختم کر دیا گیا ہے۔ صدر بش نے اس موقع پر کہا کہ اسرائیل کو ۱۹۶۷ء کی سرحدوں پر واپس جانے کی ضرورت نہیں، اور یہ بات بھی غیر حقیقت پسندانہ ہے کہ اسرائیل کو ۱۹۴۹ء کی سرحدوں تک مکمل طور پر واپس جانے کو کہا جائے۔ نیز انہوں نے فلسطینی مہاجرین کا اسرائیل واپسی کا حق مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مہاجرین کو نئی فلسطینی ریاست کی حدود میں ہی آباد رہنا ہو گا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق بش اور شیرون کی اس ملاقات میں دو دستاویزات کا تبادلہ کیا گیا جن میں عملی طور پر شیرون کی تمام شرائط کو قبول کر لیا گیا ہے۔ بش کے حوالے کی جانے والی اسرائیلی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ دیوار کی تعمیر کو تیز کر دیا جائے گا، جبکہ مغربی کنارے میں ۱۲۱ یہودی بستیوں میں سے اسرائیل ۱۲۰ کا قبضہ اپنے پاس رکھے گا، جو فلسطین کا نصف بنتا ہے۔
  • دوسری طرف فلسطین کے صدر یاسر عرفات اور وزیراعظم احمد قریع نے اس منصوبے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ صدر بش کی طرف سے شیرون منصوبے کی حمایت سے پورے علاقے کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ یاسر عرفات نے کہا ہے کہ فلسطینی عوام مقبوضہ علاقوں پر یہودی بستیاں ہرگز قبول نہیں کریں گے، اور نہ ہی فلسطینی مہاجرین کی اپنی سرزمین پر واپسی کے حق سے دستبردار ہوں گے۔
  • ادھر اقوم متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے اسرائیلی منصوبے کی یکطرفہ امریکی حمایت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے تنازع کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا چاہیے۔ جبکہ فرانس کے صدر جیک شیراک نے الجزائر کے دارالحکومت میں صدر عبد العزیز بوتفلیکہ کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بش کی طرف سے اسرائیل کی حمایت سے ایک تشویشناک روایت قائم ہو گی اور اسرائیل کی طرف سے دریائے اردن کے مغربی کنارے پر واقع یہودی بستیاں برقرار رکھنے کا فیصلہ خطرناک ہے۔

اسرائیل گزشتہ صدی کے دوران جس انداز سے وجود میں آیا ہے اور جس طریقے سے مسلسل آگے بڑھ رہا ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے اسرائیلی اقدامات کی یہ نئی امریکی حمایت ہماری توقعات کے خلاف نہیں، بلکہ ہمارے نزدیک یہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ عزائم اور ایجنڈے سے بہت کم ہے۔ لیکن بہرحال یہ ایک نئی پیشرفت ہے اور اس کے ذریعے امریکہ نے اپنے عزائم اور پروگرام سے ایک اور نقاب کو الٹ دیا ہے جس سے وہ حقیقت، جس کی اہلِ نظر کی طرف سے ایک عرصے سے نشاندہی کی جا رہی تھی، زیادہ کھل کر دنیا کے سامنے آ گئی ہے۔

اب سے ایک صدی قبل دنیا کے نقشے پر اسرائیل کا وجود نہیں تھا اور فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر خلافتِ عثمانیہ کا تیاپانچہ کرنے کے بعد فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا، اور دنیا بھر سے یہودیوں کو ترکِ وطن کر کے فلسطین میں آباد ہونے کی سہولتیں فراہم کیں، تا آنکہ برطانوی ترغیب اور تحفظ کی چھتری تلے یہودیوں کی اچھی خاصی تعداد فلسطین میں آباد ہو گئی۔ پھر اقوامِ متحدہ کے ذریعے فلسطین کو ان کا وطن تسلیم کرتے ہوئے فلسطین کے ایک حصے کو یہودی ریاست کے طور پر اسرائیل کے نام سے قیام کا جواز فراہم کر دیا گیا۔ اقوامِ متحدہ نے اپنی قرارداد (نمبر ۱۸۱/ ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء) میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسرائیلی اور فلسطینی دو الگ الگ ریاستوں کا اصول طے کیا اور دونوں کی حد بندی بھی کر دی۔ لیکن نہ صرف یہ کہ فلسطینی ریاست ایک خودمختار ملک کے طور پر ابھی تک قائم نہیں ہو سکی، بلکہ اسرائیل نے کئی بار مسلح جارحیت کر کے فلسطین کے بہت سے مزید علاقوں پر بھی قبضہ جما لیا، ۱۹۴۹ء اور ۱۹۶۷ء میں فوج کشی کر کے بہت سے فلسطینی علاقے اپنے مقبوضات میں شامل کر لیے، لاکھوں فلسطینی اس جارحیت کا شکار ہو کر مہاجر بن گئے اور کیمپوں میں دربدر ہوئے۔

فلسطینیوں نے اپنے وطن کے تحفظ اور مقبوضہ علاقوں کی واپسی کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، مگر اسرائیل کی عسکری قوت اور اس کی پشت پر امریکہ کی دیوہیکل طاقت نے فلسطینیوں کی جدوجہدِ آزادی کو آگے نہ بڑھنے دیا۔ اور بالآخر امریکہ نے فلسطینی تحریکِ آزادی کے قائد یاسر عرفات کو قائل کر لیا کہ اگر وہ مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کر دیں تو مذاکرات کے ذریعے فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینیوں کے جائز حقوق کی بحالی کے لیے امریکہ ان سے تعاون کرے گا۔ یاسر عرفات نے اس یقین دہانی پر اعتماد کرتے ہوئے مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کر کے مذاکرات کی میز پر آنا قبول کر لیا، جس کا نتیجہ آج ان کے سامنے ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں، فلسطینی ریاست، اور فلسطینی مہاجرین کے سب معاملات گول ہو گئے ہیں۔ اور امریکہ کے صدر بش نے اسرائیلی وزیر اعظم شیرون کے اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے، جس کے تحت اسرائیل نے ۱۹۴۹ء اور ۱۹۶۷ء میں جن علاقوں پر بزور طاقت قبضہ کیا تھا، اور جسے اقوامِ متحدہ نے بھی آج تک جائز قرار نہیں دیا، ان علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو جائز تسلیم کرتے ہوئے صدر بش نے نہ صرف شیرون منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا ہے، بلکہ فلسطینی عوام کے اپنے علاقوں کی طرف واپسی کے حق کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، جو جنگل کے قانون اور دھونس و دھاندلی کی ایک بدترین مثال ہے۔

اسرائیل کے قیام کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، اس دوران اسرائیل جس سینہ زوری سے فلسطینیوں کے جائز حقوق اور آزادی کو دبائے ہوئے ہے، اور عالمی برادری کے مطالبات اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو جس دیدہ دلیری کے ساتھ مسترد کرتا آ رہا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ یہ بات سب پر واضح ہے کہ اسرائیل کو یہ حوصلہ صرف اور صرف امریکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے حاصل ہے۔ ورنہ اگر امریکہ اسرائیل کی ناجائز حمایت چھوڑ دے، اور فلسطینی قوم کے جائز قومی موقف کی حمایت نہ سہی، بلکہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں اور فیصلوں کا ہی لحاظ کر لے، تو اسرائیل کی اس دہشت گردی اور درندگی کو بریک لگ سکتی ہے جو وہ فلسطینیوں اور عرب عوام کے خلاف نصف صدی سے مسلسل اختیار کیے ہوئے ہے۔ لیکن امریکہ نے اس بات کی قسم کھا رکھی ہے کہ اس نے ہر حال میں یہودیوں کو تقویت دینی ہے، اسرائیل کی پشت پناہی کرنی ہے، اور اس کی ہر جائز و ناجائز بات کی حمایت کرنی ہے۔ اس کے لیے اسے نہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پروا ہے، نہ ہی اپنے ’’عرب دوستوں‘‘ کے جذبات و مفادات کا لحاظ ہے، اور نہ ہی مظلوم فلسطینیوں کی کسمپرسی کا کوئی پاس ہے۔

اس صورتحال میں دو باتیں بطور خاص قابلِ توجہ ہیں:

  1. ایک عرب ممالک کے لیے کہ کیا یہ سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ’’دوستی‘‘ کے زمرے میں ہی شمار کرتے ہیں؟ اور کیا اب بھی انہیں اقوام متحدہ سے کوئی توقع ہے کہ وہ اسرائیل کی جارحیت و دہشت گردی کی روک تھام اور عرب ممالک نیز فلسطینیوں کے جائز حقوق کے تحفظ کے لیے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی اور کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ یہ انتہائی اہم بات ہے، اور شاید اس سے زیادہ سنجیدہ مرحلہ اس کا جائزہ لینے کے لیے پھر سامنے نہ آئے۔ اس لیے اگر عرب حکمرانوں میں حس اور سنجیدگی نام کی کوئی چیز باقی رہ گئی ہے تو انہیں مل بیٹھ کر امریکہ کی دوستی اور اقوام متحدہ سے وابستہ توقعات کا ازسرنو جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ اس وقت کوئی متبادل سامنے نہیں ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ متبادل خودبخود سامنے نہیں آیا کرتے، انہیں تلاش کرنا پڑتا ہے اور ہمت و حوصلہ کے ساتھ ان کے لیے راہ ہموار کرنا پڑتی ہے۔ پھر مسلمان کی حیثیت سے ہمارا ایمان ہے کہ جب مسلمان حق کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور پیشرفت کا عزم کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کامیابی کی راہیں بھی سجھا دیا کرتے ہیں، مگر اس کے لیے پہلے ارادہ اور اس کے بعد عزم شرط ہے۔ اس لیے عرب حکمرانوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ایک بار پھر مل بیٹھیں، اور صرف معروضی حالات کو سامنے رکھ کر نہیں، بلکہ گزشتہ ایک صدی کے تسلسل پر نظرثانی کر کے اپنی پالیسیوں اور ترجیحات کا ازسرنو تعین کریں۔ بظاہر یہ بہت مشکل ہے لیکن اس کے سوا عزت و وقار کا کوئی بھی راستہ نہیں ہے۔ اس لیے جتنی جلد یہ راستہ اختیار کیا جائے گا اتنا ہی عربوں کے حق میں بہتر ہو گا۔
  2. دوسری بات جو ہم پاکستان کے حکمرانوں کے گوش گزار کرنا ضروری سمجھتے ہیں، وہ یہ کہ ہم نے بھی کشمیر میں مسلح جدوجہد کی نفی کر کے مذاکرات کی میز بچھنے کا فیصلہ کیا ہے، یاسر عرفات کے نقش قدم پر چلنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے، اور جنوبی ایشیا کے تنازع کو حل کرنے کے لیے امریکہ اور اقوام متحدہ پر اعتماد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے اور امریکہ کے حوالے سے کشمیر کا تنازع حل کرنے کی طرف عملی پیشرفت سے قبل فلسطین کی تحریکِ آزادی اور یاسر عرفات کے ساتھ کھلے بندوں روا رکھے جانے والے امریکی طرزعمل کا ایک بار مطالعہ ضرور کر لینا چاہیے، ہو سکتا ہے ہدایت کا کوئی راستہ نظر آجائے۔ اور اگر سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ہمارے مہربانوں نے اسی راستے پر چلنے کا تہیہ کر لیا ہے تو اس قومی خودکشی سے انہیں کیسے روکا جا سکتا ہے؟
   
2016ء سے
Flag Counter