قادیانیوں کو مسلمانوں کی صف میں شامل کرنے کی مہم

   
تاریخ : 
۱ ستمبر ۲۰۱۵ء

ایک خبر کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے چیئرمین صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو قانونی نوٹس بھجوایا ہے کہ وہ دو ہفتے کے اندر اپنی اس تقریر کی وضاحت کریں جو انہوں نے گزشتہ ہفتے لندن میں قادیانیوں کے سالانہ عالمی اجتماع میں کی ہے، جس میں انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بارے میں پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی غلطی قرار دیتے ہوئے قادیانیوں کے موقف کی حمایت کی ہے۔ عاصمی صاحب نے اپنے نوٹس میں کہا ہے کہ پاکستان کے دستور کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہ ماننے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں، اس لیے واجد شمس الحسن اپنی پوزیشن واضح کریں ورنہ ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے عدالت سے رجوع کیا جائے گا اور انہیں ملک میں واپس لانے کے لیے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔

اس سے قبل پنجاب اسمبلی بھی واجد شمس الحسن کے مذکورہ بیان کی مذمت میں متفقہ قرارداد منظور کر چکی ہے جس میں اسے پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کی توہین قرار دیا گیا ہے۔ جہاں تک واجد شمس الحسن کی قادیانیوں کے عالمی اجتماع میں شرکت اور خطاب کا تعلق ہے، یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے بلکہ ہمارے خیال میں قادیانیوں کو مسلمانوں کی صف میں دوبارہ شامل کرنے کی عالمی مہم کے نئے راؤنڈ کا آغاز ہے۔ اس میں واجد شمس الحسن نے خود کو قربانی کے پہلے بکرے کے طور پر پیش کرنے کا حوصلہ کیا ہے اور اس پر مسلمانوں کا رد عمل سامنے آنے کے بعد قربانی کا بکرا بننے کے خواہشمند حضرات کی ایک لمبی قطار ہے جو عالمی استعمار کی اس مہم کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی اپنی باری کے انتظار میں ہے۔ بلکہ اگر ہماری اس گزارش کو مبالغے پر محمول نہ کیا جائے تو اسلام آباد میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر قائم ہونے والا ’’انسانی حقوق سیکرٹریٹ‘‘ بھی اسی مہم کا ایک مورچہ نظر ہوگا جسے قادیانی گروہ اور اس کے ہمنوا سیکولر حلقے مل کر آرگنائز کریں گے اور اس مورچہ کو حکومتی اور ریاستی وسائل و اسباب کی پشت پناہی بھی حاصل ہو گی۔

اس پس منظر میں لاہور ہائی کورٹ بار کی انسانی حقوق کمیٹی کے حوالہ سے سامنے آنے والی یہ خبر تحریک ختم نبوت کے شعوری کارکنوں کے لیے ایک حوصلہ افزا خبر ہے۔ تحریک ختم نبوت کسی زمانے میں قومی تحریک ہوا کرتی تھی جس کی قیادت میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے ساتھ ساتھ مختلف طبقات کے اصحاب فکر و دانش بھی پیش پیش ہوتے تھے۔ حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑویؒ ، حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ ، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ ، اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے ساتھ ساتھ علامہ محمد اقبالؒ ، مولانا ظفر علی خانؒ ، اور مولانا مظہر علی اظہر کے نام بھی تحریک ختم نبوت کے راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ جبکہ وکلاء، سیاستدان، صحافی اور تاجر طبقات خود کو اس تحریک کا حصہ سمجھتے تھے۔

ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں سابق صدر پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ اپنے دور وکالت میں مسلم لیگی راہنما تھے اور تحریک ختم نبوت کے قانونی محاذ پر سرگرم کارکن تھے۔ گوجرانوالہ کے میاں منظور الحسن مرحوم مسلم لیگی لیڈر تھے جو بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر بنے مگر تحریک ختم نبوت میں ان کا کردار نمایاں تھا۔ گوجرانوالہ کلاتھ مارکیٹ بورڈ کے صدر شیخ یوسف احرارؒ تحریک ختم نبوت کے پر جوش خطیب تھے۔ جبکہ قومی سطح پر تحریک ختم نبوت کے مختلف ادوار میں آغا شورش کاشمیریؒ ، جناب مجید نظامی مرحوم، جناب مجیب الرحمن شامی، محمد صلاح الدین شہید، اور جناب مصطفی صادق مرحوم جیسے بڑے صحافیوں کا کردار کس سے مخفی ہے؟ مگر اب یہ تحریک ختم نبوت سمٹتے سمٹتے ایک مسلکی مورچہ کی شکل اختیار کر گئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وکلاء، تاجر حضرات، صحافی، سیاستدان، اور دیگر طبقات میں تحریک ختم نبوت کا ذوق تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا۔ جبکہ تمام مذہبی مکاتب فکر کے علماء نے اپنے الگ الگ ختم نبوت محاذ بنا لیے ہیں جس کی وجہ سے بہت سی ختم نبوت کانفرنسوں میں اجتماعیت کی بجائے کسی نہ کسی مسلک کی چھاپ گہری ہونے لگی ہے۔

قادیانیوں کا خیال ہے کہ اس وقت ملک کے دینی حلقے، مدارس اور راہنما عالمی دباؤ اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کی کاروائیوں کا نشانہ ہیں اور دفاعی پوزیشن میں ہیں، اس لیے وہ عالمی سیکولر حلقوں اور ملک کے دین بیزار دانشوروں کا کوئی نیا محاذ قائم کر کے ۱۹۷۴ء سے پہلے کی پوزیشن بحال کرانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یہ اگرچہ ان کی خوش فہمی ہے، اس لیے کہ پاکستانی عوام اپنے تمام تر افتراق اور فکری افراتفری کے باوجود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس اور عقیدہ ختم نبوت کے محاذ پر پوری طرح متحد و متفق ہیں۔ اور اس حوالہ سے ان سے کسی لچک کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اس کے باوجود تحریک ختم نبوت کے دائرہ کار، طرز عمل اور ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اور اس بات کو ہم ایک بار پھر دہرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہماری اصل قوت قومی وحدت، رائے عامہ کا دباؤ، اسٹریٹ پاور اور تحریکی ماحول ہے جس کے بغیر ہم آنے والے حالات کا شاید صحیح طور پر سامنا نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے ہمیں اس جدوجہد میں کامیابی کے لیے ۱۹۷۴ء کا ماحول دوبارہ قائم کرنا ہوگا۔ (۱) قرارداد مقاصد (۲) قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا قومی فیصلہ اور (۳) ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا قانون ہماری مضبوط دفاعی لائن ہے جس پر حوصلے کے ساتھ کھڑے ہو کر پاکستان کی نظریاتی شناخت کا تحفظ بھی کیا جا سکتا ہے اور سیکولر قادیانی گٹھ جوڑ کا مقابلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

قادیانیوں نے اپنے بارے میں پوری دنیا کی امت مسلمہ کے اجماعی موقف کو قبول نہ کرنے اور پاکستانی پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کو ہر حال میں ناکام بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اس کے لیے وہ عالمی سطح پر مسلسل سرگرم عمل ہیں اور انہیں بہت سے بین الاقوامی اداروں اور سیکولر حلقوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ وہ اپنے ان ہمنواؤں کی سرپرستی میں ایک بار پھر کوئی نیا معرکہ بپا کرنے کی فکر میں ہیں جس کا نقطہ آغاز قادیانیوں کے سالانہ عالمی اجتماع میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق ہائی کمشنر کا مذکورہ خطاب ہے۔ اسے محض ایک تقریر سمجھ کر اس کی مذمت کی قرارداد پاس کر دینا اور مذمتی بیانات جاری کر دینا کافی نہیں ہے بلکہ اسے اسلام آباد کے ’’انسانی حقوق سیکرٹریٹ‘‘ کے لیے طے کیے جانے والے ایجنڈے کی ایک ترجیحی شق سمجھ کر اس کے بارے میں قومی و دینی حلقوں کو کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ اس کے لیے عملی پیش رفت کی ذمہ داری ظاہر ہے کہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی جماعتوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ خدا کرے کہ ہم سب مل جل کر وقت کے اس اہم دینی تقاضے کی بہتر طور پر تشکیل و تکمیل کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter